'نئے پاکستان‘ کی کوکھ سے 'پرانا پاکستان‘ جنم لے گا، یہ شاید ہی کسی نے سوچا ہوگا۔ جہاں دعویٰ ہوکہ سب کچھ 'پہلی بار‘ ہو رہا ہے، وہاں کچھ 'دوسری بار‘ یا 'تیسری بار‘ ہونے لگے تو کیا یہ اچنبھے کی بات نہیں؟
جمہوریت سے منسوب، ہماری تاریخ کے چند سال، اپنے دامن میں کچھ تلخ یادیں بھی سمیٹے ہوئے ہیں۔ ایسی ہی ایک یاد سیاسی مخالفین کے خلاف ریاستی طاقت کا مظاہرہ ہے۔ بھٹو صاحب نے اس طاقت کو جس طرح بے دریغ استعمال کیا، وہ ان کے دامن پر لگا ایک ایسا داغ ہے کہ ان کے تمام تر کارناموں کے باوجود، مٹ نہیں سکا۔ جمہوریت کے لیے یہ ایک ایسا عیب ہے کہ اس کونظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی بھی اس داغ کو دھو نہیں سکی۔ نوازشریف صاحب کا ابتدائی دورِ اقتدار بھی، اس حوالے سے کوئی خوشگوار یاد نہیں۔ سیاسی مخالفین اور بعض اہلِ صحافت کے ساتھ ان کا برتاؤ بھی وہی رہا جو بھٹو صاحب سے منسوب ہے۔
جمہوریت کی مگر ایک اچھی بات یہ ہے کہ ِاس کی فطرت میں خود احتسابی ہے۔ یہ مثالی نہ ہو، توبھی غلطیوں پراصرار نہیں کرتی۔ ہمارے سیاستدانوں نے یہ سیکھا کہ سیاسی مخالفین کے خلاف ریاستی قوت کااستعمال فسطائیت تو ہو سکتی ہے، جمہوریت نہیں۔ اس کا پہلا اعتراف ''میثاقِ جمہوریت‘‘ کی صورت میں سامنے آیا۔ اس پر پوری طرح عمل نہیں ہوا لیکن اس میں شبہ نہیں کہ اس معاہدے نے پاکستان میں ایک نئے سیاسی کلچر کی بنیاد رکھ دی۔
اس کا ایک ثمر یہ تھاکہ پاکستان میں سیاسی قیدی کا تصور ختم ہوگیا۔ سیاسی مخالفین اور میڈیا کے خلا ف ریاستی قوت کے استعمال کو عیب سمجھا گیا اور جمہوری حکومتوں نے کوشش کی کہ ان کے دامن پر کوئی ایسا داغ نہ ہو۔ اس کی پہلی مثال پیپلزپارٹی نے پیش کی۔ 2008ء سے 2013ء تک یہاں آصف زرداری صاحب کی حکومت رہی۔ اُس دور میں کوئی ایک سیاسی قیدی نہیں تھا۔ تب میڈیا نے ان کو غیرمستحکم کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا مگرکسی کے خلاف حکومت نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
2013ء میں نون لیگ کی حکومت قائم ہوئی۔ اس حکومت کے ساتھ تو یہ ہواکہ 'سرمنڈاتے ہی اولے پڑے‘۔ 2014ء میں 'سول نافرمانی کی تحریک‘ اٹھا دی گئی۔ ہماری تاریخ کا طویل ترین دھرنا ہوا۔ پی ٹی وی اور دوسری سرکاری عمارتوں پر حملے ہوئے۔ مقدمات قائم ہوئے مگر خان صاحب بھی آزاد رہے اور قادری صاحب بھی۔ خان صاحب تو اشتہاری بھی قرار پائے لیکن کسی نے انہیں گرفتار نہیں کیا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ 2008ء سے 2018ء تک اس ملک میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔
یہ جمہوری کلچر کی طرف ایک اہم پیش رفت تھی۔ خیال یہی تھاکہ بات مزید آگے بڑھے گی۔ یہاں جمہوری کلچر مستحکم ہوگا اور نئی اقدارکا فروغ ہوگا۔ افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا۔ آج نئے پاکستان کی کوکھ سے پرانا پاکستان جنم لے رہا ہے۔ ہم ایک بار ماضی کی طرف لوٹ رہے ہیں جب سیاسی مخالفین کے خلاف ریاستی قوت کا بیدردی کے ساتھ استعمال ہوتا تھا۔
ملتان میں پی ڈی ایم کے جلسے کو روکنے کیلئے وہی ہتھکنڈے استعمال ہورہے ہیں جو فسطائیت کا خاصہ ہیں۔ لوگوں کو جلسے میں شرکت سے روکنے کیلئے گھروں سے اٹھایا جا رہا ہے۔ مقدمات قائم ہورہے ہیں۔ جلسہ گاہ میں پانی چھوڑا جارہا ہے۔ بجلی کی تاریں کاٹی جا رہی ہیں۔ وہ سب کچھ ہورہا ہے جو جمہوریت کے دامن پرداغ ہے۔ اس روایت کو زندہ کردیا گیا ہے جس کی یاد شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
