ہر پند‘ ہر نصیحت کا مخاطب سیاست دان ہی کیوں؟ علاج میں اختلافِ رائے ہو سکتا ہے لیکن اگر تشخیص ہی میں اختلاف ہو تو علاج سرے سے ممکن نہیں رہتا۔ اہلِ دانش کو معاملہ یہ ہے کہ تشخیص کی طرف کوئی دھیان نہیں۔ سارا زور مریض پر ہے۔ اس کو کوسا جا رہا ہے کہ احتیاط کیوں نہیں کرتا؟ گویا وائرس کا تو کوئی قصور نہیں‘ اصل مجرم مریض ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کورونا سے نمٹنے کیلئے سارا اصرار ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ رکھنے پر ہو۔ ویکسین یا علاج کو سرے سے موضوع ہی نہ بنایا جائے۔ کیا اس طرح کورونا ختم ہو سکتا ہے؟
اس طرح کورونا تو ختم نہیں ہو سکتا لیکن اس کا پورا اندیشہ ہے کہ انسان ختم ہو جائے۔ چیچک نے بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیں۔ اگر اس کی ویکسین نہ تلاش کی جاتی تو آج کرۂ ارض پہ انسان نام کی مخلوق نہ پائی جاتی۔ انسان نے پہلے یہ سمجھا کہ مرض کیا ہے اور پھر اس کا علاج دریافت کیا۔ جب تک علاج کی تلاش جاری تھی‘ احتیاط کی تلقین کی گئی۔ کورونا کے بارے میں آج عالمِ انسانیت کا اجماع ہے کہ یہ ایک وائرس ہے اور انسان کو اس سے محفوظ بنانے کے لیے ویکسین کی ضرورت ہے۔ اب ساری دنیا جُت گئی کہ یہ ویکسین بنائی جائے۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ ویکسین یا علاج پر سرمایہ اور وقت برباد کرنے کی ضرورت نہیں۔ ساری توانائیاں مریض پر صرف کی جائیں کہ اس کی حرکت محدود ہو جائے۔ گویا کورونا دندناتا پھرتا رہے اور انسان چار دیواری میں قید ہو جائے۔ کورونا کا یہ حق مان لیا جائے کہ یہ زمین اس کی آزادانہ نقل و حرکت کے لیے بنی ہے‘ انسانوں کے لیے نہیں۔
صحت مند معاشرہ کون سا ہے؟ وہی جس کی فضا کسی وائرس سے آلودہ نہ ہو۔ لوگوں کو ماسک پہننے کی ضرورت نہ پڑے۔ سماجی فاصلے نہ ہوں‘ اور اگر کوئی وائرس حملہ آور ہو تو سب مل جائیں اور اس کا اہتمام کریں کہ یہ وائرس انسانی بستیوں سے دور رہے۔ صحت مند معاشرے وہ نہیں ہوتے جو وائرس سے صرفِ نظر کریں اور مریض کو کوستے رہیں کہ وہ احتیاط کیوں نہیں کرتا۔ اسے بھی احتیاط کرنی چاہیے لیکن اس سے وائرس کے لیے کوئی جواز پیدا نہیں ہو جاتا کہ وہ انسانی بستیوں کو برباد کرتا پھرے۔
انسانی جسم کی طرح‘ انسانی سماج کے بھی معالج ہوتے ہیں۔ یہ سماج کی صحت کو موضوع بناتے ہیں۔ اس کے امراض کی نشاندہی کرتے ہیں اور پھر ان کے علاج تجویز کرتے ہیں۔ یہ علاج انسانی رویوں اور ان کے تجربات کو سامنے رکھ کر مرتب کیے جاتے ہیں جو صدیوں پر محیط ہوتے ہیں۔ انسانی جسم کی اور انسانی سماج کی کارگزاری میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔
ایک اجماع اس پر ہے کہ ایک سماج کس طرح کام کرتا ہے‘ اس کو کیا عوارض لاحق ہوتے ہیں اور اسے صحت مند بنانے کے لیے کیا کیا جانا چاہیے۔ علاج کے بارے میں سماج کے ماہرین میں اختلاف ہو جاتا ہے جیسے جسم کے ماہرین میں ہوتا ہے لیکن تشخیص میں یہ اختلاف کم وبیش ختم ہو گیا ہے۔ پہلے ہم اس اجماع کی بات کرتے ہیں۔
انسانی سماج کو جو بڑے عوارض درپیش ہوتے ہیں‘ ان میں ایک عدم استحکام ہے۔ ان ماہرین نے یہ جانا کہ جن معاشروں میں اقتدار تک رسائی کا کوئی پُرامن راستہ موجود نہیں ہے‘ ان میں ہمیشہ فساد برپا رہتا ہے۔ جہاں طاقت کے زور پر اقتدار کا استحقاق ثابت ہوتا ہے‘ وہاں ہمیشہ قتل و غارت گری رہتی ہے‘ لہٰذا اس کا علاج ہونا چاہیے کہ ایک معاشرے میں پُرامن انتقالِ اقتدار ممکن ہو سکے۔ اس تشخیص کے بعد اس کا علاج جمہوریت کی صورت میں تجویز کیا گیا۔ یہ حق تلوار کے بجائے عوام کو دے دیا گیا کہ وہ جسے پسند کریں اسے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیں اور جسے چاہیں‘ تخت سے اتار دیں۔ عوام اپنے اس حق کا اظہار اپنے ووٹ سے کرتے ہیں۔
