"KNC" (space) message & send to 7575

سیاست‘ کیا مثالی ہو سکتی ہے؟

خلافت راشدہ ایک استثنا ہے کہ یہ مختصر دور ایک الٰہی منصوبے کا حصہ اور اللہ کی ایک خاص سنت کا ظہور تھا ورنہ سیاست‘ تاریخ میں کبھی مثالی نہیں رہی۔ ان پہ حیرت ہے جو معاصر اہلِ سیاست کو مثالی دیکھنا چاہتے ہیں۔ حیرت در حیرت یہ ہے کہ اپنی سادہ لوحی کے باعث رومان پالتے ہیں۔ ذہن میں ایک آئیڈیل تراشتے اور پھر گوشت پوست کے کسی انسان میں اس آئیڈیل کو مجسم دیکھنے لگتے ہیں۔ یہ انسان اور اس کے حواری‘ اس سادہ لوحی سے فائدہ اٹھاتے اور انہیں باور کراتے ہیں کہ ہاں‘ یہی تمہارے خوابوں کی تعبیر ہے۔
سیاست میں برسوں سے یہ کھیل جاری ہے اور نہیں معلوم کب تک جاری رہے گا۔ اس سادہ لوحی کے بھی مدارج ہیں۔ کچھ لوگ خوابوںکو بکھرتا دیکھتے ہیں تو خیالی دنیا سے نکل آتے ہیں۔ کچھ کبھی نہیں نکل پاتے اور اپنے خیالی پیکر کے لیے عذر تراشتے رہتے ہیں۔ ''وہ خود تو بہت اچھا ہے‘ اس کے مشیر خراب ہیں‘‘ جیسے دلائل سے خود کو آسودہ رکھتے ہیں۔
یہ مثالیت پسندی صرف عوام کا مسئلہ نہیں‘ اخبار اور ٹی وی کے تجزیے بھی اسی معیار پر سیاسی رہنماؤں کو پرکھتے ہیں۔ ان تجزیہ کاروں میں سے اکثر عوام کی طرح سادہ لوح نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جب صحافت اور مذہب کی دنیا مثالی نہیں تو سیاست کیسے مثالی ہو سکتی ہے؟ وہ عوام کی سادہ لوحی سے خوب واقف ہیں۔ انہوں نے عوامی خوابوں کی سوداگری کو بطور پیشہ اپنا لیا ہے۔ یہ تاریخ کے سچے جھوٹے قصے سناتے ہیں‘ جب اس دنیا پر عادل بادشاہ حکمرانی کیا کرتے تھے۔ ان کی راتیں گلیوں میں گشت کرتے یا مصلے پر آنسو بہاتے گزرتیں اور دن مزدوری کرتے اور لوگوں کے گھروں میں خوراک پہنچاتے۔ 
کچھ معاصر مغرب کے قصے سناتے ہیں کہ کیسے فلاں یورپی ملک کا وزیر اعظم سائیکل پر دفتر جاتا ہے اور اس کے پاس کپڑوںکے صر ف دو جوڑے ہیں۔ ماضی و حال کی یہ سچی جھوٹی کہانیاں جب تکرار کے ساتھ سنائی جاتی ہیں تو عوام سوچتے ہیں کہ ہمارے حکمران ایسے کیوں نہیں ہو سکتے؟ اس سوال کے جواب میں ایک مسیحا بلا لہراتے ہوئے نمودار ہوتا ہے اور لوگ اس سے رومان باندھ لیتے ہیں۔
رائے سازوں یا میڈیا کے سخنوروں کے ہاں تو یہ رسم ہے ۔ دنیا میں سب سے آسان کام لوگوں کے جذبات سے کھیلنا ہے۔ اسی سے مقبولیت ملتی ہے۔ کچھ سادہ لوح ہوں گے جو دیانت داری سے سمجھتے ہوں گے کہ سیاست مثالی ہوتی ہے اور یہ آج بھی ممکن ہے۔ ان کی تعداد مگر آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ انسانی نفسیات کا مطالعہ اس کا جواب فراہم کرتا ہے اور تاریخ اس کی تائید۔