کورونا کے دنوں میں عوامی اجتماعات ہونے چاہئیں یا نہیں؟ یہ اہم سوال ہے اور پی ڈی ایم کی قیادت کو اس پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ میں اپنی اس رائے کا اظہار کر چکاکہ یہ وقت جلسوں کیلئے موزوں نہیں۔ اس کا تعلق حکومت سے نہیں ایک وبا سے ہے جو تیزی سے پھیل رہی ہے۔ یہ اپوزیشن کے جلسوں کو روکنے کی کوئی حکومتی تدبیر نہیں‘ یہ خدائی فیصلہ ہے۔ ہم تدبیر سے لڑ سکتے ہیں، تقدیر سے نہیں۔
حکومت کا مسئلہ مگر دوسراہے۔ وہ اس وبا سے سیاسی فائدہ کشید کرنا چاہتی ہے۔ اِس وقت حکمرانوں کے پیشِ نظر کورونا کو نہیں، اپوزیشن کی تحریک کوروکنا ہے۔ وہ کورونا کو اس مقصد کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ حکومت اگر کورونا کو روکنے کیلئے سنجیدہ تھی تو اسے اپوزیشن کے خلاف اپنا مقدمہ اخلاقی بنیادوں پر قائم کرنا چاہیے تھا ناں کہ جبر کے استعمال سے۔ تبلیغی جماعت کااجتماع ہوا تو حکومت نے توجہ دلائی لیکن اس کو روکنے کیلئے جبر نہیں کیا۔ یہ صحیح طریقہ تھا۔ اپوزیشن کے معاملے میں بھی یہی رویہ درست ہوتا۔
حکومت نے جس طرح طاقت سے سیاسی اجتماع کو روکنے کی کوشش کی اس نے بہت پرانے پاکستان کی یاد تازہ کردی جب مخالفین کی جلسہ گاہوں کو کھود دیا جاتاتھا، ان میں پانی چھوڑدیا جاتا تھا اور کبھی سانپ پھینکے جاتے تھے۔ جھوٹے مقدمات اس کے علاوہ تھے۔ یہ ایسی تلخ یادیں ہیں کہ وہ سیاسی جماعتیں بھی انہیں اپنی یادداشت سے کھرچ دینا چاہتی ہیں جن کے ادوار میں یہ سب کچھ ہوا۔ وہ اسے اپنے لیے باعثِ شرمندگی سمجھتی ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں ہواکہ اس دور میں جمہوری روایات کو پامال کیا گیا ہو۔ اسی دورِ حکومت میں میڈیا اور آزادیٔ رائے کو جن پابندیوں کا سامناہے، وہ ایک سیاسی حکومت کیلئے ندامت کی بات ہے۔ عمران خان صاحب سے ایک حالیہ ٹی وی انٹر ویو میں، جب ان صحافیوں کے بارے میں سوال کیا گیا جنہیں اٹھالیا گیا تو جواب کے لیے انہیں الفاظ نہیں مل رہے تھے۔
یہ سب بہت پرانے پاکستان ہوتاتھا۔ وہ پاکستان جس کی طرف کوئی لوٹنا نہیں چاہتا۔ نئے پاکستان کے نام پر لیکن ناصرف پاکستان بلکہ دنیا کی متروک تاریخ کو زندہ کیا جارہا ہے۔ بیسویں صدی کاوہ پاپولزم جس نے دنیا کو فسطائیت کا تحفہ دیا اور جس نے ہٹلر اور میسولینی کو جنم دیا، ایک متروک تصورہے۔ یہاں تک کہ جرمنی اور اٹلی ان ادوار سے بارہا اعلانِ برات کرچکے لیکن ہم اسے زندہ کررہے ہیں۔
پہلے احتساب اوراب کورونا کے نام پر جمہوری اقدار کو جس طرح نقصان پہنچایا جا رہاہے، وہ ہر اس آدمی کیلئے لمحہ فکریہ ہے جو ایک جمہوری پاکستان کا خواب دیکھتا ہے۔ ایسا پاکستان جس میں بنیادی انسانی حقوق کا احترام ہو اورجہاں شہریوں کو بات کہنے کی مکمل آزادی ہو۔ جہاں کسی کو یہ خوف نہ ہوکہ اس نے حکومت کے بیانیے سے اختلاف کیا تو اسے اٹھالیا جائے گا۔
تاریخ یہ ہے کہ ایسے اقدامات حکومتوں پر بھاری پڑے ہیں۔ اس سے ان کی ہوا اُکھڑ ی ہے۔ اسے ہمیشہ حکمرانوں کی کمزوری سمجھاگیا۔ اس بار کوئی وجہ نہیں کہ تاریخ کا نتیجہ مختلف ہو۔ حکومت کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کو کچھ نہیں۔ مہنگائی نے جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ خارجہ پالیسی، جس کا کریڈٹ خان صاحب لے رہے ہیں، کبھی اس کسمپرسی کا شکار نہیں رہی۔ اس پر مستزاد مخالفانہ آوازوں کو طاقت سے دبانے کی حکمتِ عملی۔ کوئی حکومت اس نامہ اعمال کے ساتھ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔
یہ بات ایک نہیں، کئی مرتبہ ثابت ہوچکی کہ خان صاحب کا مزاج جمہوری نہیں۔ وہ چین جیسا نظام چاہتے ہیں جہاں ایک جماعت کی آمریت ہو۔ ان کی خواہش ہے کہ کسی طریقے سے سارے اختیارات ان کی ذات میں جمع ہو جائیں۔ یہ تاریخ سے جنگ ہے۔ خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ جلد یا بدیر، تاریخ سے لڑنے والوں کو ہمیشہ شکست ہوتی ہے۔