سیاست کے صنم خانے سے کعبے کو نئے پاسبان مل رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی سے سندھ اسمبلی تک، مذہبی شعار کے دفاع کا فریضہ وہ لوگ سر انجام دے رہے ہیں جو بظاہر غیر مذہبی سیاست دان ہیں۔
اسلام آباد میں مندر کی تعمیر اب تازہ موضوع ہے۔ ہر سیاسی جماعت آگے بڑھ کر خود کو اسلام کا محافظ ثابت کر رہی ہے۔ پنجاب میں ن لیگ اور ق لیگ میں مقابلہ ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی اپنا وڈیو پیغام جاری کر چکے اور ن لیگ بھی سنتے ہیں پنجاب اسمبلی میں قرار داد پیش کر رہی ہے۔ اس سے پہلے پنجاب اسمبلی چند کتابوں پر مذہبی بنیادوں پر پابندی بھی لگا چکی۔ اللہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے مگر جب اہلِ سیاست اس طرح مذہب کی خدمت کے لیے سر بکف ہو جائیں تو میرا ماتھا ٹھنکنے لگتا ہے۔ اس تشویش کی بنیاد ہماری تاریخ میں ہے۔
پاکستان کی سیاسی کہانی یہ ہے کہ پہلے دن سے یہاں مذہب کو اقتدار کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ اب کوئی راز نہیں رہا کہ 1950ء سے 1970ء کی دہائی تک جو مذہبی تحریکیں چلیں، ان کے پس پردہ مقاصد سیاسی تھے۔ مذہب کے نام پر جب سیاسی تحریکیں اٹھتی ہیں تو ان کے تجزیے میں دو باتوں کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ ایک یہ کہ ایسی تحریکیں اکثر وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو ان سے سیاسی مقاصد کشید کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ان تحریکوں میں کچھ سادہ لوح بھی شریک ہو جاتے ہیں جو دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی تحریکیں خدمتِ اسلام کے لیے اٹھائی جاتی ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو اپنی جان پر بھی کھیل جاتے ہیں۔
جو لوگ 1977ء میں سر پر کفن باندھ کر گولیاں کھانے کے لیے نکلے تھے، وہ بھٹو کو ہٹانے کے لیے تو جان نہیں دے رہے تھے۔ ان کے پیشِ نظر اسلام کا نفاذ تھا۔ یہ ان مخلصین کا لہو ہے جو ان تحریکوں میں جان ڈالتا ہے۔ اس کے سیاسی فوائد ان کی جھولی میں گرتے ہیں جو یہ تحریکیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے برپا کرتے ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے صرف یہ دیکھ لینا کافی ہے کہ ایسی تحریکوں کے ہنگامے کے بعد اقتدار کا سورج کس کے آنگن میں طلوع ہوا۔
اہلِ سیاست اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں، وہ اس بات سے با خبر ہیں کہ اس ملک کے عوام مذہب کے ساتھ شعوری کم اور جذباتی وابستگی زیادہ رکھتے ہیں۔ اِنہیں مذہب کے صرف اس پہلو سے دلچسپی ہوتی ہے جس سے عوامی جذبات کو مشتعل کرنا ممکن ہو۔ رہے دین کے وہ احکام جو براہ راست ان سے متعلق ہیں، تو وہ ان کے بارے میں کبھی متنبہ نہیں رہے۔ ان کا معاملہ ہمیشہ وہی رہا جو حضرت مسیحؑ نے بیان کیا تھا کہ مچھر چھانتے اور اونٹ نگلتے ہیں۔ بطور حکمران جب وہ اسلام نافذ کرتے ہیں تو ان کے نزدیک اس سے مراد دوسروں پر اسلام کا نفاذ ہے۔ وہ خود ایسے احکام کا مخاطب نہیں ہوتے۔
مثال کے طور پر بھٹو صاحب کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ بادہ نوش تھے۔ انہوں نے کبھی اس کو نہیں چھپایا۔ انہی بھٹو صاحب نے لیکن شراب پر پابندی عائد کر دی۔ وہ جانتے تھے کہ اس کا اطلاق ان پر نہیں ہو گا۔ اس حکم کا مقصد اپنے سیاسی مخالفین کی زبان بندی اور انہیں سیاسی محاذ پر شکست دینا تھا جو ان کے سیکولر تشخص پر سوال اٹھاتے اور انہیں لا دین ثابت کرتے تھے۔
