کیا رویتِ ہلال کمیٹی کا اصل مسئلہ مفتی منیب الرحمن صاحب کی ذات تھی؟ ان کو ہٹانے سے وہ قضیہ حل ہو جائے گا جوہر سال‘ کم از کم ایک مرتبہ پوری قوم کو اضطراب میں مبتلا کرتا ہے؟ ان کا متبادل کس اصول پر تلاش کیا گیا؟
آمروں کے طرزِ حکمرانی پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک صاحب نے کہا تھا کہ وہ سماج کے بڑوں کو چھوٹا اور چھوٹوں کو بڑا کر دیتے ہیں۔ میں اس حکیمانہ جملے پر غور کرتا رہا۔ میں نے جب اس کا اطلاق ملکی تاریخ کے مختلف ادوار پر کیا تو حیرت انگیز طور پر تاریخ کو اس کی تائید میں کھڑا پایا۔ آج کا دور بھی مجھے اسی کا تسلسل معلوم ہوتا ہے؛ اگرچہ بظاہر یہاں جمہوریت ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ میں اس کے دو اسباب تلاش کر سکا۔ ایک کا تعلق انسانی نفسیات سے ہے اور دوسرے کا ذہنی سطح سے۔ غورکرنے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ معاملہ آمروں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ یہ اصول ان اہلِ سیاست پر بھی پوری طرح منطبق ہوتا ہے جواعتماد سے محروم ہوتے ہیں۔ اہلِ سیاست وحکومت جس طرح کے لوگوں کو اپنے قریب رکھتے ہیں‘ اُن سے آپ اُن کی ذہنی سطح اور نفسیاتی کیفیت کو جان سکتے ہیں۔ جنرل ضیاالحق کے دور کو دیکھ لیجیے! وہ جب اقتدار میں آئے تو معاشرے میں کچھ بڑے تھے۔ یہ سیاست‘ صحافت اور ادب سمیت تمام شعبہ ہائے حیات میں پائے جاتے تھے۔ ضیا صاحب نے ان تمام شعبوں میں موجود بڑوں کے منصب اور جگہ پر چھوٹوں کو بٹھاناشروع کیا۔ ایک مجلسِ شوریٰ بنائی جسے پارلیمنٹ کے متبادل کے طور پر پیش کیا گیا۔ یوں ان اہلِ سیاست کوکمزور کیا گیا جن کی جڑیں عوام میں تھیں۔ مجلسِ شوریٰ میں سیاست‘ مذہب اور دوسرے شعبوں سے زیادہ تران افراد کو چنا گیا جو نمایاں نہیں تھے یا اپنے اپنے شعبے میں دوسری اور تیسری صف کے لوگ تھے‘ الا ما شااللہ۔
ان کاخیال تھاکہ اس طرح وہ معاشرے میں ایک متبادل قیادت پیدا کر دیں گے۔ اس سے ان شعبوں کی نمائندگی ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آ جائے گی جو ان کے وفادار ہوں گے اور یوں ان کی حکمرانی کو چیلنج کرنے والوں کاخاتمہ ہو جائے گا یا وہ بے اثر ہو جائیں گے۔ وہ جانتے تھے کہ کوئی صاحب الرائے سیاست دان‘ عالم‘ صحافی یا ادیب آمریت کی حمایت نہیں کر سکتا۔ نوازشریف‘ چوہدری نثار علی خان‘ خواجہ صفدر سمیت ان گنت لوگ تھے‘ جو سیاست میں نووارد تھے یا بے اثر ہوچکے تھے۔ ان سب کو ضیاالحق نے اپنی چھتری فراہم کی اور ذوالفقار علی بھٹو‘ نواب زادہ نصراللہ خان‘ اصغر خان اور اس طرح کے حقیقی سیاست دانوں کو بے اثر بنانے کے لیے ایک متبادل سیاسی قیادت کھڑی کی گئی۔
ان میں جو باصلاحیت تھے‘ انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اس چھتری کے بغیر بھی اپنا وجود برقرار رکھا؛ تاہم یہ کہاجا سکتا ہے کہ اگرانہیں یہ سرپرستی میسر نہ آتی تو وہ کبھی صفِ اوّل کے سیاسی رہنما نہیں بن سکتے تھے یا انہیں مزید کئی سال انتظار کرنا پڑتا۔ ضیاالحق صاحب کو یہ فائدہ ہوا کہ جب تک وہ زندہ رہے‘ یہ لوگ ان کے دست و بازو بنے رہے۔ انہوں نے افراد ہی نہیں‘ جماعتوں کا متبادل دینے کی کوشش بھی کی۔ جیسے پیپلزپارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ کو منظم کیا اور کراچی میں جماعت اسلامی کو بے اثر بنانے کے لیے ایم کیو ایم کو کھڑا کیا۔
یہی کام ادب اور صحافت میں بھی کیاگیا۔ 'اکادمی ادبیات‘ اور 'مقتدرہ قومی زبان‘ جیسے سرکاری اداروں کی معاونت سے خاص ادیبوں اور شاعروں کوسامنے لایا گیا۔ ان میں باصلاحیت لوگ بھی تھے‘ جنہوں نے جنرل ضیا کے بعد بھی زندگی کا ثبوت دیا مگر جب تک وہ زندہ رہے‘ اُن کاہنر اور علم و فضل آمریت ہی کے کام آئے۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک آمر کس نفسیاتی کیفیت کے ساتھ حکمرانی کرتا ہے۔ کیسے بڑے لوگوں سے خائف رہتا ہے اور انہیں ختم کرنا یا بے اثر بناناچاہتا ہے جو اس کے اقتدار کے لیے چیلنج بن سکتے ہوں۔ اُسے اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ سیاست‘ صحافت اور ادب جیسے شعبے بڑی سطح کے لوگوں سے خالی ہو جائیں تو قومیں زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ کسی قوم میں اقبال اور فیض‘ نواب زادہ نصراللہ خان اور پروفیسر عبدالغفور جیسوں کا وجودان کے زندہ ہونے کا ثبوت ہوتا ہے۔ اس درجے کے لوگوں کو بے اثر بنانے کا مطلب قوم کو فکری اور اخلاقی طور پر بانجھ بناناہے۔
