عمران خان صاحب کی فصاحت و بلاغت روزافزوں ہے۔ خطیبانہ صلاحیتیں نکھر رہی ہیں اور لغت میں وسعت آرہی ہے، جیسے رنگ باز، گیدڑ، چوہے۔ درمیان میں قدرے مندی رہی۔ ریلوکٹے پر بات جیسے رک سی گئی تھی۔ اب طبیعت پھررواں ہے۔
انہوں نے اِس بلیغ اندازِ خطابت کواپنی ذات تک محدود نہیں رکھا۔ ایک دریا دل کی طرح یہ چاہاکہ اِس کا فیض عام ہو۔ ان کی تمنا بے تاب ہے کہ یہ لغت اور یہ اسلوبِ کلام سیاسی کلچر بن جائے۔ جمعرات کو انہوں نے پنجاب کے وزرا سے ملاقات کی اور ایک وزیر کو ان کے سامنے بطور مثال پیش کیا، جو ایک ہونہار شاگرد کی طرح اپنے استاد کے نقشِ قدم پرچل رہے ہیں بلکہ کئی بار تواستاد سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔ نام کیا لینا، بس یہ جان لیں کہ ان کی واحد وجۂ شہرت ان کا موقع بے موقع بولنا ہے۔
یہ سب بے مقصد نہیں ہے۔ پس منظر میں یہ تصور کارفرما ہے کہ یہ ابلاغ کامعرکہ ہے۔ دنیا میں ڈونلڈ ٹرمپ، نریندر مودی اورخود خان صاحب نے بہت کامیابی کے ساتھ اس ہتھیار کواپنے انتخابی معرکے میں استعمال کیا اور اپنے سیاسی مخالفین کواس میدان میں چت کردیا۔ اسے 'پوسٹ ٹرتھ‘ کہا گیا۔ یہ لفظ اب انگریزی لغت میں شامل ہے۔ خان صاحب کا خیال ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد بھی اِسی ہتھیار کوآزمانا چاہیے۔
بنیادی خیال واضح ہے: اتنی دھول اڑائی جائے کہ سب کے چہرے گرد سے اٹ جائیں۔ جو لوگ افتادِ طبع کے لحاظ سے اس کیلئے موزوں ہیں، انہیں ہراول دستہ بنا دیا جائے۔ وہ ہر چیز سے بے پروا ہوکر مخالفین پر پِل پڑیں۔ ان کے ہاتھ میں جو اینٹ روڑا ہو، مخالفین کے سر پر دے ماریں۔ یوں لوگ اپنا دامن بچانے کیلئے پسپائی اختیار کرتے جائیں اور حملے کے قابل ہی نہ رہیں۔
کہنے کویہ جدید طریقہ ہے مگر اِس کا رواج ہمیشہ رہا ہے۔ میں نے اپنے گاؤں میں ایسے کردار دیکھے ہیں کہ دریدہ دہن ہیں۔ جس کی پگڑی چاہیں سربازار اچھال دیں۔ شرفا ان کے دشنام کا ہدف بنتے اور جواباً خاموش رہتے ہیں کہ ان کواپنی عزت کا پاس ہوتاہے۔ وہ جانتے ہیں‘ دوسرے فریق کے پاس کھونے کو کچھ نہیں۔ وہ ان کو دیکھ کرگریز اختیار کرتے ہیں، جیسے کوئی جوہڑ کے پاس سے گزرتے ہوئے اپنا دامن سمیٹ لے۔ انتخابات کے موسم میں لوگ ایسے کرداروں سے فائدہ اٹھاتے ہیں کہ الیکشن میں وہاں پگڑیاں اچھالنے کا مقابلہ زوروں پر ہوتا ہے۔
خان صاحب کا خیال یہ ہے کہ مسئلہ اُن کی کارکردگی نہیں، ابلاغ کا ہے۔ لوگوں کو یہ بتایا نہیں جا سکاکہ انہوں نے دو سال میں کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں اوریہ کہ ان کے مخالفین تاریخ کے بدترین لوگ ہیں۔ یہ قوم ابھی تک جان نہیں پائی کہ اُن کی صفوں میں ایک عجوبہ روزگار شخصیت کا ظہور ہوچکا جو ان کے ہر دکھ کا مداوا کر سکتی ہے۔
اس لاعلمی کا مداواکرنے کے لیے وہ آئے دن ایک نیا مشیرِ اطلاعات مقرر کرتے ہیں۔ کسی کے لیے شاید ہی ممکن ہوکہ اُن مشیروں کا شمار کرسکے جو دو سالوں میں تعینات ہوئے۔ تمام وزرا کی تعداد ایک طرف اور مشیرانِ اطلاعات ایک طرف۔ خان صاحب کو پھر بھی تسلی نہیں ہو رہی کہ کیسے قوم کو اپنی عظمت کاقائل کر سکیں۔ قوم اپنی بے نوری پہ مسلسل رورہی ہے اور یہ جانتی تک نہیں کہ ایک دیدہ ور پیدا ہوچکا۔اس کا ایک علاج انہوں نے یہ بھی اختیار کیا ہے کہ وہ اپنے کسی مداح کو انٹرویو دیتے ہیں جو بصورتِ سوال ان کے فضائل و مناقب بیان کرتاہے اور وہ جواب میں اس پر مہرِ تصدیق ثبت کردیتے ہیں۔ ہر سیاستدان کو مقبولیت خود پسند بنا دیتی ہے مگر نرگسیت کاایسا مظہر ہماری سیاست میں پہلے کبھی نہیں دیکھاگیا۔
