ایک مدت کے بعد پاکستان کی سیاست کسی بیانیے پر کھڑی ہے ورنہ 'مارا چہ ازیں قصہ کہ گائو آمد و خر رفت‘۔
موضوع بہت ہیں جو کالم نگار کی توجہ چاہتے ہیں۔ قریہ قریہ بکھری ظلم کی داستانیں ہیں جو بار بار قدموں سے لپٹ جاتی ہیں۔ افلاس ہے، مہنگائی ہے، بچیاں ہیں جن کے لاشے خوف کی چادر میں لپیٹ کر، آئے دن زمین کے حوالے کر دیے جاتے ہیں۔ کوئی داد رسی نہیں۔ حکومت بے نیاز ہے اور سماج بے حس۔ یہ سب موضوعات اہم ہیں مگر اس وقت ملک و قوم کو ایک اور معرکہ درپیش ہے۔ ایک مدت کے بعد، وہ وقت آیا ہے جب ملکی سیاست کی سمت درست ہونے کا امکان پیدا ہوا ہے۔ میرا سیاسی شعور یہ کہتا ہے کہ اس موضوع کو اس وقت ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔
تحریکِ پاکستان ایک بیانیے پر کھڑی تھی۔ افراد اس معرکے میں غیر اہم ہو گئے تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مولانا ابوالکلام آزاد جیسے عبقری نظر انداز نہ ہوتے۔ مولانا حسین احمد مدنی کے بجائے قائد اعظم مولانا شبیر احمد عثمانی کا انتخاب کبھی نہ بنتے۔ یہ معمولی حادثہ نہیں کہ ابوالکلام جیسے لوگ تاریخی عمل کی نذر ہو گئے اور مسلمان ان سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ تاریخ مگر اسی طرح افراد سے بے نیاز ہو کر آگے بڑھتی ہے۔
1977ء کی تحریک کبھی کامیاب نہ ہوتی اگر 'گاؤ آمد و خر رفت‘ کا مصداق بنی رہتی۔ جب لوگوں کے ہاتھ میں 'نظامِ مصطفیٰ‘ کا بیانیہ تھما دیا گیا تو اس میں جان پڑ گئی۔ افراد غیر اہم ہو گئے۔ اس اصطلاح کے خالق رفیق باجوہ بھٹو صاحب سے جا ملے اور قومی اتحاد کی تمام قیادت جیل بھیج دی گئی۔ اس کے باوجود تحریک کا زور کم نہیں ہوا۔ بیانیے کی قوت نے افراد کو غیر متعلق کر دیا۔
آج ایک بار پھر پاکستان کی سیاست ایک بیانیے پر استوار ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس آکاس بیل کو موضوع بنایا گیا ہے جو نخلِ وطن کو ہرا نہیں ہونے دیتی۔ جو اس کے وجود سے اس طرح لپٹ گئی ہے کہ ایک ہرے بھرے درخت کو سوکھی ٹہنیوں کے ڈھیر میں بدل دیا ہے۔ کسی شاخ پر برگِ تازہ کی نمود نہیں۔ ہر ادارہ بانجھ ہو گیا ہے۔ جو بانجھ نہیں ہوا، وہ متنازع بن گیا۔ آئین نام کا عمرانی معاہدہ سیاسی نظام سے غیر متعلق ہو گیا ہے۔ آئین طاقت کا مرکز کچھ اور بتاتا ہے، زمین پر کوئی اور ہے۔ گھر میں ذمہ داریاں بدل جائیں تو وہ چل نہیں سکتا، ملک کیسے چل سکتا ہے؟
پارلیمانی جمہوریت میں سیاسی قوت کا مرکز وزیر اعظم ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے گھروں میں والد۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ آج وزیر اعظم اقتدار کا مرکز ہے؟ پھر جو صاحب سربراہ حکومت کے منصب پر دو سال سے براجمان ہیں، ابھی تک یہ نہیں جان سکے کہ وزیر اعظم ایک سیاسی جماعت کا نہیں، پوری قوم کا نمائندہ ہوتا ہے۔ ملک کو انتخابی سیاست کے دور سے نکلے دو سال ہو چکے مگروہ ابھی تک اسی فضا میں جی رہے ہیں۔ جس کو شک ہو وہ ان کی 9 اکتوبر کی تقریر سن لے۔
پھر یہ کہ اس نظام کے پاس تنازعات کو حل کرنے کا کوئی بندوبست (Mechanism) موجود نہیں؟ جو لوگ اصرار کرتے ہیں کہ اس نظام کو پانچ سال جاری رہنا چاہیے، ان سے مؤدبانہ سوال ہے: کیا یہ نظام تنازعات کو حل کر سکتا ہے؟ کیا یہ نظام آئین کی پاس داری کو یقینی بنانے کی سکت رکھتا ہے؟ کیا یہ نظام اداروں کو ان کی آئینی حدود میں مقید کر سکتا ہے؟ کیا یہ آئین کی حاکمیت کی ضمانت دے سکتا ہے؟
ان سوالات کو مخاطب بنانے کے بجائے، ناقدین کی تمام تر کوشش یہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی اخلاقی ساکھ کو ہدف بنایا جائے۔ ان کے ماضی کی داستانیں سنائی جا رہی ہیں کہ کیسے مقتدرہ سے معاملات کرتے رہے۔ بطور جملہ معترضہ عرض ہے کہ اس تنقید کا بھی جواز نہیں۔ یہ لوگ ایک ہی سانس میں دو باتیں کہتے ہیں۔ نواز شریف کی تو کسی آرمی چیف سے نہیں بنی۔ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ بنانا ان کی غلطی تھی۔ ساتھ ہی کہتے ہیں، انہوں نے ڈان لیکس پر استقامت کیوں نہیں دکھائی؟ اس وقت پرویز رشید کو کیوں فارغ کیا؟ اس تنقید پر، اس کے سوا کیا تبصرہ کیا جا سکتا ہے کہ 'کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘۔
