جناب طاہرالقادری نے سیاست سے توبہ کر لی مگر بعد از خرابیٔ بسیار۔ کاش اس ملک میں سماجی احتساب کی کوئی عدالت ہوتی جہاں یہ سوال اٹھایا جاتا کہ خواب فروشی کے اس جرم کی کیا سزا ہے جو ہزاروں افراد کے مستقبل کو برباد کر دے؟
1989ء میں، موچی دروازے کے ایک جلسے میں قادری صاحب نے ایک سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کیا۔ روحانیت اور پیش گوئیوں میں بسی ہوئی ایک فضا میں بتایا گیا کہ یہ اقدام مقدس ہستیوں کی اجازت سے کیاگیا ہے۔ اس سیاسی جماعت کے اعلان سے پہلے مقدس مقامات کا سفر کیا گیا اور اس کے لیے حتمی منظوری لی گئی۔
1985ء میں قادری صاحب نے ادارہ منہاج القرآن قائم کیا تو اسلامی انقلاب کے لیے پانچ مراحل پر مشتمل ایک منہج کا اعلان کا: دعوت، تنظیم، تربیت، تحریک اور انقلاب۔ سیاسی جماعت کے قیام کا تعلق چوتھے مرحلے سے تھا۔ اس کا ناگزیر نتیجہ اسلامی انقلاب تھا‘ جو ان کے اندازے کے مطابق 2000ء میں برپا ہونا تھا۔ وقت نے ان کے تمام تخمینے غلط ثابت کر دیے۔ 1990ء کے انتخابات میں ایک عبرت ناک شکست ان کی منتظر تھی۔
زمینی حقائق نے جلد ہی انہیں بتا دیا کہ یہ مرحلہ پیش گوئیوں کے سہارے طے نہیں ہو سکتا؛ چنانچہ انہوں نے سیاست کو خیرباد کہتے ہوئے تعلیم کو اپنا میدانِ عمل قرار دے دیا۔ اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے۔ ملک بھر میں انہوں نے تعلیمی اداروں کا جال پھیلا دیا۔ علوم کی اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک یونیورسٹی بھی قائم کی۔ وہ دین کا جو فہم رکھتے تھے، اس میں جوہری طور پر کوئی ندرت نہیں تھی؛ تاہم انہوں نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو مذہبی بنیادوں پر متاثر کیا اور بریلوی مسلک کے علمِ کلام میں قابلِ ذکر اضافہ کیا۔
تعلیمی میدان کی فتوحات نے سیاسی انقلاب کی خواہش کو ایک بار پھر زندہ کر دیا۔ یہ مشرف صاحب کا دور تھا‘ جب ان کے نخلِ آرزو پر برگ و بار آئے۔ آمر ہمیشہ عوامی تائید کے لیے سہارے کے محتاج رہتے ہیں۔ انہیں ایسے سیاسی کرداروں کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنا حلقہ اثر رکھتے ہوں اور حکومت کی شدید آرزو بھی‘ لیکن ان کا حلقہ اثر اتنا بڑا نہ ہو کہ وہ محض عوامی تائید سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکتے ہوں۔ ایسے افراد اور گروہوں کو ریاستی سرپرستی کی ضرورت ہوتی ہے اور آمروں کو عوامی تائید کی۔ مذہبی گروہوں میں ایسے لوگ آسانی سے مل جاتے ہیں۔
اس باہمی ضرورت نے طاہرالقادری صاحب اور پرویز مشرف کو اکٹھا کر دیا۔ وہ قومی اسمبلی میں پہنچا دیے گئے اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ مشرف صاحب انہیں کسی بڑے منصب سے نوازیں گے۔ ملک کی شاہراہوں اور راستوں کو ایسے پوسٹروں سے بھر دیا گیا‘ جن پر قادری صاحب اور مشرف صاحب کی تصاویر تھیں۔ ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی کہ مشرف صاحب کو چوہدری شجاعت حسین اور جناب پرویز الٰہی کی تائید میسر آ گئی۔ قادری صاحب اقتدار تک پہنچنے سے بال بال بچ گئے۔
خواہش لیکن مری نہیں۔ مقتدر حلقوں سے ان کے جو تعلقات استوار ہوئے، اس نے امید کی ڈوری کو ٹوٹنے نہ دیا۔ انہیں ایک بار پیپلز پارٹی کے دور میں، میدان میں اتارا گیا یا وہ خود اترے۔ لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کا انہیں ملکہ حاصل ہے۔ پورے زورِ خطابت سے انہوں نے اس دور کو یزید ی حکمرانی کا تسلسل بتایا۔ تعلیمی اداروںکا انہوں نے جو جال بچھایا تھا، اس کی افرادی قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے اسلام آباد میں کئی دن دھرنا دیے رکھا‘ لیکن اس بار بھی انہیں نامراد لوٹنا پڑا۔
تادمِ تحریر، آخری بازی انہوں نے عمران خان کے ساتھ مل کر کھیلی۔ 2014ء کے دھرنے کا وہ ہراول دستہ تھے۔ یہ کیا کھیل تھا، اس کا مقصد کیا تھا، اس کے پیچھے کون تھا، وقت نے ایک ایک سوال کا جواب دے دیا۔ اس کی تفصیل میں پڑے بغیر، اس کا ثمر عمران خان صاحب کی جھولی میں گرا اور قادری صاحب مصطفیٰ زیدی کے الفاظ میں، زبانِ حال سے پکارتے دکھائی دیے:
