بصد احترام عرض ہے کہ مسجد خدا کا گھر ہے، کوئی دکان نہیں (معاذاللہ)۔
اللہ کے آخری رسولﷺ نے فرمایا: مساجد بیت اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ جب انسانی جان کو خطرات نے آ گھیرا تو دل پر پتھر رکھ کر بیت اللہ کو بھی بند کرنا پڑا۔ انسانی جان کی حفاظت دین کا بنیادی مطالبہ ہے۔ جب اس جان کی حفاظت کے لیے اللہ کا یہ قدیم ترین گھر فرض نماز کیلئے بند ہو گیا تو ایک نفلی نماز کے لیے مساجد کو کھلا رکھنے پر اصرار کیوں؟ مکرر عرض ہے، یہ اللہ کا گھر ہے، کسی کی دکان تو نہیں۔
علما کا فیصلہ میرے سامنے رکھا ہے۔ اعلان کیا گیا کہ لاک ڈاؤن کا اطلاق مساجد پر نہیں ہوگا۔ رمضان میں مساجد میں حاضری اور نمازِ تراویح باجماعت ضروری ہے۔ بیمار اور تیماردار مسجد میں نہ آئیں۔ واقعہ یہ ہے کہ علما کا پورا مقدمہ نہ تفہیمِ دین کی کوئی قابلِ رشک مثال ہے نہ عقلِ عام کی۔
علما نے پہلے ہی دن سے اس سارے معاملے کو مذہبی طبقے کے مفاد کی نظر سے دیکھا، انسانی جان کی حفاظت کے پہلو سے نہیں۔ ساری فقاہت اس مسئلے پر مرتکز رہی کہ مساجد کے بارے میں کیا احکام ہیں۔ ان میں بھی مسلکی ترجیحات غالب رہیں۔ ایک مسلک کے پیروکار ایک نقطہ نظر کے ساتھ سامنے آئے اور دوسرے مسلک کے علمبردار ایک دوسری رائے کے ساتھ۔ انسانی جان کی حفاظت توجہ کا مرکز نہ بن سکی۔
ماضی کے اہلِ علم نے مقاصدِ شریعت کی فہرست بنائی تو حفظِ جان کو سرِ فہرست رکھا۔ یہ بلا وجہ نہیں تھا۔ اللہ کی کتاب نے اور رسالت مآبﷺ نے انسانی جان کی یہی اہمیت بتائی ہے۔ قرآن مجید نے اعلان کیا کہ جس نے ایک جان لی، اس نے پوری انسانیت کی جان لی‘ جس نے ایک جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ نے اپنے آخری خطبے میں ارشاد فرمایا کہ ایک مسلمان کی جان کی حرمت بیت اللہ سے زیادہ ہے۔ انسان کی پوری تاریخ میں انسانی جان کے بارے میں نہ قرآن مجید جیسا اسلوبِ بیان مل سکتا ہے نہ رسول اللہﷺ جیسا شدتِ احساس۔
اللہ کتاب صرف دو جرائم کی پاداش میں موت کی سزا سناتی ہے۔ ایک قتل اور دوسرا فساد‘ جس سے انسان کی جان و مال کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ کیا اس جان کے حوالے سے کوئی مسلمان کسی تساہل کا مظاہرہ کر سکتاہے؟ اگرانسانی جان کی یہ اہمیت سامنے رہے توہر اس اقدام سے روکنا دین کا مطالبہ ہے جس سے انسانی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس کو ہمارے فقہا نے سدِ ذرائع کے باب میں بیان کیا ہے۔
اللہ کی شریعت میں بدکاری ایک جرم ہے اور گناہ بھی۔ اس کی سزا قرآن مجید نے بتائی ہے۔ اس کے ساتھ ان اقدامات سے بھی روکا ہے جس کا نتیجہ اس جرم کی حتمی شکل میں نکل سکتاہے۔ سورہ نور میں بتایا کہ جب عوامی مقامات پرمرد اور خواتین کا اختلاط ہو تو دونوں اپنی نگاہیں پست رکھیں اور شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ احکام سدِ ذرائع کے ذیل میں آتے ہیں یعنی ہر اس اقدام سے گریز جس سے انسانی عفت کو خطرات لاحق ہوں۔ اسی اصول پر ہر اس کام سے بچنا دین کا تقاضا ہے جس کے نتیجے میں انسانی جان جا سکتی ہے۔ اس بات کے لیے اب کسی دلیل کی ضرورت نہیں کہ آج اجتماع سے انسانی جان کو خطرہ لاحق ہے‘ لہٰذا سدِ ذریعہ کے اصول پر اجتماعات پر پابندی دین کا تقاضا ہے۔ لازم تھا کہ آگے بڑھ کر علما اس اصول کو بیان کرتے اور لوگوں کو یہ نصیحت کرتے کہ وہ اس ضمن میں حکومت کے احکام کی پوری پابندی کریں اورگھروں میں نماز ادا کریں۔
اس میں شبہ نہیں کہ نماز کی دین میں بہت اہمیت ہے۔ اس کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔ نماز ایک مسلمان سے دین کا پہلا مطالبہ ہے۔ یہی کسی فرد کے مسلمان ہونے کی عملی شہادت ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی واضح ہے کہ نماز دین کا انفرادی حکم ہے۔ اس کا تعلق حقوق اللہ سے ہے۔ یہ ایک انفرادی عبادت ہے۔ یہ گھر میں ادا کی جا سکتی ہے اور اس کے لیے مسجد آنا ضروری نہیں۔
