ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں۔ کوئی ہے جو موت کا ہاتھ تھام سکے؟
کل کے اخبار میں چھپنے والی ایک خبر سینہ چیر گئی۔ گوجر خان کے تین بھائی، اپنے ایک جواں سال دوست کے ساتھ نکلے۔ ایک کی عمر چوبیس سال تھی‘ ایک کی تئیس اور ایک کی بیس سال۔ ان کا اپنا میڈیکل سٹور تھا۔ سٹور بند کیا تو اپنی گاڑی پہ، جی ٹی روڈ پر واقع ایک ریستوران میں کھانے کے لیے نکل پڑے۔ ایک خراب ٹریلر سڑک کے کنارے کھڑا تھا۔ گاڑی کی رفتار تیز تھی اور ٹریلر کے ارد گرد کوئی عکس انداز (reflector) بھی موجود نہ تھا۔ گاڑی اس سے جا ٹکرائی۔ چاروں مسافر زندگی کی بازی ہار گئے۔
صرف تصور کیا جا سکتا ہے کہ اُس گھر پہ کیا گزری ہو گی جہاں سے تین جوان جنازے ایک ساتھ نکلے۔ اس کے بعد، وہ گھر کہاں رہا‘ ایک قبرستان سے بھی بدتر‘ جہاں کے مکین بظاہر جیتے ہوں گے مگر اندر سے مردہ ہوں گے۔ یہ کوئی ایسا حادثہ نہیں جو سالوں بعد ہوا ہے۔ ہر دن کا اخبار ایسی خبروں سے لبریز ہوتا ہے۔ ایسے دل ہلا دینے والے واقعات ہوتے ہیں کہ مدتوں ان کا اثر رہتا ہے۔
اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں سب سے زیادہ افراد ٹریفک حادثات میں مارے گئے، دہشت گردی سے بھی زیادہ۔ موٹر وے پولیس کے ذمہ داران نے ایک بریفنگ میں بتایا کہ 2018ء میں چھتیس ہزار افراد ٹریفک حادثات کی نذر ہو گئے (روزنامہ 'ڈان‘ 13 فروری 2019ء)۔ کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر زبیر سلمان کے مطابق جاں لیوا حادثات میں پاکستان ایشیا میں پہلے نمبر پر ہے۔
یہ حادثات کیوں ہوتے ہیں؟ این ای ڈی یونیورسٹی کے ڈاکٹر میر شبیر علی کا تجزیہ یہ ہے کہ 67 فیصد حادثات انسانی غلطی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ 28 فیصد مخدوش سڑکوں اور راستوں کے باعث ہوتے ہیں۔ 5 فیصد حادثات کی وجہ خراب حال گاڑیاں ہیں۔ گویا 72 فیصدحادثات کا تعلق عوامی شعور کے ساتھ ہے۔ اگر اس کی سطح بہتر ہو تو ٹریفک حادثات میں غیر معمولی کمی لائی جا سکتی ہے۔
یہ بات بہت اہم ہے۔ حکومت کی کمزوری اپنی جگہ مگر ہم اس پہلو پر ہمیشہ بہت کم غور کرتے ہیں کہ عوامی شعور کو بہتر بنا کر ہم اپنے بہت سے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر زیادہ تر حادثات تیز رفتاری اور ٹریفک قوانین کو نظر انداز کرنے کے باعث ہوتے ہیں۔ ہم نے اس معاملے میں سماج کو حساس بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اسی طرح اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اگر موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ پہنے ہوں تو ستر فیصد اموات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے ہاں انسانی اموات کا دوسرا بڑا سبب خاندانی اور زمینی جھگڑے ہیں۔ زمین کے ایک ٹکڑے پر نسلوں تک دشمنی چلتی ہے اور بے شمار جانیں اس کی نذر ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح رشتوں سے انکار کو بھی ہم عزت ذلت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور بے دریغ انسانی جان کے درپے ہوتے ہیں۔ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کو بھی اس فہرست میں شامل کر لیں۔
یہ اسباب وہ ہیں جن کا زیادہ تر تعلق انسانی شعور اور تربیت کے ساتھ ہے۔ مجھے ان معاملات میں حکومت کے کردار کا احساس ہے‘ جیسے ہمارا نظامِ عدل ہے۔ اگر عدالتوں سے انصاف نہ ملے یا اس میں غیر ضروری تاخیر ہو تو اس کی وجہ سے بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کا رجحان پیدا ہوتا ہے؛ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ اس تاخیر کی وجہ سے اپنے مسائل میں اضافہ کر لیں۔ ہم جانتے ہیں قانون ہاتھ میں لینے سے انصاف نہیں ملتا بلکہ معاملے کی سنگینی بڑھ جاتی ہے۔ عملاً یہ ہوتا ہے کہ ایک بھائی کے قتل کا انتقام لینے کے لیے کئی بھائی جان دے دیتے ہیں۔ سماجی تناظر میں، یہ بات باعثِ فخر سمجھی جاتی ہے۔
اموات کی ایک اور بڑی وجہ بیماریاں ہیں۔ بیماریوں سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ خود کو بیماریوں سے بچانے کی تدبیر کی جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بیمار ہونے کی صورت میں علاج کرایا جائے۔ پہلے طریقے کا زیادہ تعلق عوامی شعور سے ہے۔ اگر معاشرے میں حفظانِ صحت کے اصولوں کے بارے میں آگاہی پیدا ہو جائے تو بہت سے امراض سے بچا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے عوامی تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے۔
