جنوری 2013ء کی ایک سرد رات، جب ہزارہ قبیلے کی 86 لاشیں بے گوروکفن پڑیں تھیں تو عمران خان صاحب نے یہ سوال اٹھایا تھا۔ حکومتیں بدل گئیں اور سوال باقی ہے۔ آج بھی یہ مظلوم گیارہ لاشوں کے ساتھ اسی طرح، جنوری کی یخ بستہ راتوں میں بیٹھے ہیں، اس فرق کے ساتھ کہ خان صاحب وزیر اعظم ہیں۔ آج وزیراعظم مقتولین کے وارثوں کو بلیک میلر کہہ رہے ہیں۔ ہزارہ والوں کویقیناً جواب مل گیا ہوگا کہ ''ریاست کہاں ہے‘‘؟
ریاست کا جواز ہی یہ ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کرتی ہے۔ اسی ضرورت نے ریاست کو جنم دیا۔ انسان نے اپنی مرضی سے قانون کی حکمرانی کا قلابہ اپنے گردن میں ڈالا کہ اس کا حقِ زندگی محفوظ رہے۔ ریاست اگر یہ ذمہ داری پوری نہیں کرتی تو شہری کیلئے اس کا وجود گہنا جاتا ہے۔ اس کے بعد ریاست کا حقِ اطاعت بھی ماند پڑ جاتا ہے۔
ریاست کی اطاعت غیر مشروط نہیں ہوتی۔ یہ ایک معاہدے کی بنیاد پر وجود میں آتی ہے۔ معاہدے کی پابندی سب فریقوں پر لازم ہوتی ہے۔ ایک فریق اگر اسے توڑ دے تو یہ دوسروں کی صوابدید ہے کہ وہ معاہدے کوقائم رکھے یا توڑدے۔ عوام ریاست کے مقابلے میں کمزور ہوتے ہیں۔ وہ فریقِ ثانی سے معاہدے کی پابندی نہیں کرا سکتے۔ یوں انسان ریاست کے جبر کے خلاف بے بس ہو جاتا ہے یا اس کی لاتعلقی کو بادلِ نخواستہ قبول کرتا ہے۔
تاریخ یہ ہے کہ یہ صورتحال تادیرگوارا نہیں ہوتی۔ ریاست اگر لاتعلقی کو عادت بنالے تو پھر لوگوں میں اضطراب جنم لیتاہے۔ جمہوریت میں عوام حکومتوں کی تبدیلی سے اپنے غصے کا اظہارکر لیتے ہیں لیکن اگر حکومتوں کے رویوں میں یہ تسلسل برقرار رہے تو پھر ریاست ہدف بن جاتی ہے۔ پھر لوگ حکومتوں کی تبدیلی کو کافی نہیں سمجھتے۔ پھروہ براہ راست ریاست کو مخاطب بناتے ہیں۔ ریاست کو مخاطب بنانے کا مطلب ریاستی اداروں کو ہدف بنانا ہے۔
وزیراعظم کا منصب حکومت کی علامت ہے۔ ہزارہ والوں نے عمران خان صاحب کے ساتھ بوجوہ رعایت برتی ہے۔ اس سے پہلے ان کے مطالبے ریاست سے ہوتے تھے۔ اس بار حکومت سے ہیں۔ عمران خان نے لیکن اس موقع کو گنوا دیا۔ انہوں نے ہزارہ قبیلے کو یہی پیغام دیا کہ وہ حکومت سے کوئی تو قع نہ رکھیں۔ حکومت انہیں بلیک میلر سمجھتی ہے۔
خان صاحب ایک غیر اہم مطالبے کو تسلیم کرنے پر کیوں آمادہ نہ ہوئے؟ میں اس سوال کا کوئی جواب تلاش نہیں کر سکا۔ ایک مخصوص مقام پر سکیورٹی کی فراہمی کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو ریاست کے لیے لاینحل ہو۔ پھر یہ ریاست کی حاکمیت اور ساکھ کا بھی سوال ہے۔ کیا ریاست اپنی سرحدوں میں اپنے ہی وزیراعظم کو سکیورٹی فراہم نہیں کرسکتی؟ یہ بات میرے لیے تو قابلِ قبول نہیں ہے۔
پھر کیا اس کی وجہ روحانی ہے؟ کیا وزیراعظم کوکسی روحانی شخصیت نے منع کیا ہے کہ لاشوں کے قریب جانا ان کے لیے اچھا شگون نہیں ہے؟ کیا اس بات کو مان لیا جائے کہ ملک کا وزیراعظم توہمات پرست ہے؟ یہ ماننا بھی مشکل ہے کہ خان صاحب آخر آکسفورڈ کے ڈگری یافتہ ہیں۔ اس لیے یہ امکان بھی دل کو نہیں لگتا۔
تو کیا یہ انا کا ناقابلِ عبوردریا ہے، خان صاحب کو جس کاسامنا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کوئٹہ جانے سے ان کی انا کو کیسے ٹھیس پہنچے گی؟ کسی مظلوم کے سر پر ہاتھ رکھنے سے انا کیسے مجروح ہوتی ہے؟ کیا اس لیے نہیں جا رہے کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو نے یہی مطالبہ کیا ہے؟ کیا ملک کا وزیراعظم اس طرح ردِ عمل میں سوچتا ہے؟ وزیراعظم کا منصب تو اس سے بلند ہے۔ اس لیے انا کا مسئلہ بھی میری سمجھ میں نہیں آیا۔