مسلمان مرد کو باجماعت نماز کی تلقین کی گئی ہے لیکن اس ضمن میں واضح رہے کہ ہمارے اہلِ علم نے اسے سنت کے درجے میں رکھا ہے۔ ہماری فقہ میں جو حکم فرض سے کم درجے کا ہو، اس کو سنت کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ باجماعت نماز فرض نہیں ہے۔ جان کو درپیش خطرے کے پیشِ نظر اگر کوئی با جماعت نماز نہیں ادا نہیں کرتا تو وہ فرض کاتارک نہیں ہوگا۔ دین کا معاملہ تو یہ ہے کہ خطرے یا مشکل کے پیشِ نظر، وہ فرض یعنی انفرادی نماز یا روزے کے بارے میں بھی یہ کہتا ہے کہ اس کو ادا کرتے وقت، آسان راستہ اختیارکیا جائے۔ یہاں تو ترکِ فرض کا مسئلہ ہی نہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب فرض کے لیے یسر یعنی آسانی کا راستہ اپنانے کا حکم ہے تو اس عبادت کے لیے کیوں نہیں جسے خود ہمارے علما 'سنت‘ یعنی اس سے کم اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں؟ یہی نہیں، مسجد میں امام، خادم اور مؤذن کی صورت میں چند افرادا موجود ہوتے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے یہاں مساجد بند ہونے کی بھی بات نہیں ہو رہی۔ اس لیے میں بصد احترام یہ عرض کرتا ہوں کہ علما کا مساجد کھولنے پر اصرار دین فہمی کا بھی کوئی اچھا مظاہرہ نہیں۔
نمازِ تراویح کو بھی سنت کہا جاتا ہے لیکن یہ دعویٰ کرنا آسان نہیں۔ لغوی طور پر سنت سے مراد وہ راستہ ہے جس پر قدموں کے بہت سے نشان ہوں۔ اس لیے دین میں سنت اسی طریقے کو کہتے ہیں جسے رسالت مآبﷺ نے امت میں بطور دین جاری فرمایا ہو اور صحابہ نے آپ سے بالاجماع روایت کیا ہو۔ نبیﷺ نے رمضان میں فرض نماز کے علاوہ کسی نئی باجماعت نماز کا حکم نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کہ پھر باجماعت نمازِ تراویح پر یہ اصرار کیوں؟ اس کی تفصیل، میں الگ کالم میں بیان کروں گا۔ یہاں صرف اتنا کہنا ہے کہ جو تراویح کو ضروری سمجھتے ہیں، ان میں بھی بعض کی نزدیک یہ نفل ہے اور بعض کے نزدیک سنت۔ گویا فرض کسی مسلک میں نہیں ہے۔
رہی عقلِ عام کی بات تو یہ کہنا مضحکہ خیز ہے کہ بیمار یا تیماردار مسجد میں نہ آئیں۔ یہ معلوم ہے کہ اس مرض کی کوئی علامت نہیں۔ کوئی آدمی بغیر علامت کے بھی مریض ہو سکتا ہے۔ اس لیے بیمار اور غیر بیمارکی تقسیم اب کسی طور ممکن نہیں۔ پھر یہ کہ اجتماع کا دروازہ کھول دینے کے بعد احتیاط کا وعظ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اس لیے عقلِ عام کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہر اس اقدام سے گریز کیا جائے جس سے انسانی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
اس معاملے میں مولانا فضل الرحمن کا موقف واضح اور معقول تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ انہوں نے اس موقف کی تائید کیسے کی جس میں مساجد میں عام شرکت پر اصرار کیا جا رہا ہے۔ علما اگر مولانا کا موقف اپنا لیتے تو یہ ان کیلئے اور پورے سماج کیلئے بہترہوتا۔ انہوں نے اس باب میں جس طرح ابہام کامظاہرہ کیا اور باجماعت نماز پر اصرار کیاہے، اس سے دین کو نقصان پہنچا اور لوگوں کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ اہلِ مذہب کو کورونا کے پھیلاؤ کے ذمہ داروں کی قطار میں کھڑا کر دیں۔
یہ صورت حال اصلاً حکومت کی کج عملی (Mishandling) سے پیدا ہوئی۔ حکومت نے بغیر ضرورت کے علما کی طرف رجوع کیا۔ پھر اسلامی نظریاتی کونسل کو بطور ادارہ نظر انداز کیا۔ صدر مملکت نے کونسل کے اراکین سے ملاقات کی لیکن اس کا کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ اب وزیرمذہبی امور نے ایک بار پھر علما سے مشاورت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس ملاقات کا بھی وہی انجام ہو گا جو پہلی ملاقاتوں کا ہو چکا۔ مجھے کوئی ابہام نہیں کہ حکومت اسے ایک سیاسی مسئلے کے طور پر دیکھ رہی ہے کہ علما کی مخالفت سے کیسے بچا جائے۔ علما اسے گروہی مفادکے حوالے سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ بہرحال ایک 'انٹرسٹ گروپ‘ ہیں۔ کاش میں انہیں سمجھا سکتا کہ مسجد اللہ کا گھر ہے، کسی کی دکان نہیں۔