اس تشخیص اور اس علاج پر آج اجماع وجود میں آ چکا۔ اس سے اختلاف کرنے والے وہی ہیں جو جسمانی عوارض کو بھی کسی پھونک یا پھکی سے دور کرنا چاہتے ہیں؛ چنانچہ دیکھیے کہ جن معاشروں میں جمہوریت ہے‘ وہاں استحکام ہے۔ جہاں جمہوریت نہیں ہے یا جمہوریت کے نام پر دھوکہ دیا جا رہا ہے‘ جیسے برصغیر کے کچھ ممالک میں تو وہاں نتیجہ وہی ہے جو جعلی دوائی دینے کا ہو سکتا ہے۔ گویا وہاں عدم استحکام کا سبب جمہوریت نہیں‘ جعلی جمہوریت ہے۔
دوسری بات جس پر سماج کے طبیبوں کا اجماع ہے‘ وہ اس کا نظام ہے۔ جس طرح انسانی جسم میں مختلف اعضا یا نظام‘ جیسے نظامِ تنفس یا نظامِ انہضام‘ مختلف کام کرتے ہیں‘ اسی طرح انسانی سماج میں بھی مختلف طرح کے نظام کام کرتے ہیں۔ انسانی جسم میں اگر گردے‘ پھیپھڑے اور دل سمیت تمام اعضا اپنا اپنا کام کرتے رہیں اور ایک صحت مند دماغ ان پر نظر رکھے تو انسانی جسم صحت مند رہتا ہے۔ اسی طرح اگر سماج کا سیاسی نظام‘ معاشی نظام اور دیگر شعبے اپنا اپنا کام کرتے رہیں اور ایک ادارہ ان کی نگرانی کرے تو سماج بھی صحت مند رہتا ہے۔
اگر جسم میں پھیپھڑے یہ ضد کرنے لگیں کہ وہ دل کا کام کریں گے۔ وہ جسم کو آکسیجن کی فراہمی کے ساتھ‘ خون کی گردش کو بھی کنٹرول کریں گے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ دل اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کر رہا تو وہ جسم پہلے شدید بیمار ہو گا اور پھر مر جائے گا۔ دل جتنا بیمار کیوں نہ ہو‘ اس کا کام پھیپھڑوں کو نہیں سونپا جا سکتا۔ اگر پھیپھڑے اپنے زور پر یہ کام اپنے ذمے لیں گے تو اس جسم کی موت یقینی ہو جائے گی۔
اگر کسی جسم میں دل اپنا کام درست طور پر نہیں کر رہا تو اچھا معالج اس کا علاج کرے گا۔ اس کو صحت مند بنانے کے لیے ادویات تجویز کرے گا۔ وہ کبھی یہ نہیں کرے گا کہ دل کی رگوں کو کاٹ کر پھیپھڑوں سے جوڑ دے کہ آج کے بعد یہ کام بھی تم ہی سنبھالو۔ انسانی سماج کا معالج بھی یہی کرتا ہے۔
انسان سماج میں کچھ لوگ ہیں جو سیاسی نظام کو چلاتے ہیں۔ کچھ اس کی حفاظت کا ذمہ لیتے ہیں۔ سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی نظام درست طور پر نہیں چل رہا تو اس کا علاج یہ ہے کہ اہلِ سیاست کی اصلاح کی جائے۔ اس کا علاج یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی اور کو سیاسی امور سونپ دیے جائیں۔ اس پر سماجی ماہرین کا اجماع ہے۔
آج پاکستان کے اہلِ دانش کو بتانا چاہیے کہ پاکستان کو بطور سماج اور ریاست کیا مرض لاحق ہے؟ یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اس باب میں عوام کی صحیح راہنمائی کریں۔ علاج اگلا مرحلہ ہے‘ تشخیص تو درست ہونی چاہیے۔ میرا تاثر ہے کہ آج کا دانشور یہ نہیں کر رہا‘ الاماشااللہ۔وہ صاف دیکھ رہا ہے کہ پھیپھڑوں نے بزور دل کا کام سنبھال رکھا ہے۔
دانشور اس کو نظر انداز کرتے ہوئے مریض کو کوس رہا ہے کہ وہ ماسک کیوں نہیں پہنتا۔ وہ احتیاط کیوں نہیں کرتا؟ گویا اس کا خیال ہے کہ اگر مریض ماسک پہن لے تو بچ جائے گا‘ باوجود اس کے کہ پھیپھڑوں نے دل کا کام سنبھال رکھا ہے۔ میری گزارش یہ ہے کہ مریض کو ماسک ضرور پہنائیں لیکن کم از کم تشخیص تو درست کریں۔ پھیپھڑوں کو بھی سمجھائیں کہ دل کا کام دل کو کرنے دیں۔ مرض کی تشخیص پہلا مرحلہ ہے۔ اس کا ادراک علاج کا پہلا زینہ ہے۔ افسوس کہ ہمارا معالج اس پر قدم رکھنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ صرف مریض کو کوستا ہے اور خوش ہے کہ اس نے اپنا فریضہ ادا کر دیا۔ آج دانشور کے ہر پند‘ ہر نصیحت کا مخاطب صرف مریض ہے۔
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!