اورپھر یہ بلیک ملینگ کیسے ہوگئی؟ اگر کوئی گروہ یہ کہتا ہے کہ وزیراعظم ہمارے دکھ میں شریک ہو تو کون سے قاعدے اور دستور سے یہ بلیک میلنگ ہے؟ ایسے اجتماعات میں جانا، عوام کو یہ احساس دلانا ہے کہ ریاست ظالموں کے نہیں، مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہے۔ ان کے جانے سے مرنے والے دوبارہ جی نہیں اٹھیں گے لیکن یہ ایک گروہ کو احساسِ تحفظ دینا ہے۔ یہ مطالبہ تو وزیراعظم کی عزت افزائی ہے۔ اسے بلیک میلنگ کیسے کہا جا سکتا ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ خان صاحب کے اس موقف کے حق میں کوئی سیاسی، اخلاقی یا منطقی دلیل موجود نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی سیاست کو نقصان پہنچایا ہے۔ اپنی اخلاقی حیثیت کے سامنے کھڑے سوالیہ نشانات میںاضافہ کیا ہے۔ کوئی ذی عقل اس کا دفاع نہیں کر سکتا۔ شبلی فراز صاحب یا شہبازگل صاحب کا معاملہ البتہ دوسرا ہے۔
ہزارہ والوں کا قتل میرے لیے وہ عقدہ ہے جو کبھی حل نہیں ہو سکا۔ بے شمار شواہد ہیں کہ انہیں بحیثیت گروہ نشانہ بنایاجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک مختصر سے گروہ کوکیوں تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکا جبکہ یہ معلوم ہے وہ بار بار ہدف بنتاہے؟ بلوچستان کے عمومی حالات سے ان واقعات کا کیا تعلق ہے؟ وہاں اس وقت کون برسرِ اقتدار ہے؟ کون کس کو جواب دہ ہے؟
ان سوالات کے جواب ہمارے پاس موجود نہیں۔ یہ کبھی واضح نہیں ہو سکا کہ بلوچستان میں لوگ کس سے فریادکریں اور کون ہے جو ان کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے؟ کوئی ریاست اپنے ایک حصے کو مسلسل ایک غیرواضح نظام کے حوالے نہیں کر سکتی ہے۔ بلوچستان دیگر صوبوں کی طرح کیوں نہیں ہے، جہاں ایک سیاسی نظام موجود ہے اور کمزور ہونے کے باوجود، لوگ اس کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔
قبائلی علاقہ جات کے بارے میں کم از کم قانونی طور پر تو واضح ہو گیا کہ ان کا حکمران کون ہے۔ وہ ایک صوبے کا حصہ ہیں اور شہریوں کو معلوم ہے کہ صوبے کا انتظام کیسے چلتا ہے۔ امید ہے کہ حقیقی حکمرانی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ بلوچستان میں تو ابھی پہلا مرحلہ ہی طے نہیں ہوا۔ ابہام در ابہام ہے۔ اس سے نکلنا اس وقت پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
ہزارہ والوں نے خان صاحب کو ایک موقع فراہم کیا تھا۔ اگر وہ سیاسی مزاج رکھتے تو اس سے فائدہ اٹھاتے۔ یہی نہیں وہ آگے بڑھ کر اسے قومی مسئلہ قراردیتے اوراس کے لیے ایک قومی مکالمے کے میزبان بنتے۔ ایک آل پارٹیز کانفرنس بلاتے اور لوگوں کودعوت دیتے کہ اسے مسلکی یا سیاسی مسئلہ بنانے کے بجائے، ایک قومی مسئلہ سمجھا جائے۔ اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دیتے کہ وہ آئیں اور اپنی تجاویز پیش کریں۔
ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی اس کا امکان ہے۔ یہ بات بار بار ثابت ہو چکی کہ عمران خان صاحب قوم کو مجتمع کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ یہ ایک لیڈر کی پہلی خوبی ہے کہ وہ لوگوں میں اتفاقِ رائے کے امکانات کو بڑھاتا اور اختلافِ رائے کو کم کرتا ہے۔ خان صاحب کی سیاست اس کے برعکس ہے۔ وہ نفرت اور ہیجان کو اپنی قوت سمجھتے ہیں۔
یہ ریاست کی ناکامی ہے یا حکومت کی؟ جب آٹھ سال پہلے خان صاحب نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ ریاست کہاں ہے تو یہ سوال خود جواب بھی تھا۔ یہ سوال آج بھی اپنی جگہ ہے۔ خان صاحب ہزارہ والوں کو حل دے رہے ہیں۔ گویا آج وہ اسے حکومت کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ عوام پریشان ہیں کہ اس حادثے کا ذمہ دار کسے قرار دیں۔ میں جب بلوچستان کے حالات پر نظر ڈالتا ہوں اور خود کو وہیں کھڑا دیکھتا ہوں جہاں خان صاحب آٹھ سال پہلے کھڑے تھے۔ ہزارہ والوں نے اپنا مخاطب آج کیوں تبدیل کر لیاہے؟ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں۔