اس موقف کے حامیوں کو میں ایک اور بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ انتخابات کے نتیجے میں صرف حکومت نہیں بنتی، ایک نیا سیاسی بندوبست وجود میں آتا ہے جو پوری قوم کا نمائندہ ہوتا ہے۔ حکومت تو صرف ایک جماعت کی بنتی ہے جو اکثر ایک اقلیتی گروہ کی نمائندہ ہوتی ہے۔ (تحریک انصاف کو مشکوک نتائج کے باوجود 31.8 فیصد ووٹ ملے) تاہم پارلیمنٹ پوری قوم کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس میں اپوزیشن ہوتی ہے جو نئے سیاسی بندوبست کا حصہ ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کی فعالیت ہی اس نظام کو اخلاقی جواز فراہم کرتی ہے۔ اگر اپوزیشن کو معطل کردیا جائے، اس کے وجود ہی کی نفی کر دی جائے اور وزیراعظم ایک پارٹی لیڈر کے مائنڈ سیٹ سے باہر نہ نکل سکے تو اس کے بعد اس کے برقرار رہنے کا جواز ختم ہو جاتا ہے۔ اس پر مستزاد آزادیٔ رائے پر پابندی۔
آج سوال یہ نہیں کہ نواز شریف کھڑے رہتے ہیں یا نہیں؟ اگر یہ مقدمہ پوری قوم کا بیانیہ بن جائے تو پھر وکیل غیراہم ہو جاتا ہے۔ رفیق باجوہ بھٹو صاحب کے ساتھ مل گئے لیکن مقدمے پر کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ قوم کے ایک بڑے حصے نے اسے اپنا لیا تھا۔ آج کے دانشور اور رائے ساز کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بیانیے کے باب میں واضح موقف کے ساتھ سامنے آئے۔ اگر یہ درست ہے تو اس کی تائید کرے اور اگر اس کے نزدیک غلط ہے تو اس کے خلاف اپنے دلائل پیش کرے۔ نوازشریف کا ماضی کھنگالنے سے بیانیے کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
قومی سیاست جب ایک بیانیے پر کھڑی ہو جاتی ہے تو وہ لوگ خود بخود پس منظر میں چلے جاتے ہیں جو اس سے انحراف کرتے ہیں۔ 1977ء کی تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ رفیق باجوہ قومی اتحاد کے جلسوں کی جان ہوتے تھے۔ جیسے ہی انہوں نے انحراف کیا، وہ سیاست ہی نہیں، لوگوں کے دلوں سے بھی نکل گئے اور باقی عمر ایک گوشۂ گمنامی میں بسر کی۔ میں بار بار لکھ رہا ہوں کہ اگر نوازشریف اور مریم نواز اس بیانیے سے منحرف ہوں گے تو وہ بھی عوام کے دل سے اتر جائیں گے۔
آج ایک مدت کے بعد قومی سیاست ایک بیانیے پر استوار ہوئی ہے۔ یہ دانشوروں، رائے سازوں، وکلا اور سول سوسائٹی کے ذمہ داروں کا فریضہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں اور اداروں کو عوامی دباؤ سے اس پر مجبور کریں کہ وہ آئین کی بالا دستی کے سامنے سرِ تسلیم خم کریں۔ وہ ایسی فضا بنائیں کہ ملک سیاسی استحکام کے راستے پر چل نکلے۔ یہ استحکام تب ہی آئے گا جب سب اپنی آئینی حدود میں رہیں گے۔ جب ایسا ہوگا تو کوئی ریاستی ادارہ متنازع نہیں رہے گا۔ پھر حقیقی احتساب ہوگا۔ عوام کا ووٹ محفوظ ہوگا تو ان کا مال بھی محفوظ ہوگا۔ جب ووٹ چوری ہونے لگیں تو پھر پیسے کی چوری روکی نہیں جا سکتی۔ اس بات کو نوازشریف عمران خان تقسیم سے بلند تر ہو کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک شفاف انتخابی نظام‘ جس پر کسی ادارے کی گرفت نہ ہو‘ اور نئے انتخابات پر اتفاق پر قومی اتفاقِ رائے ہی ایک مستحکم سیاسی نظام کی ضمانت بن سکتا۔ نظام پر معاشی استحکام اس کے بعد ہی ممکن ہوگا۔
عمران خان کا سیاسی مستقبل بھی اسی میں ہے۔ ان کو ابھی ثابت کرنا ہے کہ ان کی سیاست کسی چھتری کے بغیر زندہ رہ سکتی ہے۔ نئے انتخابات انہیں یہ موقع فراہم کریں گے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا حل موجود نہیں جو ملک کو اضطراب کی گرفت سے نکال سکے۔ ملکی سیاست ایک بار پھر ایک بیانیے پر استوار ہو رہی ہے۔ اس کو مضبوط بنانا، اس وقت قومی فریضہ ہے۔