یہ سرزمین کب تک ابہام کی دھند میں لپٹی رہے گی؟ ابہام در ابہام۔ ظلمات فوق ظلمات۔ اندھیرا، اندھیرے کے اوپر اندھیرا۔
دنیا جن مسائل کو صدیوں پہلے حل کر چکی، ہمارے ہاں آج بھی زیرِ بحث ہیں۔ جن انکشافات نے کائنات میں زمین کا مقام بدل دیا، جن نظریات نے معاشروں کی قلبِ ماہیت کر ڈالی، ہم آج بھی ان پر سوالات اٹھاتے اور اپنے تئیں ان کا رد پیش کرتے ہیں۔ وقت ان کی صحت پر ایک بار نہیں، بار بار مہرِ تصدیق ثبت کر چکا مگر ہم ہیں کہ بحث کیے جا رہے ہیں۔ یہ عارضہ کسی ایک طبقے کو لاحق نہیں ہے۔ کیا پڑھا لکھا اورکیا ان پڑھ‘ کیا جدید اور کیا قدیم، سب گرفتارِ بلا ہیں۔
زمین گردش میں ہے یا ساکن؟ کیا یہ معمولی وبال ہے کہ ہمارے ہاں آج بھی اس پر نہ صرف گفتگو ہوتی ہے بلکہ یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ زمین ساکن ہے۔ دنیا صدیوں پہلے مذہب اور ریاست کا باہمی تعلق طے کر چکی۔ ہم ہیں کہ آج بھی کورونا سے نمٹنے کے لیے جامعہ ازھر کے فتوے کا انتظار کرتے ہیں۔ لوگ مررہے ہیں اور ہم علما کی مجالس منعقد کر رہے ہیں کہ وہ مساجد اور عبادت گاہوں کے بند یا کھلا رکھنے کا فیصلہ کریں۔
وقت نے فیصلہ دے دیا کہ جمہوریت سے بہتر کوئی نظام نہیں جو سیاسی قضیوں کو حل کر سکے۔ دوسروں کو تو چھوڑیے، یہاں جدیدیت کے علمبردار بھی یہ مقدمہ پیش کر رہے ہیں کہ ہمارے مسائل کی وجہ جمہوریت ہے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ انہیں تاریخ کا علم نہیں کہ ان کی عمریں پاکستان کی عمر کے اگر برابر نہیں تو زیادہ کم بھی نہیں۔ سب ان کا آنکھوں دیکھا ہے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ پاکستان کا یہ حشر جمہوریت کی وجہ سے نہیں، جمہوریت نہ ہونے کہ وجہ سے ہوا ہے؟
میرے لیے یہ ایک تکلیف دہ تجربہ ہے کہ ہر دوسرے دن جمہوریت کے محاسن بیان کروں۔ اگر آج بھی لوگوں کو یہ سمجھانے کے لیے دلائل دیے جائیں کہ زمین گردش میں ہے تو کیا یہ باعثِ اذیت نہیں ہو گا؟ طبیعی علوم میں جو حیثیت اس مقدمے کی ہے، سماجی علوم میں یہی مقام جمہوریت کا ہے۔ جس طرح زمین کی گردش ثابت کرنے کے لیے دلائل دینا تحصیلِ حاصل ہے، اسی طرح جمہوریت کے حق میں دلیل دینا وقت کا ضیاع ہے۔
حیرت در حیرت ہے کہ جو دلیل جمہوریت کے حق میں پیش کی جانی چاہیے، اسے جمہوریت کی رد میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اب اس جدید علمِ کلام یا سید قطب کے الفاظ مستعار لوں تو اس جاہلیتِ جدیدہ کا رد کیسے کیا جائے؟ یہ کج بحثی کی وہ کیفیت ہے کہ ایک شریف آدمی اس میں الجھنے کے بجائے، بس اعترافِ عجز ہی کر سکتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہاتھ اٹھا دیے جائیں اور یک طرفہ شکست تسلیم کر لی جائے۔
صدر ٹرمپ کی بھتیجی نے ایک کتاب لکھی جو چند دنوں میں شائع ہونے والی ہے۔ یہ دنیا کی واحد عالمی قوت کے صدر پر تنقید ہے۔ تنقید بھی نجی۔ صدر نے آخری درجے میں کوشش کی کہ وہ اس کتاب کی اشاعت کو رکوا دیں۔ وہ ایسا نہیں کر سکے۔ اگر ایک سیاسی نظام میں سب سے طاقتور آدمی اس پر قادر نہ ہو کہ اپنے خلاف بولنے والے کا منہ بند کر سکے تو یہ اس نظام کی خوبی ہے یا خامی؟ عدلیہ حکمرانِ وقت کے مقدمے کو رد کر دے‘ یہ نظام کی خوبی ہے یا خامی؟ اگر کوئی اس کو بھی جمہوریت کے رد میں بطور دلیل پیش کرے تو آپ کیا کہیں گے؟ یہی کہ 'آپ پر سلامتی ہو‘ اور پھر اپنے گھر کی راہ لیں گے۔
یہ زمین کی گردش ہو یا جمہوریت، ہمارے ابہام کیوں باقی ہیں؟ ہم انسانیت کے فکری قافلے سے کیوں بچھڑ گئے ہیں؟ نہ صرف بچھڑ گئے ہیں بلکہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ ہمارا سفر دنیا کی مخالف سمت میں ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ دنیا اور ہمارے مابین بنیادی فرق کیا ہے؟ جو بات لوگوں کو سمجھ آ چکی، ہم اسے قبول کرنے میں متردد کیوں ہیں؟
