سیاسی مخالفین کا معاملہ تو قابلِ فہم ہے کہ وہ ایک دوسرے کے سیاسی تضادات کو نمایاں کرتے اور انہیں عوام کی نظر میں ناقابلِ اعتبار ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کہیں فی الواقعہ تضاد نہ ہوتو کم ازکم ابہام ضرور پیداکر دیتے ہیں۔ اِسی کا نام پروپیگنڈا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاری کے مطالبات مگر مختلف ہیں۔ اس منصب کا تقاضا یہ ہے کہ وہ سیاست میں کارفرما عوامل کو صحیح تناظر میں پیش کرے تاکہ عام آدمی میں یہ صلاحیت پیدا ہو جائے کہ وہ بیانیے، حکمتِ عملی، اصول اور بے اصولی کے فرق کو جان سکے۔
زندگی، خواب اور تعبیر کے درمیان سفرہے۔ افراد اور اقوام تمام عمر حالتِ سفر میں رہتے ہیں۔ خواب منزل ہے، اگر نگاہوں سے اوجھل ہو جائے توسفر جاری رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آدمی پگڈنڈیوں میں الجھ جاتا اور بسا اوقات اپنی منزل کھوٹی کرلیتا ہے۔ خواب نہ ہو تو سفر کا ذوق ہی ختم ہو جاتا ہے۔ پھر زندگی اس کے سوا کچھ نہیں رہتی کہ صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کرنا۔
سیاست میں بھی خواب ہوتے ہیں اور تعبیرات بھی۔ خواب فروش بھی اور رہزن بھی۔ یہاں کھلی آنکھوں کے ساتھ قدم اٹھانا اور رکھنا پڑتا ہے۔ تجزیہ کرنے والوں کاکام یہ ہے کہ وہ اس سفر میں عوام کی رہنمائی کرتے رہیں۔ فیصلہ بہرحال عوام ہی کو کرنا ہوتا ہے؛ تاہم یہ واضح ہے کہ تجزیہ نگار خود اس صلاحیت سے محروم ہو تو پھر عوام کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے‘ اگر وہ اس کی بات مان کر چلیں گے۔ زندگی کو مگر اسی کشمکش سے گزرنا ہے۔ کبھی غلط سمت میں قدم اٹھ گیا، کبھی درست میں۔ خود احتسابی کا نظام زندہ ہوتو درست سمت میں زیادہ فاصلہ طے ہو جاتا ہے۔
ایک اور پہلو بھی اہم ہے۔ جب ہم خواب کا ذکر کرتے ہیں تووہ ایک ایسے تصور کا بیان ہوتا ہے جسے ابھی واقعہ بننا ہے۔ اس کی تفصیلات فرضی اور قیاسی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہم ایک مثالی جمہوری معاشرے کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ بتانا پڑتا ہے کہ اس خواب کے سفر میں اہم سنگ ہائے میل کون سے ہیں؟ جمہوری کلچر، اختلافِ رائے کا احترام، جمہوری روایات پر کھڑی سیاسی جماعتیں، انتخابات کا شفاف نظام، میرٹ۔
زندگی میں لیکن ہمیں موجود حالات کی روشنی ہی میں فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ اگر ملک میں سیاسی جمود پیدا ہو گیاہے۔ اقتدار کے مراکز تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اب ملک جتنی دیر اس کیفیت میں رہے گا، معیشت اور سماجی امن دگرگوں ہوتے جائیں گے۔ ہمیں اس سے فوری نکلنے کی ضرورت ہوگی۔ اب ایک آدمی اٹھتا اور اس کا یہ حل پیش کرتا ہے کہ اقتدار کے مراکز پر براجمان مل بیٹھیں اورآئین کو ثالث مان کرنئے انتخابات پر اتفاق کرلیں۔
اب اگر کوئی یہ کہے کہ ایک طرف تم کہتے ہوکہ جمہوری کلچر کے بغیر خواب کی کوئی تعبیر نہیں اور دوسری طرف نئے انتخابات کو مسئلے کا حل قرار دے رہے ہو ''کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟‘‘ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ ہم بیانیے اور حکمتِ عملی کے فرق کو نظرانداز کررہے ہوتے ہیں۔ ہم بات کو اس کے درست تناظر میں رکھ کر نہیں سمجھتے۔ سیاسی شعور کی ناپختگی کے سبب ہم اس فرق کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ زندگی کو منجمد نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اس کو متحرک رکھنا ہے۔ حرکت ہوگی تو خواب کی طرف سفر بھی جاری رہ سکے گا۔
بیانیے کے بارے میں ایک عام غلط فہمی یہ بھی ہے کہ اس میں مسائل کا جزئیات تک ذکرہوتا ہے۔ بیانیہ ایک اصولی مقدمہ ہے جس میں اصل مسئلے کی نشان دہی کی جاتی ہے۔ دیگر مسائل اس کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ عام آدمی اور ایک وژنری لیڈر میں یہی فرق ہوتا ہے کہ وہ کُل کی بات کرتا ہے، جزو کی نہیں۔ سطحی لیڈر جزو کو کل بناتے ہیں کیونکہ عوام کے جذباتی استحصال کا سب سے موثراور زود اثر نسخہ یہی ہے۔