اب ذہنی سطح کو بھی دیکھ لیجیے! جنرل ایوب خان نے ادب اور صحافت میں قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر جیسوں کا انتخاب کیا۔ شہاب صاحب تو سرکاری ملازم تھے۔ انہوں نے حکومت کا ساتھ دینا تھا لیکن سرکاری ملازم اور بھی تھے۔ ایوب خان نے ان کی ذہانت اور علمی حیثیت کو اپنے اقتدار کے لیے استعمال کیا۔ ان حضرات کے خیالات کے بارے میں ایک سے زیادہ آرا ہو سکتی ہیں مگر ان کے علم و ہنر سے انکار نہیں کیاجا سکتا۔
ضیاالحق صاحب نے بھی زیڈ اے سلہری‘ صدیق سالک‘ اے کے بروہی اور خالد اسحاق جیسی ذہانتوں کو اپنے گرد جمع کر لیا۔ ان حضرات کی اخلاقی ساکھ کوجو نقصان پہنچا‘ وہ پہنچا مگر اس میں شبہ نہیں کہ ضیاالحق صاحب کو ان کے ہنر کا بہت فائدہ ہوا۔ اب آج کے حکمران اور مقتدر طبقے کے حسنِ انتخاب پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔ سیاست اور ادب سمیت تمام شعبہ ہائے حیات سے کس درجے کے لوگ ان کا مقدمہ لڑ رہے ہیں؟ اس انتخاب سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اس سیاسی بندوبست اور ملک کا مستقبل کیا ہے؟
فطرت کا قانون یہی ہے کہ کسی شعبے میں کوئی فرد ناگزیر نہیں ہوتا۔ معاشرہ زندہ ہوتو متبادل لوگ سامنے آتے رہتے ہیں اور یوں کبھی قحط الرجال پیدا نہیں ہوتا۔ جب یہ کام فطری کے بجائے مصنوعی طریقے سے ہونے لگے تو باصلاحیت لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ ملک چھوڑ جاتے ہیں یا پھر معاشرہ ان کے علم وہنر سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔
رویت ِہلال کمیٹی کی تشکیلِ نو سے موجود ہ حکمرانوں کی نفسیاتی کیفیت اور ذہنی سطح کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ مفتی صاحب کا متبادل کس اصول پر تلاش کیا گیا؟ حیرت یہ ہے کہ نئی کمیٹی میں مفتی فضل الرحیم شامل ہیں جو جامعہ اشرفیہ جیسے باوقار ادارے میں برسوں سے بخاری شریف پڑھا رہے ہیں۔ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی ہیں جو قدیم اور جدید علوم پر نظر رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر یٰسین ظفر ہیں جو دینی علوم کے ایک معروف ادارے کے مہتمم اور سنجیدہ عالم ہیں۔ ان پر کسی کی نظر کیوں نہیں پڑی؟
سوال یہ بھی ہے کہ اس تبدیلی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اگر تبدیلی لانا تھی تو اس بحث کے پس منظر میں لانی چاہیے تھی جس کا تعلق رویتِ ہلال کے باب میں‘ قدیم مذہبی اور جدید سائنسی نقطہ ہائے نظر کے اختلاف سے تھا۔ اور اگر مفتی صاحب کی شخصیت پسند نہیں تھی تو متبادل ایسا لانا چاہیے تھا جو ان کی طرح کم از کم قدیم علمی روایت میں رسوخ رکھتا ہو۔ آزاد صاحب کے والدِگرامی مولانا عبدالقادر آزاد بادشاہی مسجد کے خطیب تھے۔ ان کا انتقال ہوا تو عبدالخبیر صاحب کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی۔
میں اس سوال کو حکمرانوں کی نفسیاتی کیفیت اور ذہنی سطح کے تناظر میں دیکھ رہا ہوں۔ اس دور میں مختلف اداروں اور مناصب کے لیے‘ الا ماشااللہ‘ جن لوگوں کا انتخاب کیا گیا ہے‘ اور اپنی تائید کے لیے جو لوگ چُنے گئے ہیں‘ ان کو دیکھ کر اہلِ اقتدار کی ذہنی و نفسیاتی سطح کے بارے میں کوئی اچھی رائے پیدا نہیں ہوتی۔ اس کا جو نقصان ان کو پہنچے گا‘ وہ تو پہنچے گا‘ میری پریشانی اداروں کے بارے میں ہے جو اپنی ساکھ کھوتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ طرزِ عمل 2021 ء کے بارے میں خوش گمانی کو مدہم کر دیتا ہے۔