جمہوریت کے لیے آج سب سے بڑا خطرہ کیا ہے؟
اس سوال کے جواب سے پہلے‘ تمہیداً یہ یاددہانی کرانی ہے کہ جمہوریت ان چند سیاسی تصورات میں سے ہے‘ جن پر عالمی سطح پر اجماع واقع ہو چکا۔ یہ مان لیا گیا ہے کہ انسانی سماج کو درپیش سب سے پیچیدہ سیاسی مسائل‘ حقِ اقتدار اور انتقالِ اقتدار‘ کا جمہوریت سے بہتر کوئی حل‘ آج تک تجویز نہیں کیا جا سکا؛ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ جمہوریت میں کوئی خرابی نہیں۔ یقیناً اسے بھی عوارض لاحق ہوتے ہیں اور لازم ہے کہ ان کے بارے میں متنبہ رہا جائے اور ان کا علاج کیا جاتا رہے۔
آج جمہوریت کو درپیش سب سے بڑا عارضہ 'پاپولزم‘ ہے۔ یہ جمہوریت کے نام پر کس طرح سماج کے امن کو برباد اور اسے فساد کے حوالے کر سکتا ہے‘ اس کا جدید ترین مظہر امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ ہے۔ بظاہر اس کردار نے اُسی جمہوری نظام کی کوکھ سے جنم لیا جو دنیا میں مثالی سمجھا جاتا ہے مگر محض چند سالوں میں اس نے امریکی سماج کو ایک ایسے خطرے سے دوچار کردیا‘ جس کے بارے میں سوچا نہیں جا سکتا تھا۔
پاپولزم نے جمہوریت کے ایک پہلو کے سوئے استعمال سے جنم لیا۔ یہ پہلو‘ عوامی تائید سے حقِ اقتدار کاحصول ہے۔ جمہوریت میں یہ حق اُسی کے لیے ثابت ہے جس پر عوام کی اکثریت اعتماد کرتی ہو۔ صدر ٹرمپ نے یہ اعتماد حاصل کرلیا۔ اس کے بعد وہ امریکہ کے آئینی صدر بن گئے۔ انہوں نے اس حقِ اقتدار کو اس طرح استعمال کیاکہ امریکہ کا سیاسی نظام انتشار کا شکار ہوگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مخصوص صدارتی طریقۂ انتخاب کے باعث‘ وہ دوسری بارصدر تو نہ بن سکے لیکن ان کی عوامی تائید میں پچھلے انتخابات کی نسبت اضافہ ہوا۔
ٹرمپ صدر کیسے بنے؟ انہوں نے شہریوں کے ایک بڑے طبقے کے تعصبات کو ابھارا۔ اس طبقے میں ہیجان پیدا کیا۔ درپیش مسائل کا سادہ اور عام فہم حل پیش کیا‘ قطع نظر اس کے کہ وہ قابلِ عمل ہے بھی یا نہیں۔ ایک خاص اسلوب میں انتخابی مہم چلائی کہ جذبات عقل پر غالب رہیں۔ کوئی اسکے تجویز کردہ حل کو عقل ودانش کی کسوٹی پر پرکھنے نہ پائے۔ جو ایسا کرے اسے کمال مہارت سے اس طبقے کا نمائندہ ثابت کر دیا جائے جسے مسائل کا سبب باور کرایا گیا ہے‘ اور اس طرح اس کی تنقید کو بے اثر بنا دیا جائے۔
اسی کا نام 'پاپولزم‘ ہے۔ ٹرمپ نے سفید چمڑی رکھنے والوں کے 'رنگی‘ تعصب کو ابھارا جو بحیثیت مجموعی زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے تھے۔ ان کا پیچھے رہ جانا‘ فطرت کے عام قاعدے کے مطابق تھا جس کے تحت جینے کا حق اسی کو حاصل ہوتا ہے جو خود کو اس کا اہل ثابت کرے۔ ٹرمپ نے اس طبقے کو بتایا کہ اس کی کمزوری کا سبب دوسرے طبقات ہیں جو ان کیلئے خاص وسائل اور امکانات پر باہر سے آ کر قابض ہو گئے ہیں۔ ٹرمپ نے ہیجانی فضا پیدا کرکے تعقل کے عمل کو مفلوج کردیا۔ اس کے لیے اس نے جدید ابلاغی ذرائع کو بہت مہارت کے ساتھ استعمال کیا۔ لوگوں کو یہ موقع ہی نہیں دیا کہ وہ جھوٹ اور سچ میں تمیز کر سکیں اور اس کے مقدمے کو عقل و تجربے کی کسوٹی پر پرکھ سکیں۔ اس نے خود کو اس طبقے کا مسیحا ثابت کردیا۔ یہ صاحب اس مہارت پر داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایسے وقت بھی اپنا حلقۂ اثر برقرار رکھا ہے جب ان کے مؤقف کی لغویت پوری طرح واضح ہو چکی۔
جمہوریت سے پاپولزم کیسے جنم لیتا ہے‘ میں نے اس سوال کا جواب دے دیا۔ اس باب میں ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ یہ کیوں جنم لیتا ہے؟ اس کا جواب تاریخ کے پاس ہے اور ہم اس کی تفہیم کے لیے ٹرمپ صاحب ہی کی مثال سامنے رکھتے ہیں۔ انسان کے فکری اور تہذیبی ارتقا کا ایک اہم پڑاؤ وہ ہے جسے جدیدیت (Modernity) کہا جاتا ہے۔ اس دور میں انسانی سماج نے ایک نئے فکری نظام کی طرف پیش قدمی کی‘ جس کے نتیجے میں سماجی و سیاسی اداروں کی تنظیمِ نو ہوئی۔