اسی طرح نواز شریف صاحب کی حکومت جب شریعت بل پیش کر رہی تھی تو محض ان سیاسی اتحادیوں کی ایما پر جو اسلامی جمہوری اتحاد میں ان کے دست و بازو تھے، ورنہ سب کو معلوم ہے کہ ان کی سیاست میں اس کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اس سے بھی انہوں نے امیرالمومنین دریافت کرنا چاہا تاکہ ان کے اختیارات میں اضافہ ہو سکے۔ دلچسپ بات یہ کہ جس بل کے محرک مولانا سمیع الحق اور قاضی عبداللطیف صاحب جیسے دیوبندی علما تھے، اس کے سب سے بڑے مخالف مولانا فضل الرحمن تھے۔
میں چوہدری پرویز الٰہی صاحب کا ماضی دیکھتا ہوں تو وہ دیگر اہلِ سیاست سے مختلف دکھائی نہیں دیتا۔ جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دیتے وقت انہوں نے ضروری نہیں سمجھا کہ کچھ دیر رک کر کسی عالم سے مشورہ کر لیتے کہ اس معاملے میں اسلام کیا کہتا ہے؟ کیا اسلام میں بغیر آئینی و اخلاقی جواز کے، اقتدار پر قابض ہونے والے کا ساتھ دینا جائز ہے؟ یہی نہیں، انہوں نے اعلان فرمایا کہ وہ دس دفعہ مشرف صاحب کو وردی کے ساتھ صدر بنائیں گے۔ چوہدری پرویز الٰہی صاحب نے ایک باربھی اس سوال پر غور نہیں کیا کہ ایسے شخص کا ساتھ دینے کے بارے میں دین کا حکم کیا ہے؟
اس پسِ منظر کے ساتھ، جب اہلِ سیاست اسلام کے دفاع کے لیے شمشیر برہنہ بن جائیں تو اس پر مجھے تشویش ہوتی ہے۔ محض ایک مندر کی تعمیر پر جو دینی غیرت اس طرح بیدار ہوئی، وہ اس وقت کیوں خاموش رہی جب اہلِ اقتدار مذہب کی تعلیمات کا زبانِ حال سے مذاق اڑاتے رہے؟ جب بیک جنبشِ قلم، اعلیٰ ترین عدالت کے جج صاحبان کو ان کے گھر پہنچا دیا گیا؟
اس تاریخ کے ہوتے ہوئے، میں جب چوہدری پرویز الٰہی صاحب کی اسلام پسندی کے نئے مظاہر دیکھتا ہوں تو خود کو مجبور پاتا ہوں کہ اسے مذہب کے بجائے، سیاسی حرکیات کے تناظر میں سمجھوں۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ یہ ایک نئے انتخابی اتحاد کی تیاری ہے۔ اس بار ممکن ہے کہ مولانا فضل الرحمن ان کے ساتھ ہوں۔ چوہدری پرویز الٰہی نے مولانا فضل الرحمن کا دھرنا ختم کرایا تھا اور ظاہر ہے کہ کچھ یقین دہانیوں کے بعد ہی یہ ممکن ہوا ہو گا۔ ان یقین دہانیوں میں، ایک وقت سے پہلے انتخابات بھی ہو سکتے ہیں۔
کہاں کل کے مولانا فضل الرحمن جو ایک شعلۂ جوالا تھے اور کہاں آج کے مولانا جو ابریشم کی طرح نرم ہیں۔ یہ نرمی مریم نواز کی خاموشی کی طرح ناقابل فہم ہے۔ اس کی وجہ کوئی یقین دہانی ہی ہو سکتی ہے۔ یہ میرا قیاس ہے۔ قیاس تجربات سے کشید ہوتا ہے۔ اس وقت نئے انتخابات کی بات شروع ہو چکی۔ عمران خان کو بھی بقول شامی صاحب، شک پڑ گیا ہے۔ اسی لیے وہ چھ ماہ اور مائنس ون کی بات کر رہے ہیں۔
میری تشویش یہ ہے کہ کیا اس بار بھی مذہب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا؟ کیا عمران خان صاحب کے خلاف بھی مذہب سے اسی طرح مدد لی جائے گی جیسے ماضی میں ہوتا رہا ہے؟ اگر کسی نے ایسا کیا تو یہ مذہب کے ساتھ وفاداری ہو گی نہ ملک کے ساتھ۔ عمران خان صاحب کی مخالفت سیاسی بنیادوں پر ہونی چاہیے۔ مذہب کے سیاسی استعمال نے ہمارے معاشرے کی اخلاقی بنیادوں ہی کو نہیں ریاست کے استحکام کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اہلِ سیاست سے میری درخواست ہے کہ وہ مندر کی بات مندر تک رہنے دیں۔ اس کو 'ریاستِ مدینہ‘ سے نہ جوڑیں کہ یہ ہماری اوقات سے باہر کی بات ہے۔ ریاستِ مدینہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما کے بغیر نہیں بنتی۔ اہلِ سیاست پاکستان کو پاکستان بنانے کی فکر کریں۔