یہ کیفیت ان معاشروں میں جنم لیتی ہے جہاں آزادانہ غوروفکر پر پابندی ہو۔ ایسے مقامات پر علم کا سفر رک جاتا ہے۔ زمین کی گردش کا تعلق علمِ طبیعیات سے ہے۔ جمہوریت سماجی علوم کا موضوع ہے۔ جس معاشرے میں طبعی علوم کی کوئی روایت مستحکم ہو سکی ہو نہ سماجی علوم کی، وہاں فکری مباحث کے باب میں بالغ نظری پیدا نہیں ہوتی۔
اب بقا کی خواہش فطری ہے۔ یہ انفرادی ہوتی ہے اور اجتماعی بھی۔ جب کوئی معاشرہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے تو بقا کے اسی فطری تقاضے کے تحت، اسبابِ حیات تلاش کرتا ہے۔ سب سے آسان ماضی کی پناہ گاہ میں چھپ جانا ہے۔ اسلاف اگر تاریخ ساز رہے ہوں تو اس پناہ گاہ جیسی کوئی جائے فرار نہیں۔ پھر آدمی ماضی کے گیت گاتا اور یوں اپنے لیے نفسیاتی تسکین کے اسباب فراہم کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ماضی کے کچھ ناقد اوربظاہر جدت پسند ایسا کیوں کرتے ہیں؟ وہ مانی ہوئی حقیقتوں کا انکار کیوں کرتے ہیں؟ جو تصور ان کے جدید فکری ڈھانچے میں جگہ بنا سکتا ہے، وہ اس کی منکر کیسے ہو جاتے ہیں؟ وہ اس کھلے تضاد کے ساتھ کیسے جی لیتے ہیں؟
اس کے دواسباب ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ خام فکری کی علامت ہے۔ علم سے زندہ تعلق اور غوروفکر ایک نظامِ فکر کو جنم دیتا ہے۔ یہ انسان میں یہ صلاحیت پیدا کرتاہے کہ وہ اپنے فکری تضادات پر غور کرے ا ور ان کو دور کرنے کی شعوری کوشش کرے۔ اس کے اندر شکست وریخت کا ایک مسلسل عمل جاری رہتا ہے۔ ایسا تضاد اس کی راتوں کی نیند حرام کر دیتا ہے۔ جب تک یہ دور نہ ہو جائے، اسے چین نہیں آتا۔
جو لوگ اس کے عادی نہیں ہوتے، وہ بعض سچائیاں دریافت کر لیتے ہیں لیکن ان میں تطبیق پیدا نہیں کر سکتے۔ یوں ان کی شخصیت فکری پراگندگی کامظہر بن جاتی ہے۔ اس کا اظہار ان کی گفتگو سے ہوتا اور تحریر سے بھی۔ ان میں کچھ حقیقت ہوتی ہے اورکچھ حقیقت نمائی۔ اب ایسا نہیں ہے کہ وہ اس تضاد کو محسوس نہیں کرتے۔ کرتے ہیں اور کبھی کبھی جھنجھلا کر اس کا اظہار بھی کر ڈالتے ہیں؛ تاہم وہ اس ذہنی مشقت کے لیے تیار نہیں ہوتے جو ایسے تضادات کا حقیقی حل ہے۔ یوں وہ ابہام باقی رہتا ہے۔
دوسرا سبب جبر ہے۔ جن معاشروں میں فکری ڈھانچے کی تشکیل اداراتی (institutional) حیثیت اختیار کر لے، یہ کام چند ریاستی اور غیر ریاستی اداروں کو سونپ دیا جائے اور عوام کو پابند کر دیا جائے کہ وہ اس ڈھانچے کے تابع رہ کر سوچیں، وہاں فکری بالغ نظری پیدا نہیں ہو سکتی۔ مثال کے طور پر ریاستی سطح پر طے ہو جائے کہ ملک کا سیاسی نظام بادشاہت ہوگا اور اس پر گفتگو نہیں ہو سکتی تو ایسے معاشروں میں سماجیات یا سیاسیات کا علم آگے نہیں بڑھ سکتا یا اگر یہ طے کر دیا جائے کہ مذہب کی تعبیر و تشریح پر ایک خاص طبقے کی اجارہ داری ہے، جیسے یورپ میں یہ اہلِ کلیسا کا استحقاق قرار پایا تو اس کے بعد مذہبی فکر میں لازماً جمود آئے گا۔
اب جو دانش ور اپنی سوچ کو اس کا پابند بنا لیں، وہ دیکھنے میں جتنے جدید ہوں، فکری اعتبار سے سوچ کا عمل رہن رکھ دیتے ہیں۔ ان کی جدیدیت وہیں ظہور کرے گی جہاں اداراتی فکری ڈھانچہ اس کی اجازت دے گا۔ مذہب میں ان کی تحقیق بس انہی حدود کے اندر ہو گی جو اہلِ مذہب نے طے کر دیے۔ سیاسی افکار میں وہ انہی خطوط پر سوچیں گے جو ریاستی اداروں نے کھینچ دیے ہیں۔
اس کا نتیجہ وہ ابہام در ابہام کا ماحول ہے جس میں ہم زندہ ہیں۔ دنیا صدیوں پہلے پہیہ ایجاد کر چکی۔ ہم ابھی اس کی ساخت پر غور کر رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ یہ گول کے بجائے چوکور کیوں نہیں ہو سکتا؟