کفِ لسان یا ابلاغ؟ دنیا سے اٹھ جانے والوں کے بارے میں درست رویہ کیا ہے؟
یہ سوال اُس وقت اہم ترہو جاتا ہے جب رخصت ہونے والے نے معاشرے پر اپنے اثرات مرتب کیے ہوں۔ کم یا زیادہ، اس کے متاثرین ہوں، مثبت پہلو سے بھی اور منفی حوالے سے بھی۔ کچھ اسے مثال بناتے ہوں اور کچھ ہدفِ تنقید۔ وہ سماج کو کچھ دے جائے، خیر یا شر۔ ایسے لوگوں کیلئے زبانوں کا بند رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تجزیہ ایک معاشرتی ضرورت بن جاتا ہے۔ بصورتِ دیگر تاریخ نویسی ایک جرم اور کارِ عبث بن جائے۔
اسامہ بن لادن ہمارے عہد کی شخصیت ہیں۔ مسلم معاشرے معلوم نہیں، کتنی دہائیاں اُن کے افکار اور اعمال کے اثرات سمیٹتے رہیں گے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اُن کے بارے میں زبان بند رکھی جائے؟ دین کے مفہوم سے لے کر، مسلم سماج کی ہیئتِ کذائی تک، انہوں نے ہر شے کو متاثر کیا۔ مسلمانوں کے لیے ممکن نہیں کہ ان کے افکارواعمال کے باب میں کوئی حکم لگائے بغیر آگے بڑھ سکیں۔
جنرل ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاالحق، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سب زیرِبحث آتے ہیں۔ ہم نے یہ نہیں کیاکہ اُن کے معاملات کو خداکے حوالے کرکے خاموش ہو گئے ہوں۔ ہم ان کرداروں کو تاریخ کے اسباق کے طور پر پڑھتے، ان سے نتائج کشید کرتے اور ان سے فکروعمل کی تطہیر کا کام لیتے ہیں۔ اس لیے مجھے مرنے والوں کے بارے میں زبان بند رکھنے کی منطق سمجھ نہیں آ سکی۔ ایسی منطق جس پر کبھی عمل بھی نہیں ہوا۔
اصل سوال دوسرا ہے: زبان کھولیں تو کیسے؟ کیا بات ہے جوکہی جاسکتی اورکون ساپہلو ایسا ہے، جس کے بارے میں خاموشی روا ہے؟ کہنے والے کی حدود کیا ہیں؟ وہ کس بات پر حکم لگانے کا مجاز ہے اور کس پر اسے خاموشی زیبا ہے؟ کب بولنا چاہیے اورکب چپ ہوجانا چاہیے؟ مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم ان سوالات سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔
فرد اورکردار الگ الگ ہیں۔ 'فرد‘ سے مراد فلاں ابن فلاں ہے۔ ہم اس کے ظاہری اعمال و افکار پرحکم لگا سکتے ہیں، شخصیت پرنہیں۔ مرنے کے بعد، اس کے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے، ہم اس کی کوئی خبر نہیں رکھتے، اس لیے کچھ کہنے کے بھی مجازنہیں۔ اس کا فیصلہ وہی کر سکتا ہے جس پر اس کا ظاہروباطن سب آشکار ہو‘ جو اس کے دل کے بھید تک جانتا ہو۔ جو اس کی نیتوں سے باخبر ہو۔ خداکے سوا کوئی ان باتوں تک رسائی نہیں رکھتا۔ اس لیے فرد کے بارے میں خاموشی ہی روا ہے۔
ہم کسی کی مغفرت کا فیصلہ سنا سکتے ہیں نہ کسی کے عذاب کا۔ زیادہ سے زیادہ گمان کر سکتے ہیں۔ گمان بھی اچھا ہوتو اظہار کر دینا چاہیے، ورنہ میرا خیال ہے خاموشی بہتر ہے۔ دعا البتہ ہمیں کرنی چاہیے کہ یہ خدا کے حضور میں ہماری درخواست ہے۔ وہ اپنے قانون کے مطابق، چاہے گا تو پذیرائی دے گا، چاہے گا تو رد کر دے گا۔ فرد کے بارے میں ہماری حد یہی ہے۔
'کردار‘ کا مطلب ہے، وہ شخصیت جس نے معاشرے کومتاثر کیا۔ اس کے فکروعمل پر اپنے اثرات چھوڑے۔ ایک کلچر پیدا کیا۔ لوگ اس کی طرح کلام کرنے لگے۔ عوام نے اس کے خیالات کو اپنالیا۔ اس کے افکار سے متاثر ہوکر تلوار اٹھا لی یا کتاب۔ لوگ اس کے پیچھے چل نکلے۔ اس کی مان کر جئے۔ اس کردار نے معاشرے کو بنا ڈالا یا بگاڑ دیا۔ اس کردار نے سماج کی ہیئت کو بدل ڈالا۔
یہ کردار زیرِ بحث آنا چاہیے اورناگزیر ہے کہ اس پر بات ہو۔ اگر اس کے اثرات مثبت تھے تو لازم ہے کہ اس کا شعور عام ہو۔ لوگ اس کی تقلید کریں، اسے مثال بنائیں اور ترغیب دی جائے کہ اس جیسے بہت سے کردار معاشرے میں پیدا ہوں۔ اس کے برخلاف اگر اس نے سماج کو منفی طور پر متاثر کیا ہے تو بھی ضروری ہے کہ ان اثرات کو بیان کیا جائے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ جانے والے کے اس کردار نے کس طرح معاشرے کوبرباد کیا۔ مذہب کے ساتھ کیا کیا؟ سیاست کوکیسے پامال کیا؟ یہ سب بتانا لازم ہو جاتا ہے کہ سماج کواُس کردار کی تباہ کاریوں سے بچایا جا سکے۔