میں اس باب میں اکثر مالی کرپشن کی مثال سامنے رکھتا ہوں کہ اس کو ام المسائل بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ کرپشن فرع ہے، اصل نہیں۔ کرپشن وہی کرتا ہے جو سماج اور ریاست کے استحکام کے لیے آئین اور قانون کی اہمیت کو نہیں جانتا۔ سماج کو اس بارے میں حساس بنانا ضروری ہے کہ ملک اسی وقت کرپشن سے پاک ہو سکتے ہیں جب سب لوگ اپنے اپنے آئینی اورقانونی دائرے میں رہ کر اپنا اپنا کام کریں۔ آئین اور قانون سے جتنا بڑا انحراف ہوگا، اتنی بڑی کرپشن جنم لے گی۔ معاشرے کو آئین کے بارے میں حساس بنائے بغیر کرپشن کا باب بند نہیں ہو سکتا۔
کرپشن صرف پیسے کی نہیں ہوتی۔ اپنے منصب کا غیرآئینی اور غیرقانونی استعمال سب سے بڑی کرپشن ہے۔ جب کوئی اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرکے دوسرے کے دائرے میں مداخلت کرتا ہے تو یہ کرپشن ہے۔ مالی کرپشن بھی اُسی وقت ہوتی ہے جب کوئی اپنے آئینی اختیارات کاناجائز استعمال کرتا ہے۔ اس کا تعلق کسی خاص منصب کے ساتھ نہیں، ہر منصب کے ساتھ ہے۔ اس کا اطلاق، پٹواری سے ریاست کے اعلیٰ ترین منصب تک، سب پر ہوتا ہے۔
ہم اس ترتیب کو الٹنا چاہتے ہیں۔ ہم اعلیٰ سطح پر وجود میں آنے والی آئینی کرپشن کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ ہمیں اس کا ادراک ہی نہیں۔ ہم ذاتی مفاد کے لیے حقائق کو مسخ کرتے، چھوٹے جرم کو بڑا اور بڑے جرم کو چھوٹا بناتے ہیں۔ عوام کی سادہ لوحی کا فائدہ اٹھاتے اور انہیں گمراہ کرتے ہیں۔ آج جو بیانیہ پیش کیاگیا ہے، وہ اس ترتیب کو درست کرتا ہے۔ یہ کرپشن کی حمایت نہیں، اس مرض کواس کی اصل جگہ سے پکڑنا ہے۔ بیانیے کا کام یہی ہے کہ وہ بنیادی مسئلے کی نشان دہی کردے۔
اگلا سوال یہ ہے کہ اس منزل کے حصول کے لیے حکمتِ عملی کیا ہونی چاہیے؟ اس بیانیے کو نظام کی روح کیسے بنایا جا ئے؟ یہ اسی فطری طریقے سے ہوگا۔ جمہوری کلچر، اختلافِ رائے کا احترام۔ مذہبی و سیاسی جنونیت اور ہیجان سے اجتناب۔ سیاسی جماعتوں کی تطہیر اور جمہوری روایات کی بنیاد پرتشکیل۔ اس منزل کی طرف بڑھنے کے لیے ہمیں اس وقت جمود سے نکلنا ہے۔ سیاسی عمل کو جاری رکھنا ہے تاکہ سب سیاسی جماعتیں اور قوتیں اس نظام کو مثبت سمت میں حرکت دینے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
یہ حکمتِ عملی کا سوال ہے۔ مذاکرات اس کے لیے ہونے چاہئیں کہ اس جمود سے نکل کر کیسے پاکستان کو آئین کی حکمرانی کے راستے پر ڈالاجاسکتا ہے؟ یہ اس مقصد کے لیے نہ ہوں کہ آئین سے صرفِ نظر کرتے ہوئے غیرآئینی قوتیں ان کو بھی شریکِ اقتدار کر لیں، جواب تک محروم ہیں۔ مذاکرات کا تعلق بیانیے سے نہیں، حکمتِ عملی سے ہے۔
آج عوام کو اسی حوالے سے شعوری آگاہی دینی چاہیے۔ یہی تجزیہ نگاروں کا منصب ہے۔ بیانیہ اور حکمتِ عملی یا آئین شکنی اور کرپشن، کا خلطِ مبحث اگردانستہ ہے تو قابلِ افسوس ہے۔ اہلِ سیاست کا رویہ تو قابلِ فہم ہے کہ مخالفین کے بارے میں ابہام پھیلانا ان کی ضرورت ہے، رائے سازوں کے منصب کا تقاضا کچھ اور ہے۔ ان کو تو قوم کی رہنمائی کرنی ہے۔ اگر وہ خود اصل اور فرع کا فرق نہیں جان پائیں گے تو عوام کو کیا بتائیں گے؟
پاکستان کی منزل آئین کی حکمرانی اور ووٹ کی عزت ہی ہو سکتی ہے۔ اس پر کسی مصلحت کے بغیر اہلِ سیاست کو سوچنا ہے کہ اس منزل تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے۔ آئین کو جب تک میزان نہیں مانا جائے گا، ملک سے کرپشن کے خاتمے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ایک گروہ سے دوسرے گروہ کو منتقل ہو جائے گی۔ ذرا بی آر ٹی اور چینی سکینڈل پرایک نظرڈال لیجیے۔ نااہلی اور کرپشن کے ایسے حسین امتزاج کی تیسری کوئی اور مثال موجود ہو تو مجھے ضرور بتائیے!