لاہور کے 'وارث میر انڈر پاس‘ کا نام تبدیل کر دیا گیا۔ میں ملک و قوم کو درپیش مسائل کو دیکھتا ہوں اور ساتھ حکمرانوں کی ذہنی سطح کو تو اندیشے مجھے گھیر لیتے ہیں۔ چیلنج بڑے ہوں تو قیادت بھی بڑی ہونی چاہیے۔
راولپنڈی کا نواز شریف پارک، علامہ اقبال پارک ہو گیا اور شہباز شریف پارک، قائد اعظم پارک۔ سیاسی کشاکش میں اس کا جواز تلاش کیا جا سکتا ہے کہ جس ذہنی اور اخلاقی سطح کی سیاست کا یہاں چلن ہے، اس میں حریفوں کے نام گوارا نہیں ہوتے۔ یہاں یوم تکبیر اس لیے نہیں منایا گیا کہ اس میں نواز شریف کا نام آتا ہے۔ یہ سب قابلِ فہم مگر سوال یہ ہے کہ وارث میر کس کے حریف تھے؟ ان کا نام ہٹانا کیوں ضروری سمجھا گیا؟ یہ اخلاقی جرات تو کسی میں نہیں کہ اس سوال کا جواب دے۔ اس لیے میں جواب کی توقع رکھے بغیر، صرف ان اندیشوں کا اظہار کر سکتا ہوں۔
میرے ان اندیشوں میں کچھ اور باتیں بھی اضافہ کر رہی ہیں۔ جیسے عرب دنیا میں مودی صاحب کی پذیرائی۔ کشمیر سے امتِ مسلمہ کی ایسی بے نیازی دیکھ کر ہمارے اندیشے بڑھ جاتے ہیں۔ عالمی قوتوں سے بھی خیر کی زیادہ امید نہیں کی جا سکتی۔ اہلِ کشمیر کے لیے ظلم کی رات طویل ہو رہی ہے اور کہیں صبح کے آثار نہیں۔ مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمیں اس وقت وہ قیادت میسر نہیں جو مسائل کا ادراک اور انہیں حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ نہ سیاسی نہ نظری۔
سیانے لوگ دوسروں کے تجربات سے سیکھتے ہیں۔ اپنی عمر تجربات میں تمام نہیں کرتے۔ ہماری قوم اپنی ترکیب میں خاص ہے۔ دوسروں سے سیکھنا تو درکنار، ان کے پامال راستوں پر چلتی ہے، یہ جاننے کے باوجود کہ اس راہ کے مسافروں کا انجام کیا ہوا۔ عمران خان مودی کو ہٹلر کے مماثل قرار دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ وہ مخالفانہ رائے کو برادشت نہیں کرتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کبھی انہوں نے پاکستان کے موجودہ طرزِ سیاست پر بھی غور فرمایا ہے؟
آج ہمارے سامنے تین محاذ ہیں۔ ایک نظری۔ دوسرا داخلی۔ تیسرا خارجی۔ نظری محاذ پر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے تصورات میں کہاں کجی پائی جاتی ہے۔ ان کی اصلاح ہو گی تو کوئی قابلِ عمل حکمتِ عملی بھی تلاش کی جا سکے گی۔ جیسے امتِ مسلمہ کا ایک خود ساختہ تصور جس کے تحت ہم مسلمانوں کو ایک سیاسی وحدت سمجھتے ہیں۔ تاریخ نے بارہا ہمیں کچوکے لگائے اور ہماری پیٹھ پر کوڑے برسائے، یہ سمجھانے کے لیے کہ ان واہموں سے نکلو اور اپنی بقا کا سامان اپنے وسائل میں تلاش کرو۔ افسوس کہ ہم نے فطرت کی تعزیروں سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔
کلامِ اقبال کے حفاظ کو ہم نے فکرِ اقبال کے شارحین سمجھا جو ہمیں بتاتے رہے کہ اقبال بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک سیاسی وحدت کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ ہم نے اقبالیات کے کسی سنجیدہ استاد سے رجوع نہیں کیا‘ جو ہمیں بتاتا کہ اقبال تو بالکل دوسری بات کہہ رہے تھے۔ ان کا درس تو یہ تھا کہ جدید تاریخ نے مسلمانوں کو قومی ریاستوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ گویا اب دنیا میں کئی مسلم اقوام پائی جاتی ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے، اب ہر قوم کو چاہیے کہ ساری توجہ اپنی داخلی تعمیر پر دے۔ اگلے مرحلے میں یہ ممکن ہے کہ ان کے مابین کوئی 'لیگ آف مسلم نیشنز‘ جیسا اتحاد وجود میں آ جائے۔ اقبال جان چکے تھے کہ خلافت یا سلطنت کا دور اب ختم ہو چکا۔
ہم نے سیاسی حوالے سے بھی دین کی درست تعبیر نہیں کی۔ ہم یہ سمجھتے رہے کہ آج بھی فضائے بدر پیدا کی جا سکتی ہے اور فرشتے نصرت کو اتر سکتے ہیں۔ ہم واعظین کے بجائے قرآن مجید کے کسی عالم سے رجوع کرتے تو وہ ہمیں بتاتا کہ نصرتِ الٰہی کا قانون کیا ہے۔ آج بھی ایسے مبلغین موجود ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ایمان ٹیکنالوجی اور مادی طاقت کا متبادل ہے۔ ستم در ستم کہ سنجیدہ صاحبانِ علم بھی اس 'جذبہ ایمانی‘ کو قابلِ رشک کہتے ہیں۔ یہ گرہ کوئی صاحبِ علم ہی کھول سکتا ہے کہ ایمان کا تعلق اخروی کامیابی سے ہے اور ٹیکنالوجی کا اس سنتِ الٰہی سے جو اس مادی دنیا میں جاری و ساری ہے۔