عام طور پر یہ آسان نہیں ہوتا کہ کسی 'فرد‘ پر کوئی حتمی حکم لگایا جائے تاہم جب ہم 'کردار‘ کی بات کرتے ہیں تو وہ واضح ہوتا ہے‘ جیسے میں نے اسامہ بن لادن کی مثال دی۔ جب ہم ان کا نام لیتے ہیں تو ان کا وہ کردار ذہن میں مشہود ہوجاتا ہے جو انہوں نے اپنی زندگی میں ادا کیا۔ تعبیرات مختلف ہو سکتی ہیں مگر کردار کی نوعیت میں کوئی اختلاف نہیں۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے اچھے مقصد کے لیے بندوق اٹھائی یا کوئی اس کے برخلاف رائے رکھ سکتاہے؛ تاہم دونوں آرا رکھنے والوں کے ذہن پر ان کا نقش یکساں ہے: ایک جنگجو جس کے ہاتھ میں بندوق ہے۔
ہمارے معاشرے سے جب ایسی شخصیت اٹھتی ہے جس نے سماج پر اپنے اثرات مرتب کیے ہوں تو ہم دوحصوں میں بٹ جاتے ہیں۔ ہم مرنے والے کی عاقبت کے فیصلے سناتے ہیں اور اس کی ذات پرحملہ آور ہوتے ہیں۔ اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں اور فردکو ہدف بناتے ہیں‘ حالانکہ ہمیں خود کو اس کے 'کردار‘ تک محدود رکھنا چاہیے۔ یہ اس لیے کہ اُس کا تعلق معاشرے کے مستقبل سے ہوتا ہے۔
ہمارے لیے اسامہ بن لادن بطور فرد اہم نہیں، مسلح جدوجہد کا سوال اہم ہے۔ کیا مسلح جدوجہد میں ہماری بہتری ہے اور کیا ہمیں یہ راستہ اختیار کرنا چاہیے؟ کیا دین کی وہ تفہیم درست ہے جسے انہوں نے فروغ دیا؟ یہ ہے وہ سوال جو اسامہ بن لادن کے 'کردار‘ نے اٹھایا ہے۔ اس پر گفتگو ہونا چاہیے اور اس ضمن میں لازم ہو گاکہ القاعدہ کی آئیڈیالوجی اور اس کے اثرات زیرِ بحث آئیں۔ میرے نزدیک یہ کوئی اختیاری سوال نہیں بلکہ لازم ہے کہ اس سارے عمل کا جائزہ لیا جائے کیونکہ اس کا تعلق مسلم معاشرے کی زندگی اور موت سے ہے۔
ہمارا عمومی رجحان یہ ہے کہ ہم افراد کو زیرِبحث لاتے ہیں۔ ان پر حکم لگاتے ہیں۔ لوگ منافق جیسے الفاظ اتنی آسانی سے استعمال کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ نفاق دل کی کیفیت ہے۔ کسی فرد کے دل کا حال جانے بغیر ہم کیسے کسی کو منافق کہہ سکتے ہیں؟ نبیﷺ نے منافق کی علامات بتائی ہیں لیکن ان کا کسی فرد پر اطلاق، اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب ہم اس کے احوال سے پوری طرح واقف ہوں۔
یہ علامات بھی اس لیے بتائی ہیں کہ ہم اپنا جائزہ لیتے رہیں۔ کہیں ہم میں وہ علامات تو پیدا نہیں ہو گئیں؟ ہمارا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہم تمام شرعی قوانین اور احکام کا مخاطب دوسروں کو سمجھتے ہیں اور خودکو محتسب جو سماج کی تطہیر کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اس لیے کبھی کسی کے عتاب کا فیصلہ سناتے ہیں اور کبھی کسی کی بخشش کا۔ اس کا مظاہرہ ہم ہر اس موقع پر کرتے ہیں جو کوئی بڑاآدمی رخصت ہوتا ہے۔
ایک بات البتہ ضرور پیشِ نظر رہنی چاہیے۔ موت کسی کی بھی ہو، افسردہ کر دینے والا ایک عمل ہے۔ اس موقع پر کوئی منفی تبصرہ بنیادی اخلاقیات کے خلاف ہے۔ اس لیے فرد کے بارے میں منفی بات کہنے سے گریز کرنا چاہیے کہ جانے والے سے بہت سے لوگوں کے جذبات وابستہ ہوتے ہیں۔ تبصروں کو کچھ دنوں پر اٹھا رکھنا چاہیے۔ اس کے بعد بھی 'فرد‘ اور' کردار‘ کا فرق سامنے رہنا چاہیے۔
علامہ خادم رضوی ایک فرد تھے اور ایک کردار بھی۔ فرد رخصت ہوا، کردار باقی ہے۔ بحیثیت فرد، میں خدا کے حضور میں ان کی مغفرت کے لیے دعا گو ہوں؛ تاہم ان کے کردار کا ذکر اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک معاشرہ اس کے اثرات کی گرفت میں رہے گا۔