کیا آج نون لیگ نواز شریف کے بیانیے کا عَلم تھامے گی؟ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ، نون لیگ رہے گی یا نون سے شین ہو جائے گی؟
شہباز شریف صاحب کا بیانیہ تو واضح ہے۔ بھائی کی محبت بھی انہیں اپنے بیانیے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹا سکی۔ اضطراب کے شدید عالم میں جب دل عقل کی بندشوں سے آزاد ہو جاتا ہے، کم از کم ایک معاملے میں تو انہوں نے اپنے دل کو تھامے رکھا۔ عمران خان کے لیے تو ان کے جذبات کا تلاطم تھمنے میں نہیں آتا‘ لیکن اُن کے سرپرستوںکے لیے یہ سرد پڑ جاتے ہیں۔ ان کی وادی سے گزرتے وقت، جذبات کی لہریں پُر سکون رہتیں اور کناروں کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے بہتی ہیں۔ وہ زبانِ حال سے بارہا بتا چکے کہ نواز شریف صاحب کے بیانیے سے انہیںکوئی سروکار نہیں۔
شہباز شریف صاحب کی غیر موجودگی میں، پارٹی کے امور جس کمیٹی کے سپرد ہیں، اس کی اراکین کی شہرت بھی یہی ہے۔ یہ شہباز شریف صاحب کے مقلدین کا گروہ ہے۔ وہ احسن اقبال اب قصۂ پارینہ ہوئے جو کبھی اسلام آباد میں گرجتے تھے کہ وزیرِ داخلہ وہ ہیں لیکن یہاں احکامات کسی اور کے مانے جا رہے ہیں۔ اس لیے مجھے تو اس بات کا امکان دکھائی نہیں دیتا کہ ن لیگ، اس بیانیے کا عَلم اٹھا سکے گی، جس کو زندہ رکھنے کے لیے نواز شریف اپنی جان پر کھیل گئے۔
امید کی سب نظریں مریم نواز صاحبہ کی طرف اٹھتی ہیں۔ کیا وہ اس جھنڈے کو تھامیں گی؟ میرا خیال ہے کہ اس کا فیصلہ ایک آدھ ماہ میں ہو جائے گا۔ اگر وہ برطانیہ کا رخ کرتی ہیں تو پھر نواز شریف صاحب کے بیانیے کے حامی، کم از کم اِس وقت، مسلم لیگ کی طرف سے جواب ہی سمجھیں۔ نواز شریف صاحب اور مریم نواز نے کلثوم نواز کو بسترِ مرگ پر چھوڑا اور پاکستان کا رخ کیا۔ اُن کے اس اقدام نے ن لیگ کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ اسے ایک بارپھر اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا۔ آج نون لیگ کو پھر اسی طرح کا چیلنج درپیش ہے۔ مریم نواز پاکستان میں نواز شریف صاحب کے بیانیے کا عَلم اٹھاتی ہیں یا برطانیہ میں باپ کی عیادت کو ترجیح دیتی ہیں۔ ہر فیصلے کے اپنے نتائج ہیں۔ تاریخ کا جبر اسی کو کہتے ہیں۔ اگر آج مریم نواز برطانیہ جانے کا فیصلہ کرتی ہیں تو کیا نواز شریف کا بیانیہ لا وارث ہو جائے گا؟
اقتدار میں عمران خان کے کتنے دن باقی ہیں؟ اب کے کچھ اپنے بھی انہیں انگلیوں پر شمار کر رہے ہیں۔ دس یا نو دن یا پھر پانچ گھنٹے؟ اشاروں میں باتیں ہو رہی ہیں۔ ہر کسی کی اپنی تقویم ہے۔ ''دن‘‘ سے کیا مراد ہے اور ''گھنٹے‘‘ کو کس کے مساوی سمجھا جائے؟ ایسی باتیں کبھی کھل کر نہیں ہوتیں۔ ہم جس تقویم سے واقف ہیں، اس کے مطابق تو عمران خان کو بنانے والوں نے پانچ سال کے لیے وزیر اعظم بنایا تھا۔ کیا انہوں نے خان صاحب کو وقت سے پہلے گھر بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ کیا یہ فیصلے اسی طرح ہوتے رہیں گے؟
ہوا کے رخ میں جس تبدیلی کا اشارہ دیا جا رہا ہے، اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دائرے کا سفر جاری ہے۔ کیا وزیر اعظم کے نصب و عزل کا فیصلہ اب بھی وہیں ہوتا ہے جہاں، ایک آدھ موقع کے سوا، پہلے ہوتا آیا ہے؟ عوام نہ کسی کو لانے میں فریق ہیں نہ بھیجنے میں۔ کیا ایسے نظام پر جمہوریت کی تہمت دھری جا سکتی ہے؟
کاش ہم تاریخ سے سیکھنے کی اہلیت رکھتے۔ ہم سماجی شعور کا کوئی ثبوت پیش کر سکتے۔ ہم دنیا ہی سے کوئی سبق لیتے۔ کاش ہم اپنے تجربات ہی سے سیکھتے۔ جمہوریت تک کا یہ تہذیبی ارتقا، کیا ایک سفرِ رائیگاں ہے؟ دنیا نے ایک مستحکم سیاسی نظام کا راز جان لیا ہے۔ لوگ مذہب اور ریاست کے باہمی تعلقات کو سمجھ چکے ہیں۔ انہوں نے سماج و ریاست کو درپیش دیرینہ مسائل کا حل دریافت کر لیا ہے۔ دنیا ان مباحث سے اٹھ چکی۔ وہ غور و فکر کے اگلے مرحلے میں داخل ہو چکی۔ سیاسی نظام کی بحث اب ترقی یافتہ دنیا میں نہیں ہوتی۔