سیاست دعوتِ دین ہے اور نہ سیاستدان داعی۔ سیاست میں یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا بھی پیش کردیا جائے۔ یہ دعوت و تصوف کی نہیں، مسابقت کی دنیا ہے۔ یہاں ادھار نہیں رکھا جاتا‘ لیکن سیاست میں جب بڑے لوگ آتے ہیں تو وہ مسابقت کا میدان بدل دیتے ہیں۔ وہ اخلاق کو مقابلے کا اصل میدان بنا دیتے ہیں۔ وہ سیاسی لغت کوبھی اس سطح پر لے جاتے ہیں کہ کوئی 'ابوالکلام‘ ہو یا 'ابوالاعلیٰ‘ علامہ اقبال، قائد اعظم یا بہادر یارجنگ ہو جو معیار پر پورا اترے۔ کیا لوگ تھے اور کیااُن کی زبان تھی۔ پھر گیدڑ، رنگ باز اور چوہے جیسے الفاظ سیاسی لغت کا حصہ نہیں بنتے۔ بڑے لوگ سیاست کا رخ کرتے ہیں تومقابلہ لغت اورکردار کی بلندی کا ہوتا ہے، پستی کا نہیں۔
نوجوانوں کاایک بڑاطبقہ خان صاحب کولیڈر مانتاہے۔ جب وہ ایک شعلہ فشاں کو لوگوں کے لیے بطور مثال پیش کرتے ہیں تو بالواسطہ ایک ایسے کلچر کو فروغ دیتے ہیں جو سیاست کو اخلاقی اعتبار سے پستی کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ سیاسی رفیقوں کو پیغام دیتے ہیں کہ میرا قرب حاصل کرنا چاہتے ہوتو ان جیسے بنو۔ جب مسابقت کا میدان بے موقع بولنے میں طاق ہونا ہوتو پھر مخالفین بھی اپنی صفوں میں ایسی صفات کے حاملین کو تلاش کرتے اور انہیں اپنا ہراول دستہ بنا دیتے ہیں۔ یوں سیاست تدریجاً پست لوگوں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔ کیا خان صاحب اسی تبدیلی کے علم بردار ہیں؟
حکومت کو کسی ففتھ جنریشن جنگ کاسامنا نہیں۔ اس لیے اس کا علاج بھی وہ نہیں، جو انہوں نے تجویز کیا ہے۔ یہ معرکہ مشیرانِ اطلاعات کی تعداد بڑھانے سے سرنہیں ہو سکتا۔ اگر بی آر ٹی اڑتیس دن بند رہتی ہے تو کیا کوئی مشیر اسے اپنی جادو بیانی سے چلادے گا؟ اگر بڑھتی مہنگائی نے لوگوں کے چولہے بجھا دیے ہیں تو کیا کسی مشیر کی آتش بیانی انہیں پھر سے جلادے گی؟ اگر چینی اور آٹاعوام کی دسترس سے نکل رہے ہیں تو کوئی محض باتوں سے ان غریبوں کا پیٹ بھرسکتا ہے؟ اس کے لیے 'پس انداز موسم‘ کی نہیں، روٹی کی ضرورت ہوتی ہے جوعوام دوست حکومت لوگوں کے لیے بچا رکھتی ہے۔
حکومت کبھی ردِ عمل کی سیاست نہیں کرتی۔ وہ اپنی باگ کبھی جذبات کے ہاتھ میں نہیں دیتی۔ وہ مخالفین سے زیادہ، مارکیٹ پر نظر رکھتی ہے۔ اس کے اعصاب پر سیاسی حریف نہیں، عوام کے مسائل سوار رہتے ہیں۔ وہ مسائل سے لڑتی ہے، مخالفین سے نہیں۔ اس کے مخالفین کی شکست اسی میں ہوتی ہے کہ وہ مسائل پر قابو پا لے اور اس پر تنقید مشکل ہو جائے۔
جن حکومتوں نے سیاسی مخالفین کو ہدف بنایا، انہیں اِس جنگ میں ہمیشہ شکست ہوئی۔ نواز شریف اپنے ماضی کو خیرباد کہہ چکے مگر سیف الرحمن کا نام آج بھی ان کے لیے طعنہ ہے۔ بھٹو صاحب کی عظمت اس وقت گہنا جاتی ہے جب مخالفین کے ساتھ ان کے سلوک کا ذکر چل نکلتا ہے۔ زرداری صاحب کے مخالفین کی آوازیں کمزور پڑ جاتی ہیں جب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دورِ صدارت میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔
عمران خان صاحب کوئی استثنا نہیں۔ وقت کا کوئی چہیتا نہیں ہوتا۔ وہ سب کو ایک نظر سے دیکھتااور اپنافیصلہ سناتاہے۔ تقدیر کے قاضی کا فتویٰ، سب کے لیے ایک جیسا ہے۔ کوئی پروپیگنڈا کسی کے نامہ اعمال کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ الفاظ آپ کا پیچھا کرتے ہیں کہ اب وہ ہوا میں بکھرتے نہیں، چھوٹے چھوٹے آلات میں محفوظ ہوجاتے ہیں۔یہ کہانی لیکن ازل سے اسی طرح لکھی جارہی ہے۔ سیاست میں کم لوگ ہو گزرے ہیں جو خود شناسی اور خوداحتسابی کا اہتمام کرتے ہیں۔ جمہوریت میں لوگ لیڈروں کا دماغ درست کردیتے ہیں مگر یہاں جمہوریت کہاں؟ یہاں سیاسی جماعتیں نہیں، مداحوں کے کلب ہیں جو سیاسی جماعتیں کہلاتی ہیں۔ اس کالم پرجو ردِعمل آتا ہے وہ ہر روز اس پر مہرِتصدیق ثبت کرتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہ کارخانہ ابھی اسی طرح چلے گا۔ مزیدکب تک چلے گا، یہ کوئی نہیں جانتا۔