رسالت مآب سیدنا محمدﷺ نے ماہِ رمضان کیلئے کسی اضافی باجماعت نماز کا حکم نہیں دیا۔ پھر باجماعت نمازِ تراویح کا آغاز کب ہوا اور اسے سنت کیوں کہا جاتا ہے؟
رمضان نیکیوں کا موسمِ بہار ہے۔ یہ وہ دن ہیں جب عالم کے پروردگار کی رحمت اپنے جوبن پر ہوتی ہے۔ اللہ کا بندہ محض اس کی رضا کے لیے ان مرغوباتِ زندگی سے بھی منہ موڑ لیتا ہے جنہیں اس کے رب نے عام دنوں میں جائز رکھاہے۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ تو ان دنوں میں، اماں عائشہؓ کی شہادت ہے، نیکیوں کے لیے کمر کس لیتے۔ آپ صحابہ کو ترغیب دیتے کہ وہ بھی اس ماہِ مبارک کے ایک ایک لمحے سے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کشید کریں۔ قیامِ رمضان کا تو آپ نے بطورخاص ذکر فرمایا۔
ترغیب اور حکم میں لیکن فرق ہے۔ حکم چھوڑ دیا جائے تو آدمی گناہ گار ہوتا ہے۔ ترغیب کا مقام یہ نہیں ہے۔ کوئی کرے گا تو نیکیوں سے دامن بھر جائے گا۔ نہیں کرے گا تو خدا کے ہاں جواب دہ نہیں ہوگا۔ کوئی فرض نماز چھوڑے گا تو اسے رب کے حضور میں عذر پیش کرنا ہوگا۔ نوافل چھوڑ دے گا تو کوئی سوال نہیں ہو گا۔ رسالت مآبﷺ سے زیادہ کون ہے جو اس فرق کو جانتا ہو۔ اس لیے آپ نے قیامِ لیل کی ترغیب دی، اس کا حکم نہیں دیا۔ قیامِ رمضان کے باب میں، آپ نے جس حکمت کے ساتھ اس فرق کو نمایاں کیا، وہ پیغمبرانہ فراست اورتربیت کاایک اعلیٰ نمونہ ہے۔
بخاری کی روایت ہے کہ رمضان کے دنوں میں ایک بار آدھی رات کو آپﷺ نمازِ تہجد کے لیے مسجد تشریف لائے۔ آپ کا حجرہ مبارک مسجد سے متصل تھا۔ تہجد کی نماز میں پہلے قرأت جہری، یعنی بآواز بلند بھی ہوتی تھی اور سری یعنی دل میں بھی۔ بعد میں قرآن مجید نے ہدایت کی کہ آواز بہت پست ہو نہ بہت اونچی۔ آپﷺ جب تہجد کے لیے مسجد تشریف لائے تو چند صحابہ بھی موجود تھے جو آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہوگئے۔ اگلے دن انہوں نے اپنے احباب سے اس کا ذکر کیا تو ان میں بھی یہ خواہش جاگی کہ وہ بھی اللہ کے رسول کے ساتھ، اس عبادت میں شامل ہوں۔
دسرے دن جب آپﷺ مسجد میں آئے تو گزشتہ رات سے زیادہ لوگ جمع تھے۔ تیسرے دن یہ تعداد اور بڑھ گئی۔ چوتھے دن یہ معاملہ ہوا کہ مسجد نمازیوں سے بھر گئی اور اس میں گنجائش ختم ہوگئی۔ اُس دن آپﷺ حجرے سے باہر تشریف نہیں لائے۔ صحابہ انتظار کرتے رہ گئے۔ فجر کی نماز کے بعد آپ نے صحابہ سے خطاب کیا کہ میں تمہارے آنے سے بے خبر نہیں تھا لیکن اس خیال سے نہیں آیا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے اور تم اسے ادا نہ کر سکو۔
رسالت مآبﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں یہی تین دن ہیں جب آپ نے رمضان میں کوئی نفلی نماز باجماعت ادا کی گئی۔ اس کے بعد لوگ گھروں اور مسجد میں انفرادی طور پر پڑھتے رہے۔ سیدنا ابوبکرؓ کے دور میں بھی صحابہ کا یہی طرزِ عمل رہا۔ سیدنا عمرؓ اپنے دورِ خلافت میں ایک دن مسجد آئے تو دیکھا کہ کوئی باجماعت نماز پڑھ رہا ہے اور کوئی انفرادی طور پر۔ کوئی جہری اور کوئی سری۔ اس سے مسجد میں ایک بد نظمی کی صورت پیدا ہو گئی۔ اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے حضرت عمرؓ نے صحابہ سے کہا کہ وہ کسی ایک کو امام بنا کر ایک ساتھ پڑھ لیں تاکہ مسجد میں ایک نظم پیدا ہو جائے۔
سیدنا عمرؓ نے خود ہی حضرت ابی بن کعبؓ کو امام بھی مقرر فرما دیا۔ ایک اور دن پھر، جب آپ تشریف لائے تو دیکھا کہ مسجد میں ایک نظم ہے اور سب باجماعت نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس پر آپؓ نے تبصرہ کیا کہ یہ (باجماعت نماز) ایک نئی چیز (بدعت) تو ہے لیکن اچھی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ وہ جسے چھوڑ کر (یعنی تہجد جو انفرادی عبادت ہے)، تم یہ پڑھ رہے ہو، اِس( باجماعت) سے افضل ہے (بخاری)۔ حضرت عمرؓ خود اس باجماعت نماز میں شریک نہیں ہوئے۔
آ نے والے دنوں میں اسی طریقے کو اختیار کر لیا گیا‘ یعنی رمضان کے دنوں میں یہ نماز باجماعت نماز پڑھی جانے لگی۔ اب صدیوں سے یہ نماز اسی طرح پڑھی جا رہی ہے۔ بعد کے ادوار میں اس کا اہتمام بھی ہونے لگا کہ ان نوافل میں پورا قرآن پڑھا اور سنا جائے۔ پھر بات شبینے تک چلی گئی۔ شہروں میں بڑے بڑے اجتماعات ہونے لگے اور محض تین دن میں پورا قرآن پڑھا اور سنا جانے لگا۔ اگلے مرحلے میں اس نماز کو جامع مساجد سے ٹیلی وژن کے ذریعے گھر گھر دکھایا جانے لگا۔ یہ اس نماز کا پورا پس منظر ہے جسے ہم نمازِ تراویح کہتے ہیں۔ تراویح کا لفظ عہدِ رسالت میں مستعمل نہیں تھا اس لیے احادیث میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ اس سے چند باتیں پوری طرح واضح ہیں۔
1۔ تراویح کی نماز کوئی سنت نہیں ہے۔ سنت اس عمل کو کہتے ہیں جو رسالت مآبﷺ نے بطور دین امت میں رائج کیا۔ آپ نے اس کا حکم دیا۔ صحابہ نے اس پر عمل کیا۔ یہ واضح ہے کہ حضورﷺ نے خود باجماعت نمازِ تہجد پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔ نہ صرف حکم نہیں دیا بلکہ زبانِ حال سے روک دیا۔ اس کی وجہ بھی بیان فرما دی۔ اس لیے یہ اصطلاحاً سنت نہیں ہے۔
2۔ یہ خلفائے راشدین کی سنت بھی نہیں۔ جس عمل میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ شریک نہ ہوں اور حضرت عمرؓ بھی انفرادی حیثیت میں اس کا حصہ نہ بنیں، اسے خلفائے راشدین کی سنت کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
3۔ یہ اصلاً نمازِ تہجد ہے جسے نمازِ عشا کے ساتھ بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ تہجد کے لیے اٹھ نہیں سکتے ان کے لیے اللہ کے رسولﷺ نے یہ آسانی پیدا کی کہ وہ سونے سے پہلے پڑھ لیں اور اسے وتر کر لیں۔ عشا کی نماز کے ساتھ جو وتر پڑھے جاتے ہیں، یہ اسی تہجد کا حصہ ہیں کیونکہ نمازِ تہجد آپ نے طاق رکعات میں ادا کی۔ رسالتﷺ کا معمول تھا کہ آپ گیارہ رکعات ادا فرماتے۔ وتر کا مطلب ہوتا ہے، طاق بنانا۔
4۔ باجماعت کے مقابلے میں، اسے انفرادی طور پر رات کے پچھلے پہر پڑھنا افضل ہے۔ سیدنا عمرؓ نے اسے واضح الفاظ میں بیان کر دیا۔ باجماعت کے حق میں دلیل یہ ہے کہ اسے ایک بار نبیﷺ نے باجماعت پڑھا اور پھر امت نے اس کو اجماعی طور پر قبول کر لیا۔ میرے نزدیک یہ اس کے جائز ہونے کی دلیل تو ہو سکتی ہے، وجوب یا افضل ہونے کی نہیں۔
کورونا نے آج یہ موقع پیدا کردیا ہے کہ لوگ قیامِ لیل کی افضل صورت کی طرف لوٹ جائیں۔ یعنی انفرادی طور پر گھروں میں تہجد ادا کریں۔ عبادت اپنے حقیقی مفہوم میں انفرادی ہوتی ہے۔ حج اور باجماعت فرض نماز کے علاوہ ساری عبادات انفرادی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرد انفرادی حیثیت میں رب کے حضور میں جواب دہ ہے۔ عبادت تزکیہ نفس کے لیے اور رب کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرنے کے لیے ہے۔
لوگوں کے لیے موقع ہے کہ وہ تہجد اور اعتکاف سے رمضان کے برکات میں اضافہ کریں۔ میرا احساس ہے کہ ہمارے ہاں ہر عبادت کو اجتماعی بنانے کا رجحان اب بڑھ رہا ہے۔ پہلے تہجد باجماعت ہوئی، اب لوگوں نے اعتکاف کو بھی باجماعت بنا لیا جو اعتکاف کی روح ہی کے خلاف ہے۔
مراقبہ، تنہائی میں اپنے رب سے مکالمہ، تلاوت، نوافل، تسبیح و مناجات، واقعہ یہ ہے کہ اس سے بہتر تزکیہ نفس کا کوئی نصاب نہیں ہو سکتا۔ رمضان ہمیشہ اس کا موقع فراہم کرتا ہے‘ جسے ہم اجتماعیت کے چکر میں ضائع کر دیتے ہیں۔ اس بار تو کورونا نے رجوع الی اللہ کے امکان کو بڑھا دیا ہے۔ آفات تو ویسے ہی اپنے رب کی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اس لیے اس موقع سے فائدہ اٹھائیے اور گھروں کو اپنی نمازوں سے آباد کیجیے۔
علما کو بھی چاہیے تھا کہ وہ لوگوں کو اس جانب متوجہ کرتے۔ وہ انہیں بتاتے کہ یہ اصلاً نمازِ تہجد ہے اور اسے انفرادی طور پڑھنا افضل ہے‘ لہٰذا اس سال لوگ گھروں میں اس کا اہتمام کریں۔ وہ اس کے برخلاف باجماعت تراویح پر اصرار کر رہے ہیں۔ کورونا نے تذکیر کا ایک سنہری موقع فراہم کیا تھا، افسوس کہ یہ موقع گروہی مفادکی نذر ہوگیا۔ عبادت کوبھی متنازعہ بنا دیا گیا۔