اسلام آباد میں مندر کی تعمیر ہونی چاہیے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب اہلِ پاکستان کو تلاش کرنا ہے۔ اس لیے اسے پاکستان ہی کے تناظر میں سمجھنا ہو گا۔
اس بات کی تفہیم اس لیے اہم ہے کہ اگر یہی سوال مکہ مکرمہ کے بارے میں ہوتا تو اس کی نوعیت یکسر تبدیل ہو جاتی۔ مسلم روایت میں حجاز کی خاص اہمیت ہے اور اس کے لیے خاص قوانین ہیں۔ دیگر خطہ ہائے زمین پر ان کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ ایک علمی بحث ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ ایک اخباری کالم اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سادہ لفظوں میں بس اتنا جان لیجیے کہ بیت اللہ میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ نبیﷺ نے برکت کی غرض سے تین مقامات کے سفر کو جائز رکھا ہے: بیت اللہ، مسجدِ نبوی اور بیت المقدس (موطا امام مالک)۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان مقامات کی حیثیت دیگر بلادالمسلمین سے کیسے مختلف ہے۔
پاکستان ایک قومی ریاست کی طرز پر وجود میں آ نے والا ملک ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے۔ دنیا کا سیاسی نظم کن خطوط پر استوار ہو گا، اس کا فیصلہ ہم نہیں کرتے۔ اس کا تعین انسان کا تہذیبی ارتقا کرتا ہے۔ اسے آپ تاریخ کا جبر بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس جبر نے بیسویں صدی میں عالمِ انسانیت کو سلطنتوں کے عہد سے نکال کر قومی ریاست کے دور میں لا کھڑا کیا۔ یہ انگریز ہوں، پرتگالی ہوں یا عثمانی، سب کو تاریخ کا یہ فیصلہ قبول کرنا پڑا۔
قومی ریاست کے نام سے جو نیا سیاسی بندوبست سامنے آیا، اسے مسلمانوں نے اپنی مذہبی اقدار سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کی۔ پاکستان اسی کی ایک صورت ہے۔ قومی ریاست کے تمام اجزائے ترکیبی کو قبول کرتے ہوئے اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دے کر، پارلیمنٹ کو پابند کر دیا گیا کہ وہ قرآن وسنت کی تعلیمات کے برخلاف قانون سازی نہیں کر سکتی۔ جس عمرانی معاہدے کے تحت یہ طے ہوا، اسے ہم آئینِ پاکستان کہتے ہیں۔ اس آئین پر اس وقت پوری قوم کا اجماع ہے۔
ایک قومی ریاست کی طرح یہ آئین پاکستان کے تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیتا ہے اور ان کے مابین مذہب کی بنیاد پر کسی امتیاز کو قبول نہیں کرتا۔ صرف دو امور مستثنا ہیں‘ یہ کہ ملک کے صدر اور وزیر اعظم کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کسی معاملے میں پاکستان کے شہریوں میں کوئی فرق نہیں۔ اس آئین کا پہلا باب بنیادی حقوق سے متعلق ہے۔ اس کی دفعہ بیس میں ہر مذہبی گروہ کا یہ حق تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مذہبی ادارے قائم کر سکتا ہے۔
حکومت ہو یا عوام، عدالت ہو یا علما، سب اس آئین کے پابند ہیں۔ کوئی اس سے بالاتر نہیں۔ اس لیے اگر ہم اپنے آئین کی پابندی کریں تو اس سوال پر کسی بحث کی ضرورت ہی نہیں کہ اسلام آباد میں مندر بن سکتا ہے یا نہیں۔ اگر ہندو سمجھتے ہیں کہ یہاں ایک مندر ان کی ضرورت ہے تو اس آئین کی رو سے کوئی انہیں روک نہیں سکتا۔
اب رہا یہ سوال کہ کیا حکومت اس مقصد کے لیے انہیں وسائل فراہم کر سکتی ہے؟ اس کا جواب بھی اس آئین میں موجود ہے۔ چونکہ ریاست کی نظر میں سب شہری برابر ہیں، اس لیے وہ جو رویہ ایک مذہبی گروہ کے ساتھ روا رکھتی ہے، اسے وہی رویہ دوسروں کے ساتھ بھی روا رکھنا ہو گا۔ اگر وہ گوردوارے پر ریاستی وسائل خرچ کر سکتی ہے تو مندر یا کلیسا پر کیوں نہیں؟