یہ ملک تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سیارے پر ایک جزیرہ ہے۔ دنیا سے لا تعلق۔ اس کے فکری افلاس اور پراگندگی کا یہ عالم ہے کہ اس کی نئی پریشان حال نسل اکیسویں صدی میں ''ایشیا سرخ ہے‘‘ کے نعرے لگا رہی ہے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتی کہ دنیا ان خیالات کو بیسویں صدی میں متروک قرار دے چکی۔ فیض اور ساحر اگر آج زندہ ہو جائیں تو اس شاعری کے بڑے حصے سے اعلانِ لا تعلقی کر دیں جو انہوں نے پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں کی۔ مجھے اس نسل پر ترس آتا ہے جو آج بغیر سوچے اور جانے اس شاعری سے اپنے جذبات کو گرما رہی ہے۔
قصور ان نوجوانوں کا نہیں، اس فکری، سیاسی اور مذہبی قیادت کا ہے، جو اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل حل کرنے میں سراسر ناکام ثابت ہوئی۔ جس نے مذہب اور سیاست میں نوجوانوں کو جذبات اور ہیجان میں مبتلا رکھا۔ یہ نسل تو اب اپنے خیر خواہ اور دشمن میں تمیز بھی نہیں کر سکتی۔ یہ مسیحائوں کو مصلوب کرتی، انہیں دشنام کا ہدف بناتی اور اپنے قاتلوں سے محبت کرتی ہے۔
اس نسل کو آج بھی یہ سکھایا جاتا ہے کہ کوئی نجات دہندہ آئے گا جو اس کے مقدر کو بدل دے گا۔ پھر ایسے مسیحا کا بت تراشا جاتا ہے۔ اس کے گرد رومان کا حصار کھڑا کیا جاتا ہے۔ اس کے معمولی کام کو انسانی تاریخ کا منفرد کارنامہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اب اس میں نیا اضافہ یہ ہوا ہے کہ باقاعدہ عامل اور جنوں کو بھی اس کارِ خیر میں شریک کر لیا گیا ہے۔ جب لوگ بت کی پوجا شروع کر دیتے ہیں اور بتوں کی عبادت سے انہیں کچھ فیض نہیں ملتا تو اسے گرانے کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ اقبال نے ہماری اس داستان کو منظوم کر دیا ہے:
ولیکن سرگزشتم ایں سہ حرفست
تراشیدم، پرستیدم، شکستم
نواز شریف کا بیانیہ ہمیں اس جانب متوجہ کرتا ہے کہ بت گری و بت شکنی کے اس کھیل کو اب ختم ہو جانا چاہیے۔ ریاستی ادارے اس دائرے میں سمٹ جائیں جو آئینِ پاکستان نے ان کے لیے مقرر کر دیا ہے۔ آئین عوام کے نمائندوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ امورِ مملکت کو اپنے آدرش اور آرزوئوں کے مطابق چلائیں۔ ریاست کے ادارے اس میں ان کے معاون ہوں۔ یوں اداروں کا احترام ہو اور اس کے ساتھ ریاست میں بھی استحکام آئے۔
جن لوگوں کو نواز شریف سے اختلاف ہے، ان کی خدمت میں یہ گزارش ہے کہ اس مقدمے کو ان سے جدا کر کے دیکھیں۔ اگر کسی کے خیال میں خود نواز شریف صاحب کی اس مقدمے سے وابستگی مشکوک ہے تو انہیں چاہیے کہ ان کی ذات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، اس پر غور کریں۔ یہ بیانیہ نواز شریف صاحب کی اپنی اختراع نہیں۔ یہ انسان کے صدیوں سے جاری تہذیبی سفر کا حاصل ہے۔ ہمیں اپنے سفر کو اس اجتماعی سفر سے ہم آہنگ کرنا ہو گا۔
انسانی قافلے سے بچھڑنے کا صرف ایک جواز ہے۔ ہم انسانوں کو کوئی بہتر متبادل دے سکیں۔ ریاستی اداروں کی نگرانی میں نام نہاد جمہوریت یا صدارتی نظام طرز کے حل کب کے متروک ہو چکے۔ معاشرے کو آگے بڑھنے دیں۔ جب تک ہم انسانیت کو کوئی متبادل نہیں دے سکتے، اور سرِ دست اس کا کوئی امکان نہیں، ہمیں تہذیبی قافلے سے ہم قدم ہو کر چلنا ہو گا۔ سیاست میں یہ قافلہ، شاہراہ جمہوریت پر کامیابی سے پیش قدمی کر رہا ہے۔ ہمیں بھی یہی کرنا ہو گا۔
نون لیگ اگر اس بیانیے کا عَلم نہیں تھامتی اور اسی نظام میں رہتے ہوئے، اپنا حصہ وصول کرنا چاہتی ہے تو اس کا مطلب یہی ہو گا کہ وہ دائرے کے اس سفر کو جاری رکھنے میں فریق ہے۔ پھر اسے اپنا نام نون لیگ کے بجائے شین لیگ رکھ لینا چاہیے۔ اگر مریم نواز بھی اس بیانیے کو چیلنج نہیں کرتیں تو پھر سوچنا ہو گا کہ نواز شریف کے بیانیے کا وارث کون ہے؟