نئے سیاسی تصورات میں ایک تصور‘ قومیت (Nationalism) کا بھی تھا۔ یہ تاریخی اعتبار سے سلطنتوں کے خاتمے کا دور تھا۔ ان کی جگہ قومی ریاستوں نے لی‘ جن کیلئے نیشنلزم نے قوتِ اتحاد (Binding force) کا کردار ادا کیا۔ قومی ریاستوں میں جمہوریت کو نظمِ حکومت کی اساس مان لیا گیا۔ گویا ریاست ایک قوم کے تصور پر کھڑی تھی اور حکومت جمہوریت کے تصور پر۔ ریاست کی مضبوطی اور استحکام کیلئے لازم تھاکہ متحد رکھنے والی قوت کو محفوظ بنایا جائے اور وہ تصورِ قومیت ہی ہو سکتا تھا۔ یہ تصور رنگ‘ نسل یا کسی ایسی شناخت سے جنم لیتا ہے جسے سیاسی اجتماعیت کیلئے بنیاد مان لیا جائے۔ زیادہ تر رنگ و نسل ہی قومیت کی اساس بنے۔ یوں جو لوگ ابتدائی طور پر بطور گروہ ایک قومی ریاست کے مکین تھے‘ ان میں احساسِ ملکیت بھی پیدا ہوا اور انہوں نے خود کو ریاست کا حقیقی وارث سمجھا۔ قومی ریاست کا یہ تصور ارتقائی مراحل سے گزرا اور اس کا سبب حالات کی تبدیلی تھی۔
اس کے ساتھ‘ ہجرت اور نقلِ مکانی بھی ہورہی تھی۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو صدیوں سے جاری ہے۔ بہتر وسائلِ زندگی کی تلاش میں انسان سفر کرتا ہے اور فطری طور پر اس کا رخ ان مقامات کی طرف ہوتا ہے جہاں یہ اسباب وافر ہوں۔ اسی فطری ضرورت کے تحت‘ بیسویں صدی میں ترقی پذیر دنیا سے ترقی یافتہ دنیا کی طرف نقلِ مکانی کا سلسلہ جاری رہا۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہ دوطرفہ ضرورت ہے۔
اپنی ترقی کی رفتار کو مہمیز دینے کے لیے ترقی یافتہ اقوام کو باصلاحیت افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ مہاجرین میں بہت سے لوگوں نے ثابت کیا کہ وہ مقامی لوگوں سے زیادہ باصلاحیت ہیں۔ ریاست نے ان کا خیرمقدم کیا۔ اس دوران میں امیگریشن کے قوانین بھی تبدیلی سے گزرتے گئے اور ان ریاستوں نے باہر سے نے والوں کے لیے ریاست کا شہری بننے کا راستہ کھول دیا۔ جب یہ شہری بن گئے تو ان کے حقوق ان مقامی لوگوں کے مساوی ہوگئے جو آبائی طور پر ان ریاستوں کے شہری تھے۔مقامی لوگوں کے پاس اب دو راستے تھے: ایک یہ کہ وہ خود کوصلاحیت اور محنت میں غیر مقامی لوگوں سے بہترثابت کریں یاپھر میرٹ پران کی برتری کو قبول کرلیں‘ ریاست جسے بطور اصول قبول کرتی ہے۔ مقامی اکثریت دونوں کام نہیںکر سکی اور احساسِ محرومی کے تحت‘ باہر سے آنے والوں کو اپنے حقوق کا غاصب سمجھنے لگی۔ امریکہ میں ٹرمپ نے اسی کمزوری کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
ٹرمپ نے اِس محرومی کو ابھارا اور مقامی اکثریت کے جذبات کی ترجمانی کو اپنی سیاست کی بنیاد بنا لیا۔ جمہوریت میں اسے اپنی بات کہنے کی اجازت تھی۔ اس نے اس کا فائدہ اٹھایا اور اکثریت کی سادہ لوحی کو اقتدار کیلئے سیڑھی کے طورپر استعمال کیا اور صدر بن گیا۔ اُس نے رنگ ونسل پر مبنی نیشنلزم کے اُس قدیم تصور کو زندہ کیا جو بیسویں صدی میں قومی ریاست کی اساس بناتھا۔ دوسرے لفظوں میں وہی تکنیک جدید انداز میں اپنائی جو بیسویں صدی میں ہٹلر اور مسولینی نے جرمنی اور اٹلی میں استعمال کی تھی۔
اسی عرصے میں‘ یورپ کے بعض ممالک اورپاک وہند میں بھی جمہوریت اسی پاپولزم کی زد میں آگئی۔ یورپ میں لوگ جلد ہی اس کے مفاسد سے آگاہ ہوگئے۔ امریکہ میں ہورہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں بھی آگاہی بڑھ رہی ہے مگراس کی رفتار سست ہے‘ اگرچہ لوگ اس کے اثرات بچشمِ سردیکھ رہے ہیں۔ ہمارے تجزیہ کار امریکی سیاست کودرپیش مرض کی تشخیص کر رہے ہیں مگراپنے قومی وجود کے امراض سے بے خبر ہیں۔
ہمیں اپنی جمہوریت کو لاحق اس عارضے کا علاج کرنا ہے اور علاج وہی ہے جو پہلے سے موجود ہے۔ عوام کی آگہی میں اضافہ‘ جمہوریت کے حقیقی تصور سے وابستگی اور آئین کا احترام بنیادی 'ادویات‘ ہیں۔