آج نہ صرف یہ کہ ہم یہ کام نہیں کر رہے بلکہ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کی نماز میں نے اسلام آباد کی ایک معروف مسجد میں پڑھی۔ خطیب صاحب نے کارونا وائرس کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کوئی بیماری متعدی یا چھوت نہیں ہوتی‘ یہ سب باتیںغیر دینی ہیں۔ میں مسجد میں بیٹھا کڑھتا رہا کہ یہاں آنے والے سینکڑوں لوگ کیا تعلیم لے کر اٹھیں گے؟ دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ مریض کو محض چھونے سے یہ وائرس دوسرے آدمی کو منتقل ہو جاتا ہے مگر یہاں بتایا جا رہا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوتا اور اس کے لیے دین سے دلیل پیش کی جا رہی ہے۔
خطیب صاحب کو چاہیے تھا کہ عوام کو سادہ سی بات بتاتے۔ وہ ان سے کہتے کہ اللہ نے انسان کو ہدایت کے لیے وحی کے ساتھ عقل کی نعمت سے بھی نواز رکھا ہے۔ جو مسائل عقلِ عام سے حل ہو سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے لیے بالعموم وحی نہیں بھیجتے۔ اگر بیماری پھیل رہی ہو تو عقلِ عام کا تقاضا ہے کہ اس سے بچنے کی کوشش کی جائے اور اس کا علاج کرایا جائے۔ اس بارے میں دن کا حکم یہی ہے کہ اپنی عقل استعمال کرو۔ اللہ تعالیٰ کو اس باب میں وحی بھیجنے کی ضرورت نہیں کہ سردی آئی ہے، لہٰذا اس سے بچنے کی تدبیر کرو۔ رضائی کے فضائل کا بیان دین کی ذمہ داری نہیں ہے۔
چوتھا بڑا سبب عدم برداشت ہے۔ اس کا زیادہ تر تعلق اختلاف سے ہے۔ لوگ مذہب سے لے کر سیاست تک اختلاف کرتے ہیں اور پھر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ ان دنوں میں دیکھ رہا ہوں کہ بعض لوگوں نے اسلام کے دور اول کے بعض تنازعات کو لے کر سوشل میڈیا پر مسلکی اختلاف کا محاذ گرم کر رکھا ہے اور حدود سے تجاوز کیا جا رہا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ اس میں بعض علما بھی شامل ہیں۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ جو تنازعہ چودہ سو سال میں حل نہیں ہو سکا، اس کو روزمرہ بحث کا موضوع کیوں بنایا جا رہا ہے؟ کسی کو بہت شوق ہے تو کسی علمی رسالے میں اپنا موقف شائستگی کے ساتھ بیان کر دے اور اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ جوابی مضمون لکھ دے۔ لوگ دونوں اطراف کے دلائل پڑھ لیں گے اور خود کوئی رائے قائم کر لیں گے۔ پھر فریقین کی طرف سے جو دلائل بیان ہو رہے ہیں، وہ سینکڑوں بار دھرائے جا چکے ہیں۔
اموات کے اسباب اور بھی ہوں گے مگر میرا خیال ہے کہ اصل اسباب یہی چار ہیں۔ اگر ہم ان معاملات میں عوام کی بہتر تعلیم کر پائیں تو انسانی جانوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ اگر معاشرتی تعلیم کو ہم تعلیم نصاب کا حصہ بنائیں اور اس کے ساتھ مسجد، مکتب، میڈیا، این جی اوز اور دیگر سماجی ادارے اس باب میں اپنی ذمہ داری کا ادراک کریں تو ہم اپنے بہت سے مسائل کو کم کر سکتے ہیں۔
اگر معاشرے کو انسانی جان کی حرمت اور انسان کی عزت و مال کی تکریم کے بارے میں حساس بنایا جائے اور اس کے ساتھ سماجی شعور کو بلند کیا جائے تو ہم کہیں بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔ ہم ان جانوں کو بچا سکتے ہیں جو ٹریفک حادثات، غلط روایات، حفظانِ صحت کے اصولوں سے لا علمی اور عدم برداشت کے سبب گنوا دیتے ہیں۔ ان باتوں کا تعلق کسی حکومتی اقدام سے نہیں، سماجی رویوں سے ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ ان امور میں حکومت کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ ہمیں اس بارے میں متوجہ کرتے رہنا چاہیے لیکن اگر حکومت نااہلی کا مظاہرہ کرے تو ہمیں سماج کو اس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ دینا چاہیے۔ اگر سماجی شعور بہتر ہو گا تو اس کا اثر حکومتی کارکردگی پر بھی پڑے گا۔ ہمیں انسانی جان کے بارے میں عوام کو حساس بنانا ہے۔
کوئی روکے کہیں دستِ اجل کو
ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں