سیاست میں تیسری قوت کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اسے بھی مغالطوں کی فہرست میں شامل کر لیجیے: دسواں مغالطہ۔
سیاست فطری ہو، جیسے امریکہ یا برطانیہ میں ہے یا غیر فطری، جیسے پاکستان میں ہے، بنیادی قوتیں دو ہی ہیں۔ یوں کہیے کہ سیاسی جماعتیں دو ہی ہوتی ہیں۔ برطانیہ میں برسوں سے سیاست دو جماعتوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ لبرل اور قدامت پسند۔ امریکہ کا معاملہ بھی یہی ہے: ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس۔ تیسری قوت کوشش کے باوجود کہیں نہیں ابھر سکی۔ یہ ان ممالک کا تجربہ ہے جہاں سیاست فطری اسلوب میں آگے بڑھتی ہے۔
پاکستان میں بھی دو ہی سیاسی جماعتیں رہی ہیں: ایک وہ جو علمِ سیاسیات کی رو سے سیاسی جماعت ہے اور دوسری وہ جسے عرفِ عام میں مقتدرہ یا خلائی مخلوق کہتے ہیں۔ یہ دوسری جماعت اصل چہرے کے ساتھ سامنے آتی ہے اور کبھی سیاسی چہرے کے ساتھ۔ اسے کوئی بھی لیگ کہہ سکتے ہیں۔ ایک لیگ ایسے ہر دور میں موجود رہی ہے جب بظاہر سیاسی عمل جاری ہوتا ہے۔ ورنہ ایوب خان ہیں ضیاء الحق ہیں یا پھر مشرف۔
1977ء کے بعد کی سیاست پر ایک نظر ڈالیے۔ انتخابات کا موسم آیا تو سیاست دو گروہوں میں بٹ گئی۔ حامیانِ بھٹو اور مخالفینِ بھٹو۔ یہ نظریاتی سیاست کا دور تھا۔ عالمی سطح پر بھی، سیاسی تقسیم نے انسانوں کو دو گروہوں میں بانٹ دیا تھا: دائیں بازو والے اور بائیں بازو والے۔ جو دایاں بازو تھا اسے سرمایہ دارانہ اور امریکہ کا طرف دار سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان کے اسلام پسند ایسے نہیں تھے لیکن اشتراکیت یا بائیں بازو کی مخالفت کے باعث اسی گروہ میں شمار کیے گئے۔ جماعت اسلامی آج تک، بغیر کسی ثبوت کے امریکہ نواز سمجھی جاتی ہے۔ قومی اتحاد بناتو اس پر مذہبی جماعتوں کی گرفت نمایاں تھی۔ اے این پی اور تحریکِ استقلال بھی ان کے ہم رکاب ہو گئیں۔ یہ بھٹو صاحب کی فسطائیت تھی جس نے حبیب جالب سمیت اِن سب کو ان کے مخالف کیمپ میں جا کھڑا کیا جو بھٹو صاحب کے نظریاتی حلیف ہو سکتے تھے۔ بھٹو مخالف گروہ نے نظامِ مصطفی کا نعرہ اپنایا تو اصغر خان بھی قرآن مجید گلے میں ڈال کر میدان میں نکل آئے۔ ان کو اندازہ تھا کہ سیاست میں اب کسی تیسری قوت کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
جولائی میں مارشل لا آگیا۔ ضیاالحق صاحب نے پہلے مرحلے میں بھٹو مخالف قوتوں کی سرپرستی کی۔ یوں وہ بھٹو مخالف گروہ کے حقیقی لیڈر بن گئے۔ انہوں نے چاہا کہ اس گروہ کو ایک سیاسی جماعت میں بدل دیں۔ ان کی نظر انتخاب نواز شریف صاحب پر پڑی۔ وہ بھٹو مخالف گروہ کے رہنما بنتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ دیگر گروہوں کی حمایت سے بے نیاز ہو گئے۔ ضیاء الحق دنیا سے رخصت ہوئے تو نواز شریف تنہا بھٹو مخالف قوتوں کے لیڈر بن چکے تھے؛ تاہم ان کی سرپرستی بعد میں بھی جاری رہی۔ اب سیاست پھر دو گروہوں میں بٹ چکی تھی۔
1993ء میں جماعت اسلامی کو خیال آیا کہ بھٹو کے اصل مخالف تو وہ تھے‘ نظریاتی بھی اور سیاسی بھی لیکن مردِ میدان نواز شریف بن گئے۔ اس لیے اس ملک میں ایک تیسری قوت ہونی چاہیے۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے پاکستان اسلامک فرنٹ کی بنا رکھی کہ تیسری قوت بن جائیں۔ انتخابات کے نتائج آئے تو معلوم ہواکہ عوام نے تیسری قوت کو مسترد کر دیا ہے۔ اب پھر دو جماعتیں تھیں: پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ۔
نواز شریف صاحب نے جب خود کو لیڈرمنوا لیا تو چاہا کہ سرپرستی سے آزاد ہو جائیں۔ اپنے اقتدار کے مختصرعرصے میں، پیپلز پارٹی نے اپنی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا۔ اس کے حامی موجود تھے مگردل گرفتہ اور خلوت نشین۔ اس کے باوجود سیاست دو جماعتوں ہی کے گرد گھومتی رہی۔ اس دوران میں مقتدرہ کو محسوس ہوا کہ نواز شریف کی آزاد خیالی حدسے بڑھنی لگی ہے۔ اب ان کا تشخص تبدیل ہو گیا۔ اب وہ مقتدر مخالف شمار ہونے لگے۔