اب آئیے داخلی محاذ کی طرف۔ یہ معلوم ہے کہ کوئی قوم جب تک انفرادی سطح پر طاقت ور نہیں ہو گی، وہ کوئی معرکہ سر نہیں کر سکتی۔ انفرادی طاقت میں اولین حیثیت مادی طاقت کی ہے۔ مادی طاقت سرمائے کی گردش سے جنم لیتی ہے۔ اگر ہم سرمائے کو سازگار ماحول نہیں دیں گے تو وہ کوچ کر جائے گا۔ جہاں سیاسی استحکام نہیں ہوتا، سرمایہ وہاں تا دیر قیام نہیں کرتا۔ سیاسی استحکام کے لیے سیاسی و معاشرتی تنوع کا احترام کرنا پڑتا ہے۔
ہم اس تاریخی تجربے کی نفی کرتے ہوئے یک جماعتی نظام کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ مخالفین کے وجود ہی کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔ ملک کا وزیر اعظم خود کو اس مخمصے سے نہیں نکال سکا کہ وہ ملک کا وزیر اعظم ہے یا کسی سیاسی جماعت کا۔ اس کے باوجود ہم گمان رکھتے ہیں کہ یہاں معاشی استحکام ہو گا اور خوش حالی آئے گی۔ ہمارا خیال یہ بھی ہے کہ سیاست کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں‘ جمہوریت محض ایک ڈھکوسلا ہے‘ ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر جو چاہے کرے‘ چاہے تو اکثریت کو اقلیت میں بدل ڈالے۔
خارجی محاذ پر دیکھیے تو وہی ملک کامیاب ہو سکتا ہے جس کے دوستوں کی تعداد زیادہ ہو۔ صرف تجارت نہیں، ہر تصور اور شے اب گلوبل ہو رہی ہے۔ اگر دنیا میں آپ کے دوست کم ہیں تو عالمی فورمز پر آپ کے موقف کی تائید کم ہو جائے گی۔ کشمیر، تجارت، حتیٰ کہ اقلیتوں کے حقوق جیسے داخلی مسائل پر بھی ہمیں دوستوں کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہمارے دوستوں کی تعداد بہت کم ہے۔ ہم اس میں کوئی اضافہ نہیں کر پا رہے۔
اس کے لیے چین کی مثال دی جا سکتی ہے۔ سنکیانگ کی مسلم آبادی کے بنیادی حقوق کا مسئلہ عالمی سطح پر اٹھا تو ستائیس ملک چین کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ ان میں سعودی عرب اور پاکستان جیسے کئی مسلمان ممالک بھی شامل تھے۔ اگر چین کو یہ دوست میسر نہ آتے تو اس کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے تھے۔ اسی طرح ہمیں آئے دن عالمی فورمز پر حمایت کی ضرورت رہتی ہے۔ اگر آج ہمارے عزیز ترین دوست مودی کو اعلیٰ ترین اعزازات سے نواز رہے ہیں تو ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہماری خارجہ پالیسی کس نو عیت کی تبدیلی چاہتی ہے۔
یہ تین محاذ ہیں جہاں قوم کو قیادت کی ضرورت ہے۔ پہلے محاذ پر اہلِ علم و دانش کو بروئے کار آنا ہے۔ دوسرے اور تیسرے محاذ پر حکومت، ریاست اور اہلِ سیاست کو۔ بد قسمتی سے تینوں محاذوں پر خاموشی ہے یا پراگندگیٔ فکر۔ قومی امور پر دینی نقطہ نظر سے گفتگو کرنے والوں کا معاملہ تو سب سے افسوس ناک ہے۔ بات بات پر علمِ جہاد لہرانے والوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے۔ اگر ان کا قلم اٹھتا بھی ہے تو اربابِ اقتدار کی قصیدہ خوانی کے لیے۔
رہی ریاست اور حکومت تو اسے ابھی کئی درجے اہم امور کا سامنا ہے‘ جیسے انڈر پاس اور پارکوں کے ناموں کی تبدیلی۔ تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے یہ کارنامہ کیا کم ہے کہ نواز شریف پارک کا نام علامہ اقبال پارک ہو گیا۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم کی ارواح کتنی خوش ہوں گی کہ پاکستان کو ان کے حقیقی جانشین مل گئے۔ سابقہ حکمران اگر اس معاملے میں کسی خوش ذوقی کا مظاہرہ نہیں کر سکے تو موجودہ حکمرانوں نے بتا دیا کہ ان سے بھی بہتری کی توقع نہ رکھی جائے۔
انڈر پاس کا نام تبدیل کرنے سے وارث میر مرحوم کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وہ اپنے حصے کا کام کر کے رخصت ہو چکے۔ نام تبدیل کرنے والوں کو البتہ ضرور فرق پڑے گا۔ تاریخ کو ابھی ان کے بارے میں فیصلہ دینا ہے۔ مورخ لکھے گا کہ جب کشمیر میں ایک فیصلہ کن معرکہ برپا تھا، پاکستانی حکمرانوں کی ترجیحات کیا تھیں۔