اسالیبِ کلام میں سب سے پُراثر شعر کو سمجھا گیا ہے۔ شعر‘ جس سرعت کے ساتھ انسان پر اثر انداز ہوتا ہے‘ نثر نہیں ہو سکتی۔ تصوف کی پشت پر رومی‘ بھٹائی‘ بلھے شاہ اور سلطان باہو کی شاعری نہ ہوتی تو وہ شاید اتنا زود اثر نہ ہوتا۔ علامہ اقبال نے شاعری کو اپنے پیغام کے ابلاغ کا ذریعہ بنایا‘ تو اسی لیے۔ انہوں نے خود بیان کیا کہ ان کے نزدیک شاعری کی حیثیت بس اتنی ہے کہ لوگوں تک ان کی بات پہنچ جائے‘ یہ ممکن ہے کہ آنے والے نسلیں انہیں شاعر مانے سے انکار کر دیں۔
یہ توخیر ایک بڑے آدمی کا عجزتھا ورنہ کوئی اُن جیسا شعر کہہ کر تو دکھائے۔ شاعری کو بطور فن انہوں نے جن رفعتوں سے آشنا کیا‘ واقعہ یہ ہے کہ خود شاعری اس پر فخر کرتی ہے۔ اقبال دلوں کو مخاطب بنانا چاہتے تھے کہ زوال آشنا قوم کو زندہ کرنے کا یہی طریقہ تھا؛ تاہم وہ یہ بھی جانتے تھے کہ شاعری ان کو آمادۂ سفر توکر سکتی ہے‘ سنگِ ہائے میل کی خبر نہیں دے سکتی۔
یہ کام دل کا نہیں‘ دماغ کا ہے۔ سنگ ہائے میل کی خبر‘ انہوں نے اپنی نثر میں دی۔ وہ اس سے واقف تھے کہ یہ نثر ہے جو دماغ کو مخاطب بناتی ہے۔ نثر میں اقبال کا کام بہت وقیع ہے لیکن وہ کبھی ان کی مقبولیت کا باعث نہیں بن سکتا تھا۔ یہ شاعری تھی جس نے انہیں مقبول بنایا۔ ان کی نثر سے خود ان کے مداحوں کی اکثریت واقف نہیں۔ اگر چند ہیں بھی تو اسے چھپاتے ہیں۔
مبالغہ شاعری کی جان ہے اور ایک شاعر کو زیبا ہے۔ زندگی کا معاملہ یہ ہے کہ اسے حقیقت کی دنیا میں اپنی بقا کا سامان تلاش کرنا ہے۔ جینے کے لیے حقیقت پسند ہونا پڑتا ہے۔ سیاست زندگی کو درپیش مسائل کا حل دیتی ہے۔ وہ غیرحقیقی کبھی نہیں ہو سکتی۔ جو یہ بات کہتا ہے‘ وہ مقبول نہیں ہوتا۔ اس کی بات سمجھ میں آتی ہے مگر وقت گزرنے کے بعد۔
مثال سے بات واضح کرتا ہوں۔ سیاست میں مشکل بھی آتی ہے اور آسانی بھی۔ جو مشکل میں ساتھ کھڑا رہے‘ یہ کیسے ممکن ہے کہ آسانی آئے تو اسے نظرانداز کردیا جا ئے؟ مشرف دور میں‘ جب کلثوم نواز گھر سے نکلیں تو میں نے دیکھا کہ راولپنڈی میں ان کے لیے سب دربند ہوگئے‘ سوائے دو دروازوں کے۔ جو اپنے الفاظ میں‘ وزارتوں اور ترغیبات کے بدلے میں نوازشریف کی تصویر دینے پر آمادہ نہ تھے‘ انہوں نے معذرت کر لی کہ بیگم صاحبہ ان کے گھر تشریف نہ لائیں۔ جو دروازے کھلے رہے‘ ان میں سے ایک چوہدری تنویرکا تھا اور دوسرا نجمہ حمید کا۔