اس گستاخی کی انہیں سزا ملی اور مشرف تشریف لے آئے۔ انہوں نے نواز شریف کے توڑ کے لیے چوہدری شجاعت حسین صاحب سے وہی کام لیا جو پیپلز پارٹی کے توڑ کے لیے جنرل ضیاء الحق نے نواز شریف سے لیا تھا۔ اب پھر ملک میں دوقوتیں تھیں۔ نواز لگ اور مشرف لیگ المعروف قاف لیگ۔ پیپلز پارٹی پس منظر میں چلی گئی کہ اس کی قیادت جلا وطن تھی اور1997ء کے انتخابات میں اس کی حمایت بہت سکڑ چکی تھی۔
مشرف صاحب کو اندازہ تھا کہ صرف قاف لیگ کے بس میں نہیں کہ وہ نواز لیگ کا توڑ کر سکے۔ یوں مجلسِ عمل بھی میدان میں اتر آئی۔ اس نے ایم کیو ایم کی طرح ایک علاقے کو سنبھال لیا اور یوں مشرف کے دیے ہوئے نظام کو دست و بازو فراہم کر دیے۔ اس دور میں بھی سیاسی قوتیں دو ہی تھیں۔ ق لیگ، ایم ایم اے، ایم کیو ایم، بظاہر تین نام تھے لیکن اصل میں یہ ایک ہی جماعت تھی: مشرف لیگ۔
مشرف رخصت ہوئے تو جنرل اشفاق کیانی نے ان کے سیاسی ورثے سے اعلانِ لاتعلقی کر دیا۔ انہوں نے فوج کو بتدریج پیشہ ورانہ معاملات تک محدود رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ فوج کے کندھوں کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے تھے جو ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے غیر ضروری طور پر لاد دیا تھا۔ اس کا نتیجہ 2008ء میں ہمارے سامنے تھا۔ انتخابات ہوئے تو سیاست پھر اسی دو جماعتی نظام کی طرف لوٹ گئی۔
دو جماعتی نظام پھر جڑ پکڑ نے لگا اور جمہوریت بھی۔ پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کیے۔ 2013ء میں نوازشریف ایک بڑی سیاسی قوت بن کر سامنے آئے اور ساتھ ہی 1999ء کی سیاست پھر سطحِ زمین پر آ گئی جو کچھ وقت کیلئے زیرِ زمین چلی گئی تھی۔ وہی خدشات اور بد گمانیاں۔ اب مقتدر کو ایک نئی لیگ کی ضرورت پیش آئی۔ اس کی داغ بیل 2011ء ہی میں ڈال دی گئی تھی۔ جو کردار ماضی میں نواز شریف اور چوہدری شجاعت حسین نے ادا کیا، اس کیلئے ایک نیا انتخاب کر لیا گیا۔ سیاست گویا اب بھی دو جماعتی ہی تھی۔
2014ء میں سیاست دوبارہ اس جگہ جا کھڑی ہوئی جہاں 2008ء میں تھی۔ جنرل کیانی نے جس تبدیلی کی بنیاد رکھی تھی، وہ اپنے پاؤں پر لوٹ گئی تھی۔ اب کردار بدل چکے تھے۔ جو کبھی مقتدرہ کی نظر میں ہیرو تھا، آج ولن بن چکا تھا۔ عمران خان ایک نئی عوامی قوت کا عنوان بن کر سامنے آئے۔ نوجوانوں میں عمران خان کے مقبولیت نے اس کام کو آسان بنا دیا۔
اس پہ مستزاد نواز شریف سے نفرت کا ووٹ‘ جس میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی سرِ فہرست تھے۔ پیپلز پارٹی انہیں اس لیے پسند نہیں کرتی کہ وہ ضیاء الحق کا انتخاب تھے اور انہوں نے پنجاب سے پیپلز پارٹی کی سیاست کاخاتمہ کردیا تھا۔ جماعت اسلامی اس لیے کہ اس کے خیال میں نواز شریف اس کا ووٹ بینک لے اڑے جوپھر واپس نہیں گیا۔ جماعت اس کے بعد سیاسی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہو سکی۔
ان واقعات سے آپ واقف ہیں۔ میں نے آپ کی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ ان واقعات سے میں اِس وقت یہ اخذ کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری سیاست ہمیشہ دو جماعتی رہی ہے۔ تیسری جماعت کبھی نہیں بنی۔ جو تیسری دکھائی دیتی ہے، وہ دراصل دوسری ہے۔ یہ محض قلب و نظر کا دھوکا ہے۔ ان کی ذہانت کی داد دینا پڑے گی جنہوں نے دانش وروں کو بھی باورکرا دیا کہ عمران خان ایک حقیقی تیسری قوت ہیں۔
اس میں کیا راز ہے کہ سیاست، فطری ہو یا غیر فطری دوسیاسی قوتوں کے دائرے سے باہر نہیں نکلتی؟ سیاسیات کے طالب علم کے لیے یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس پر ان شاء اللہ بات ہوتی رہے گی۔ سرِ دست یہ مغالطہ دور کر لیجیے کہ سیاست کو کوئی تیسری قوت بھی ہوتی ہے۔