خواجہ آصف پھٹ پڑے۔عدم اعتماد کی تحریک‘ چیئرمین سینیٹ کا تو کچھ نہ بگاڑ سکی‘اپوزیشن جماعتوں کے باہمی اعتماد کو ضرور چاٹ گئی۔ اقتدار کی سیاست کے اپنے تقاضے ہیں۔یہ لمحہ موجود میں فیصلے کاتقاضا کرتی ہے۔یہاں سو دو زیاں کو مؤخرنہیں کیا جا سکتا۔یہ نقد سودے کا بازار ہے۔اس ہاتھ دے ‘اس ہاتھ لے۔باایں ہمہ جمہوریت ایک ارتقا پذیر عمل ہے۔حسبِ منشانتائج کے لیے ممکن ہے کہ برسوں انتظار کرنا پڑے۔یوں اقدار کی سیاست کرنے والا ہمیشہ خسارے میں رہتا ہے ۔ کیا دنیا میں کوئی بازی‘ صرف شکست کے امکان کے ساتھ تادیرکھیلی جا سکتی ہے؟
اس سوال کے جواب کے لیے زندگی کو فی الجملہ سمجھنا پڑے گا۔ہم اپنی زندگی کی تعمیرکیسے کرتے ہیں؟ شعوری یا غیر شعوری طور پر ہم دو کام کرتے ہیں۔ایک کا تعلق تصور سے ہے اور ایک کا حکمتِ عملی سے۔تصوراتی سطح پرمیںیہ طے کرتا ہوں کہ یہ چند اقدار ہیں جو مجھے ہر حال میںعزیزرہیں گی۔ان کی حفاظت کی جائے گی اور ان کے لیے میں زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کر سکتا ہوں۔دوسرا دائرہ وہ ہے جس میں ‘میں رخصت اختیار کر سکتا ہوں۔وقتی مصلحت کا لحاظ کرتے ہوئے ایسا فیصلہ کر سکتا ہوجو ممکن ہے کہ نظری طور پر مثالی نہ ہو۔مجھے اپنا گھر بسانا ہے۔میرے ذہن میں مثالی جیون ساتھی کا ایک تصور ہے۔دنیا میں ایسے خواتین و حضرات کم پائے جاتی ہے جو مثالی ہوں۔مجھے معلوم ہے کہ اس معاملے کو‘ میں عمر کے ایک خاص مرحلے تک مؤخر کر سکتاہوں۔اس کے بعد مجھے بہرحال ایک فیصلہ کرنا ہے۔اس مرحلے میں پھر مجھے طے کرناہوتا ہے کہ کون سی خصوصیات ایسی ہیں جو اگر نہیں پائی جاتیں تو میں کنوارا رہنے کو ترجیح دوں گا اور کون سی ایسی ہیں جن کی عدم موجودگی کو گوارا کیا جا سکتا ہے۔
دوسرا دائرہ حکمت عملی کا ہے۔سواری میری ضرورت ہے‘ لیکن میرے وسائل اتنے ہیں کہ موٹر سائیکل ہی خریدی جا سکتی ہے۔بطورحکمت ِ عملی میں آج اس پر اکتفا کرتا ہوں اور یہ منصوبہ بندی کرتا ہوں کہ دو سال میں گاڑی خریدنے کے قابل ہو جاؤں۔یوں میں آج موٹر سائیکل ‘اس امید پرخرید لیتا ہوں کہ اِس وقت یہ آمدو رفت کی ضرورت کو پورا کرے گی‘ لیکن ایک خاص وقت کے بعد ‘میرے پاس گاڑی ہو گی۔ہم میں سے ہر کوئی‘ شعوری یا غیر شعوری طور پر یہی طرزِ عمل اختیار کرتا ہے۔عملی معاملات کو ہم دو دائروں میں منقسم کرتے ہیں۔ ایک وہ جہاں ہم مصلحت اختیار کرتے ہیں‘دوسرا دائرہ وہ ہے جہاں ہم ڈٹ جا تے ہیں۔اس کے ساتھ ہم مادی زندگی میں تدریج کے ساتھ ترقی کے مراحل طے کرتے ہیں۔اپنی مادی استعدادا بڑھاتے چلے جاتے ہیں ‘یہاں تک کہ ہدف ہمارے دسترس میں ہوتا ہے۔
اجتماعی اور سیاسی دنیا میں بھی یہی ہو نا چاہیے ۔سیاسی جماعتوں اور عوام ‘دونوں کو اپنے اپنے دائروں میں یہ طے کرنا ہے کہ کہاں لچک دکھائی جا سکتی ہے اور کہاں صعوبتیں برداشت کی جا سکتی ہیں‘ مگر مفاہمت کا رویہ اختیار نہیں کیا جا سکتا۔مثال کے طور پر انتخابات کا وقت آ گیا‘اب عوام کو ووٹ کا فیصلہ کرنا ہے۔ان کے پاس یہ متبادل موجود نہیں کہ وہ مثالی قیادت کے ظاہر ہونے کا انتظار کریں۔انہیں بہر حال ایک متعین تاریخ کو اپنی رائے دینی ہے۔اب ان کے لیے بہتر راستہ یہی ہے کہ مو جود میں سے بہتر کا انتخاب کریں اور اپنی نظریں کھلی رکھیں کہ انہیں خوب سے خوب تر کی جستجو میں رہنا ہے۔سیاسی جماعتوں کوبھی فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔مثال کے طور پر وہ کوئی ایسی حکمت عملی اختیار نہیں کریں گی جس سے غیر جمہوری قوتیں مضبوط ہوں اور معاشرے میں جبر کاکلچر پروان چڑھے۔یا یہ کہ سیاسی جماعتیں اہلِ ثروت کی یرغمال بن جائیں۔ انہیں یہ بھی فیصلہ کرنا ہے کہ بقا کے تقاضے کہاں تک ہیں اور بقا سے ان کی مراد کیا ہے؟کیا سیاست محض اقتدار کا کھیل ہے؟یہ سوال بحث کوسیاست اور اخلاقیات کے باہمی تعلق کے دائرے میں لے جا تا ہے۔
انسانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اخلاقیات اور سیاست کے مابین مضبوط رشتہ دو صورتوں ہی میں قائم ہو سکتا ہے۔ایک یہ کہ کسی الہامی منصوبے کے تحت اور الٰہی مداخلت سے نیک لوگ اقتدار تک پہنچ جائیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اقتدار کی سیاست کو ایک اداراتی بندو بست کے تابع کر دیا جائے جس کی نگرانی اجتماعی شعور کے سپرد ہو۔پہلی صورت کی عملی مثال خلافتِ راشدہ ہے۔یہ ایک الٰہی منصوبہ تھا۔قرآن مجید نے سورہ نور میں اس کو بیان کیا ہے۔ختم نبوت کے بعدآسمانی مداخلت کا یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔اب صرف دوسری صورت باقی ہے۔اس کی عملی مثال مغرب کا معاشرہ ہے۔مغرب میں ارتقائی مراحل طے کر نے کے بعد‘ایک طرف اقتدار ایک اداراتی نظم کے تابع ہو گیا اور دوسری طرف عوام کا اخلاقی و سیاسی شعور اس سطح پر پہنچ گیا جہاں اگر کوئی مروجہ اخلاقیات سے انحراف کرے تو نظام منحرف کو اُگل دیتا ہے۔کسی کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ سماجی اخلاقیات سے متصادم رویے کے ساتھ نظام کاحصہ رہ سکے۔
یکم اگست کو‘سینیٹ میں جو کچھ ہوا ‘اس کے بعد کوئی سیاسی بھونچال آیا نہ عوامی سطح پر کوئی قابلِ ذکراضطراب پیدا ہوا۔اس سارے عمل میں دوفریق تھے۔ایک خریدنے والااوردوسرابیچنے والا۔اس میں اشتباہ ہے کہ بکنے والا کون تھا لیکن اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ خریدار کون تھا۔خریدار کھلے عام مٹھائیاں کھا رہا ہے اور کھلا رہا ہے اور ساتھ ہی اپنے لیڈر سے داد بھی وصول کر رہاہے۔اس حلقے میں خریدار ہیرو ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن کا معاملہ یہ ہے کہ ہر جماعت اپنی آنکھ کا شہتیر دیکھنے کے بجائے دوسرے کی آنکھ کا تنکا دیکھ رہی ہے۔مجھے اندازہ ہے کہ اس کشمکش کا انجام کیا ہوگا۔بقا کا خوف سب کو مجبور کرے گا کہ وہ خاموشی اختیار کریں۔یہاں پھر سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کا معیار کیا ہے؟کہاں خاموش رہنا ہے اور کہاں آواز اٹھانی ہے؟پھر یہ کہ عوام کیا سوچ رہے ہیں؟ کیا وہ معاملے کو درست تناظر میں دیکھ رہے ہیں؟
بقا کی جد وجہد میں اصولوں کی پاس داری آسان نہیں ہو تی۔اس ماحول میں سیاسی جماعتوں کے بجائے‘یہ علَم اہلِ دانش کو تھامنا ہو تا ہے۔انہوں نے عوام کو بتانا ہے کہ طاقت کا کھیل بے رحم ہو تا ہے‘ مگر اصول اس کھیل سے بے نیاز ہوتے ہیں۔سیاست ایک جاری عمل ہے۔اس میں کچھ فیصلے لمحہ موجود میں کرنا ہوتے ہیں اور کچھ ایک طویل جدوجہد کے متقاضی ہیں۔ چودہ سینیٹر زکی تلاش کافی نہیں‘سوال یہ ہے کہ اب ان کی معاشرتی حیثیت کیا ہے؟ میرا خیال ہے اب بحث کو یہاں سے اٹھانا چاہیے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کیوں مستحکم نہیں ہو رہی؟ ہم ترقیٔ معکوس کا شکار کیوں ہیں؟سماجی سطح پر کون سی تبدیلیاں ناگزیر ہیں ‘جن کے بغیر جمہوریت نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے اہم بات یہ ہے کہ آج کا دانشوران سوالات کا کہاں تک ادراک رکھتا ہے اور اس کی فکری استطاعت کتنی ہے؟
(پس ِتحریر:میرے کالموںکے مجموعے''متبادل بیانیہ ‘‘ کا تیسرا ایڈیشن ‘نئے اضافوں‘ترتیب نوِ اور مبسوط مقدمے کے ساتھ شائع ہو گیا ہے۔یہ وہ کالم ہیں جوسماج ‘ ریاست اورمذہب کے باہمی تعلق کے مختلف پہلوؤں پر 2016 ء سے2018ء تک کے درمیانی عرصے میں‘روزنامہ ''دنیا‘‘ میں چھپتے رہے ۔ مقدمے میں ‘میں نے اس نظامِ فکر کو تفصیلاًبیان کر دیا ہے جو ان متفرق کالموں کو ایک دوسرے سے مربوط کرتاہے۔اسے 'اقبال انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ ‘ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی‘ اسلام آباد‘ نے شائع کیا ہے۔)