اب آئیے، اس معاملے کے مذہبی پہلو کی طرف۔ ہمارا آئین جہاں سب شہریوں کو برابر قرار دیتا ہے، وہاں اس بات کی پابندی کو ضروری بتاتا ہے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کی تعلیمات کے برخلاف نہیں بن سکتا۔ کیا قرآن و سنت میں اس کی کوئی ممانعت موجود ہے؟ میرا جواب ہے کہ نہیں۔ قرآن مجید میں یا رسالت مآبﷺ کے ارشادات میں ایسی کوئی ہدایت نہیں دی گئی۔ آپﷺ نے اس باب میں جو احکام دیے ہیں، ان کا تعلق جزیرہ نمائے عرب کے ساتھ ہے۔ وہاں کے بار ے میں آپﷺ نے فرمایا کہ دو ادیان جمع نہیں ہو سکتے (موطا)۔
دنیا کا کوئی خطہ اب دینی اعتبار سے وہ مقام و مرتبہ نہیں رکھتا جو سرزمین حجاز یا جزیرہ نمائے عرب یا پھر بیت المقدس کو حاصل ہے۔ مکہ کی یہ حیثیت آج سے نہیں ازل سے ہے کہ اسے اللہ نے اپنے لیے خاص کیا۔ یہ اس زمین پر پہلا مرکزِ توحید ہے۔ قیامت تک اس کی یہ حیثیت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ اس خطے پر کسی دوسرے علاقے کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
ہماری فقہ میں البتہ ایسی آرا ملتی ہیں کہ غیر مسلموں کو بلادِ اسلامیہ میں نئی عبادت گاہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ خود ہمارے عہد کے روایتی علما اس سے اختلاف کر رہے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی صاحب یہ فرما چکے کہ غیر مسلم پاکستان میں اپنی عبادت گاہ تعمیر کر سکتے ہیں؛ تاہم ان کے خیال میں ریاست اس مقصد کے لیے وسائل فراہم نہیں کر سکتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہماری قدیم فقہ میں بھی اس بات کو بطور اصول تسلیم کیا گیا ہے کہ مسلمان حکومت غیرمسلموں کے ساتھ کیے گئے معاہدات کی پابند ہے۔ پاکستان کے غیر مسلم شہری اپنی مرضی سے پاکستان کا حصہ بنے ہیں اور انہیں پاکستان بننے سے تین دن پہلے قائد اعظم نے یہ یقین دہانی کرائی کہ پاکستان میں مذہب کے حوالے سے کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ یہی بات رائج الوقت آئین میں بھی بیان ہو گئی ہے۔ پاکستانی قوم قائد اعظم کی یقین دہانی اور آئین دونوں کی اخلاقاً پابند ہے۔
فقہ کے باب میں یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ یہ ہمارے قدیم اہلِ علم کی آرا ہیں جو انہوں نے اپنے حالات کے تحت قائم کیں۔ یہ سلطنتوں کا دور تھا جب بین الاقوامی حالات اور شہریوں کے حقوق کے حوالے سے دارالسلام اور دارالکفر یا اہلِ صلح اور اہل عنوہ جیسی اصطلاحات وضع کی گئیں۔ یہ ہمارے بزرگوں کی تفہیم ہے، کوئی دینی اصطلاحات نہیں ہیں۔ اس سے ہمیں یہ روشنی ملتی ہے کہ ہم اپنے عہد کے بین الاقوامی تعلقات اور سیاسی نظم کو سمجھیں اور ان کو سامنے رکھ کر دین کی تعلیمات کا اطلاق کریں۔
یہ قومی ریاست کا دور ہے۔ پاکستان کی ریاست اس اصول پر قائم ہے کہ یہاں سب شہریوں کے حقوق برابر ہیں، سوائے ایک استثنا کے۔ اس لیے یہ عبادت گاہ کی تعمیر کا معاملہ ہو یا قانون کے سامنے جواب دہی کا، سب شہری برابر ہیں۔ دورِ جدید میں تو شہری اور ریاست کی بات ہوتی ہے، اقلیتوں کی اصطلاح متروک ہو رہی ہے۔ ہمیں دین کو اسی حوالے سے سمجھنا ہوگا۔
یہ بات بھی نا قابلِ فہم ہے کہ ریاست غیرمسلموں کی عبادت گاہ پر سرمایہ خرچ نہیں کر سکتی۔ قرآن مجید نے زکوٰۃ کے مصارف میں ایک مصرف تالیفِ قلب بتایا ہے جو غیرمسلموں پر خرچ کی جائے گی۔ گویا ریاست سیاسی مقصد کے لیے قومی خزانے سے مال خرچ کر سکتی ہے۔
دورِ جدید میں اگر کسی ریاست کا یہ تعارف ہو کہ وہاں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا تو اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے حکومت کوئی قدم اٹھا سکتی ہے۔ اگر حکومت صرف اسی ضرورت کے تحت اسلام آباد میں مندر تعمیر کر رہی ہے تو ناصرف یہ کہ اسے جائز کہا جائے گا بلکہ اس کے لیے زکوٰۃ کی مد سے بھی رقم خرچ کی جا سکتی ہے۔
ان دلائل کی بنیاد پر میری رائے یہ ہے کہ اس سے مقصود پاکستانی ہندوئوں کی مذہبی ضرورت کو پورا کرنا ہو یا ریاست کی ساکھ کو بہتر بنانا، دونوں صورتوں میں مندر کی تعمیر میں کوئی حرج نہیں۔ ھذا ما عندی، واللہ اعلم بالصواب۔