وہ داستاں تھی کسی اور شہزادے کی
مرا لہو تھا فقط زیبِ داستان کے لیے
کئی ناکامیوں کے بعد، اب انہوں نے سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا ہے تو لازم ہے کہ وہ چند سوالات کا سامنا کریں:
٭ انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ وہ یہ سب کام مدینہ سے آنے والے حکم سے کر رہے ہیں۔ یہ ساری داستان بتاتی ہے کہ یہ دعویٰ عوام کے جذبات سے کھیلنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ آج پوچھا جانا چاہیے کہ اب ان کے پاس اس دعوے کی کیا توجیہہ ہے؟
٭ قادری صاحب نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ اپنے اجتہاد سے کیا یا کسی کے حکم سے کیا؟
٭ اس لا حاصل جدوجہد میں لوگوں سے جو قربانیاں لی گئیں، اس کا حساب کون دے گا؟
٭ قادری صاحب نے سیاست کے اس عمل کو حق و باطل کا معرکہ بنایا۔ مخالفین کو یزیدی کہا۔ حق و باطل کے اس معرکے سے لا تعلق ہونا، کیا ایک کمزوری کا اظہار نہیں؟
پاکستان میں اس وقت سماجی احتساب کا کوئی نظام موجود نہیں جو ایسے لوگوں کا محاسبہ کرے جو عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو اس طرح کے المیے کبھی نہ رقم ہوں۔ سماجی احتساب وہاں ممکن ہوتا ہے‘ جہاں عوام کی شعوری سطح بلند ہو۔ پاکستان میں لوگوں کی سیاسی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں کبھی مذہب کے نام پر استعمال کیا جاتا ہے تو کبھی احتساب کے نام پر۔ کاش یہ ممکن ہو کہ ایک تجربے کی ناکامی کے بعد لوگ عبرت حاصل کریں اور آنے والے دور میں کسی کے ہاتھوں استعمال نہ ہوں۔
مجھے اس کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ کل طاہرالقادری صاحب ایک بار پھر سیاست میں سرگرم نہیں ہوں گے۔ 2000ء کی انتخابی ناکامی کے بعد بھی انہوں نے سیاست سے الگ ہونے کا اعلان کیا تھا‘ مگر پھر بھی بارہا اس کوچے میں آ نکلے۔ میں نے ان دنوں دوبارہ چھپنے والی اپنی کتاب ''اسلام اور پاکستان‘‘ میں لکھا تھا: ''اگرچہ سردست انہوں نے سیاست کو خیرباد کہہ کر تعلیم کے فروغ کو اپنا مقصد قرار دیا ہے‘ لیکن اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ دوبارہ قسمت آزمائی کے لیے اس وادی میں آ نکلیں‘‘۔ یہ کتاب پہلی بار 1995ء میں شائع ہوئی تھی۔
یہی ہوا۔ وہ ایک بار نہیں، بار بار سیاست میں متحرک ہوئے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ آئندہ بھی اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ سیاست میں نہیں آئیں گے۔ مجھے اس کا بھی پورا یقین ہے کہ انہیں ان کے حصے کے مظاہرین، سامعین اور مجاہدین بھی مل جائیں گے‘ جو اپنی آنکھیں، کان اور جانیں ان کے حوالے کر دیں گے، ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کی طرح۔
یہ کام میڈیا اور سول سوسائٹی کا ہے کہ وہ لوگوں کی شعوری تربیت کرے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ اس دور میں انقلاب کا تصور، کسی بھی عنوان سے ہو، ایک سراب کے سوا کچھ نہیں۔ عوام کو علم ہو کہ مذہبی جذبات کا استحصال کیسے ہوتا ہے۔ لوگوں کو معلوم ہو کہ تاریخ میں مذہب کو کیسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ یہی نہیں، ان کو شعور ہو کہ جب کوئی عصری سیاست کے لیے بدرو حنین یا کربلا کی تشبہیات استعمال کر رہا ہے تو ایسی مبالغہ آمیز بیانیوں سے دور رہنا چاہیے۔
جمہوریت کا تسلسل بڑی حد تک عوام کی شعوری تربیت کا فطری طریقہ ہے؛ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ جمہوریت کو ایک کلچر کے طور پر اختیار کیا جائے۔ لوگوں کو آزادانہ اپنی بات کہنے کی اجازت ہو تاکہ وہ اس قابل ہوں کہ غلط اور صحیح میں تمیز کر سکیں۔ ایسا وقت آنے تک، طاہرالقادری صاحب کے اگلے اعلان کا انتظار کیجیے۔ یہ سیاست میں ایک بار پھر واپسی کا اعلان بھی ہو سکتا ہے۔