جب نوازشریف اس مشکل دور سے گزر گئے اور اقتدار تک پہنچے تو چوہدری تنویر کو سینیٹر بنایا اور نجمہ حمید‘ ان کی بہن اور بھانجی کو قومی اسمبلی کا رکن اور بھانجی کو وزیر بنا دیا۔ یہی عمران خان صاحب نے کیا۔ ان پر ایک دور ایسا گزرا کہ بڑے بڑے سیاسی پنڈتوں نے ان کو ایک ناکام سیاست دان ثابت کر دیا جس کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں تھا۔ ایسے وقت میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اِن کے ساتھ کھڑے رہے۔ کچھ نفسیاتی سہارا بنے۔ کچھ نے وسائل فراہم کیے۔ کچھ نے اپنا وقت دیا۔ جب عمران خان پر اقتدار کی دیوی مہربان ہوئی تو وہ ان لوگوں کو کیسے نظرانداز کر سکتے تھے؟ 
آج نوازشریف اور عمران خان کو طعنہ دیا جاتا ہے کہ نااہلوں کو منصب دیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگریہ اپنے تئیں کسی اہل کو لے آئیں اور ایسے لوگوں کو نظرانداز کر دیں تو پھر بھی طعنہ ملتا ہے کہ فلاں کو وزیر بنا دیا‘حالانکہ اس کو جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے تھے پارٹی میں شامل ہوئے اور فلاں کو نظرانداز کر دیا حالانکہ اس نے پارٹی کیلئے بڑی مار کھائی۔ 
سیاست میں توازن قائم رکھناپڑتا ہے۔ حکومت کے لیے کسی عبدالحفیظ شیخ کی ضرورت ہوتی ہے اور سیاست کے لیے کسی مراد سعید کو وزیر بناناپڑتا ہے۔ یہ دنیاکبھی مثالی نہیں رہی اور نہ ہو سکتی ہے۔ ہماری جدوجہد اس لیے ہوتی ہے کہ اس میں خیرکا غلبہ ہو۔ یہ غلبہ کوئی پراسرار واقعہ نہیں ہے۔ اس کی بنا بھی زمینی حقیقتوں پر رکھی جاتی ہے۔ عوام کے ساتھ زیادتی یہ ہوتی ہے کہ سیاستدان اور ان کے حواری جان بوجھ کر گوشت پوست کے ایک انسان کو دیوتا اور مخالفین کو شیطان ثابت کرتے ہیں اور عوام سادہ لوحی میں مان لیتے ہیں۔ تجزیہ کار اس میں یوں معاون بنتے ہیں کہ تاریخ اور معاصر معاشروں کو مثالی بناکر پیش کرتے ہیں۔ 
اس تاریخ اور ان معاصر معاشروں کو میں کسی کالم میں موضوع بناؤں گا۔ آج بس یہ مقدمہ پیش کرنا ہے کہ سیاست کبھی مثالی نہیں ہوتی۔ دیکھنا بس اتنا ہے کہ کوئی لیڈر اخلاقی قدروں کو کتنی اہمیت دیتا ہے اور اخلاقی تقاضوں‘ سیاسی مطالبات اور صلاحیت و مصلحت میں کیسے توازن قائم کرتا ہے۔ اہلِ سیاست کو بھی چاہیے کہ انسانوں کو دیوتا بنانے کے بجائے‘ انہیں انسان ہی رہنے دیں اور عوام کی سادہ لوحی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں۔ اہلِ صحافت کو بھی مقبولیت اور قومی مفاد میں توازن پیدا کرنا ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں