بحران اجتماعی دانش کو پرکھنے کا ایک پیمانہ ہے۔ ہر واقعہ اگرچہ اپنی جگہ ایک ترازو ہے مگر بحران تو کوئی ابہام باقی نہیں رہنے دیتا۔ اجتماعی بصیرت پر تنا غلط فہمی یا خوش فہمی کا ہر پردہ چاک کر دیتا ہے۔ کورونا کے ساتھ نمٹنے کے لیے ہمارے ریاستی اور سماجی اداروں نے جو طرزِ عمل اپنایا، اس نے بتا دیا ہے کہ ہم بحرانوں کا سامنا کرنے کتنی صلاحیت رکھتے ہیں۔ میں جب اس طرزِ عمل پر ایک نظر ڈالتا ہوں تو قومی مستقبل کو اندیشوں میں گھرا پاتا ہوں۔
تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب مذہبی طبقہ بھی دیگر سماجی طبقات کی طرح ایک 'انٹرسٹ گروپ‘ کی صورت اختیار کر لے، مذہب و اخلاق کا باہمی تعلق باقی نہ رہے اور مذہب و عقل باہم متصادم دکھائیں دیں تو پھر مذہب سماج کی اخلاقی تعمیر کا وظیفہ سرانجام نہیں دے سکتا۔ اس کا نتیجہ مذہب بیزاری کی صورت میں نکلتا ہے۔
بنی اسرائیل کا اصل بحران یہی تھا کہ مذہبی طبقہ ایک انٹرسٹ گروپ بن گیا اوراخلاق کے ساتھ اس کا رشتہ قائم نہیں رہا تھا۔ شریعت مو جود تھی مگر بے اثر۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰؑ کو نذیر اور مذکِّر بنا کر بھیجا۔ انجیل دراصل یہود کے مذہبی طبقے کے کردار پر تنقید ہے۔ سیدنا مسیح کے خطبات میں انہیں مخاطب کیا گیا ہے اور بتایا گیا کہ ان کی حالت سفیدی پھری قبروں جیسی ہے۔ بظاہر جبہ و دستار اور اندرون تاریک۔
حضرت مسیحؑ اہلِ مذہب کی اصلاح کرنے اور مذہب و اخلاق کا ٹوٹا رشتہ بحال کرنے آئے تھے۔ یہ اہلِ مذہب کو گوارا نہیں تھا۔ انہوں نے بجائے اپنی اصلاح کرنے کے، حضرت مسیحؑ کو مذہب سے برگشتہ قرار دے کر مصلوب کرنا چاہا اور اپنے تئیں کر گزرے۔ یہ الگ بات کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کی حفاظت کرتا ہے اور اس نے حضرت مسیحؑ کو محفوظ رکھا۔ اللہ نے انہیں اٹھا لیا اور معاملے کو یہود کے لیے مشتبہ بنا دیا۔
خود عالمِ مسیحیت بھی اس بحران سے گزرا جب مذہب اور اخلاق کا تعلق باقی نہیں رہا اور کلیسا عقل سے متصادم ایک قوت کے طور پر سامنے آیا۔ لوگوں نے یہ گمان کیا کہ ان کی مادی ترقی کے راستے میں اگر کوئی حائل ہے تو وہ کلیسا ہے۔ اس پر ردِ عمل ہوا اور مذہب کو ایک محدود دائرے میں سمٹنا پڑا۔ ان عرصے میں اہلِ مذہب اور اہلِ اقتدار کے مابین ایک اتحاد قائم رہا۔ حکمرانوں نے کلیسا کو اقتدار میں شریک رکھا تاکہ یہ طبقہ ان کے خلاف عوام کے مذہبی جذبات کو استعمال نہ کرے۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان، ظاہر ہے کہ مذہب کو ہوا۔
پاکستانی معاشرے میں بھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس تاریخی عمل کو دہرایا جا رہا ہے۔ یہاں مذہب و اخلاق اور مذہب و عقل کا باہمی رشتہ ٹوٹتا جا رہا ہے۔ جو اس تعلق کو بحال کرنا چاہتا ہے، مذہبی طبقہ اسے تنقید کا نشانہ بناتا اور اس کے لیے عرصہ حیات تنگ کر دیتا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں ڈاکٹر فضل الرحمن مرحوم نے مذہب اور عقل کا تعلق قائم کرنا چاہا تو انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ کم و بیش پچاس برس بعد جاوید احمد صاحب غامدی نے مذہب و اخلاق اور مذہب و عقل کے رشتے کو بحال کرنا چاہا تو ان پر یہ زمین تنگ ہو گئی اور انہیں بھی ملک چھوڑنا پڑا۔
ان دونوں حضرات کے افکار اور طرزِ فکر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مماثلت محض اتنی ہے کہ دونوں نے روایتی مذہبی طبقے سے اختلاف کیا۔ ان دو واقعات سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ نصف صدی میں ہمارے طرزِ عمل میں کوئی فرق نہیں آیا۔ 18 اپریل کو علما اور حکومت کا جو مشترکہ بیانیہ سامنے آیا، وہ بھی بتا رہا ہے کہ دونوں طبقات بظاہر گروہی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے معاملہ کر رہے ہیں۔
علما چاہتے تو اس موقع پر انسانی جان کے محافظ بن کر سامنے آتے۔ ان کے پاس دعوت کا ایک سنہری موقع تھا۔ وہ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ حفظِ جان کس طرح دین کے بنیادی مطالبات میں سرِ فہرست ہے۔ وہ دکھ کی گھڑی کو دعوت کے موقع میں بدل دیتے۔ اس کے برخلاف انہوں نے عبادت کے لیے مساجد کو عوام کے لیے کھلا رکھنے پر اصرار کیا اور یوں انسان کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اعلامیے میں تجویز کردہ چند حفاظتی اقدامات کو عوام مذہبی تقدس کا درجہ دیں گے تو یہ سادگی کی انتہا ہے۔
یہ بات باعث حیرت ہے کہ ہمارا مذہبی طبقہ عرب اور دیگر بلادِ اسلامیہ کے مذہبی طبقات سے زیادہ قدامت پسند واقع ہوا ہے۔ عرب علما نے بیت اللہ اور مسجدِ نبوی کو فرض نمازوں کے لیے بند کرنے کا فتویٰ دیا۔ یہاں تک کہا گیا کہ عید کی نماز بھی گھر پر پڑھیں۔ حج جیسی عبادت کے گرد خطرات منڈلا رہے ہیں کہ ہو پائے گی یا نہیں۔ ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ عبادت کے لیے مساجد کو کھولنے پر اصرار ہے۔ دوسری طرف جدید مذہبی طبقے کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے لیے مذہب ہدایت اور تزکیہ نفس کے لیے ایک لائحہ عمل کے بجائے، ایک علمی سرگرمی اور ذہنی عیاشی کا سامان ہے۔
اب آئیے حکومت اور ریاست کی طرف۔ بحران کی ابتدا ہی سے حکومت ابہام کا شکار ہے۔ لاک ڈاؤن کے مسئلے پر متضاد باتیں کہی گئیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ لاک ڈاؤن ہے بھی اور نہیں بھی۔ حکومت اس معاملے میں قوتِ فیصلہ سے عاری نظر آئی۔ پھر ترجیحات دیکھیے: اس نازک مرحلے پر بھی کسی کو یہ خیال نہیں کہ قومی وحدت کتنی ضروری ہے اور یہ وقت توڑنے کا نہیں جوڑنے کا ہے۔ عوام کی جان کی حفاظت اس کے لیے ثانوی مسئلہ ہے۔ یہ علما کے ساتھ معاملہ ہو یا اپوزیشن کے ساتھ، ایک ہی سوچ کارفرما ہے اور وہ ہے سیاسی مفاد۔ علما کو ساتھ رکھا جائے کہ کہیں عوام کے مذہبی جذبات مشتعل نہ ہو جائیں۔ اپوزیشن کو دور رکھا جائے کہ کہیں وہ کسی کریڈٹ میں حصہ دار نہ بن جائے۔
میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں سوائے جذبات فروشی کے۔ وہ آج بھی اس سے بے خبر ہیں کہ سماجی تعمیر میں ان کا کردار کیا ہے۔ قومی سطح پر جب کوئی بحران پیدا ہو جائے تو پھر قومی مفاد کاروبار پر مقدم ہو جاتا ہے۔ اس کا کوئی احساس کہیں دکھائی نہیں دیتا۔
عوامی شعور کا مسئلہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ عوام کو اندازہ ہی نہیں کہ سماجی فاصلوں کا تعلق زندگی اور موت کے ساتھ ہے۔ انہیں ذرا سی ڈھیل ملے تو ہر پابندی توڑنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا تعلیمی اور تربیتی نظام کس زوال کا شکار ہے۔ اس کا ہدف انسان سازی نہیں، مشین سازی ہے۔ کسی مشین سے ریاضی اگل رہی ہے اور کسی سے معاشرتی علوم۔ اس میں دین اور دنیا کی تعلیم میں کوئی فرق نہیں۔ ہر فارغ التحصیل قانون شکنی کی یکساں صلاحیت رکھتا ہے۔
کورونا کے دنوں میں ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ اس پر کہا جا رہا ہے کہ پسِ کورونا جو معاشرت وجود میں آئے گی، وہ ٹیکنالوجی پر منحصر ہو گی اور یہ معاشرتی رویوں کو بدل دے گی۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔ اگر نظری اور فکری جمود باقی رہے تو ٹیکنالوجی بربادی کے عمل کو مہمیز دے دیتی ہے۔ گزشتہ دو عشروں میں دہشت گرد تنظیموں نے اس ٹیکنالوجی کا جس طرح استعمال کیا، وہ ہمارے سامنے ہے۔ اس لیے اگر ہماری ذہنی ساخت اور سماجی رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تو ٹیکنالوجی کا زیادہ استعمال کسی تبدیلی کی خبر نہیں ہے۔
یہ اجتماعی دانش کے چند نمونے ہیں جو کورونا وائرس کے پیدا کردہ بحران میں نمایاں ہو کر سامنے آئے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم کہاں کھڑے ہیں۔ ہمارے مذہبی، سیاسی اور سماجی رویے آج بھی وہی ہیں جو پچاس سال پہلے تھے۔ اس لیے میرا خیال یہ ہے کہ کورونا کے بعد کا پاکستان بھی وہی ہو گا جو کورونا سے پہلے کا تھا۔