اچھا کام اگر نیک ارادے سے نہ ہو تو اس کا خیر بھی شر میں ڈھل جاتا ہے۔مذہبی تعلیم کا نظام اصلاح طلب ہے۔یہ طلب بہت پرانی ہے۔مولانا حسین احمد مدنی نے اسے موضوع بنایا۔مولانا مناظر احسن گیلانی نے 1941ء میں اس پر قلم اٹھایا اورنہایت قابلِ عمل تجویز پیش کی۔اس کو آج تک پذیرائی نہ مل سکی۔نہ مذہبی حلقوں کی طرف سے نہ ریاست کی طرف سے۔دونوں نے مذہبی تعلیم کے نظام کو اپنے اپنے مفاد کی نظرسے دیکھا۔یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اس کا تازہ ترین مظہرموجودہ حکومت کا نیا فیصلہ ہے۔
اس فیصلے کے تحت‘ مدارس کے تعلیمی بورڈز کی تعدادپانچ سے بڑھا کر دس کر دی گئی ہے۔ایک پہلوسے یہ صحیح فیصلہ ہے۔اس سے وہ اجارہ داریاں ٹوٹیں گی جو برسوں سے قائم ہیں۔اہلِ صحافت‘ اہلِ سیاست اور دیگر سماجی گروہوں کی طرح‘ اہلِ مذہب کےinterest groups وجود میں آ چکے۔یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ مدرسہ بورڈزکے عہدوں کے لیے جھگڑے ہوتے ہیں‘جیسے سیاسی جماعتوں اورسماجی تنظیموں میں ہو تا ہے۔
ان بورڈز کے پاس بے پناہ وسائل ہیں‘یہ الگ بات کہ یہ وسائل مدرسے کے عام مدرس اور طالب علم تک منتقل نہیں ہوتے۔مدرسے کے استاذ کا مشاہرہ‘آج بھی چند ہزار روپے ہے۔اس تنخواہ میں ممکن نہیں کہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رہ سکے۔ اس کے برخلاف مدارس بورڈز کے عہدیداران کو ہم دیکھتے ہیں کہ آسودگی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ا ن کا معیارِ زندگی وہی ہے جو سیاسی و صحافتی اشرافیہ کا ہے بلکہ بہت سوں سے بہتر۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ایک دفعہ عہدے دار بن جائے‘ پھر چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا۔
ان اجارہ داریوں کا ٹوٹنا مذہبی تعلیم کے مفاد میں ہے۔لازم ہے کہ یہ وسائل استاذ اور طالب علم تک پہنچیں۔مدارس کی عمارتوں پر کروڑوں صرف ہو رہے ہیں مگر اُس طالب علم تک اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں پہنچتا‘ جس کے نام پر یہ وسائل جمع ہوتے ہیں۔اس نظام کی اصلاح کی طرف پہلا قدم اجارہ داریوں کا خاتمہ ہے۔ریاست کا المیہ مگریہ ہے کہ وہ ان اجارہ داریوں کو مذہبی تعلیم کے مفاد میں نہیں‘ اپنے مفاد میں توڑنا چاہتی ہے۔ وہ یہ کام‘ ایک آزمودہ نسخے کے مطابق‘ نئی اجارہ داریاں قائم کر کے کرنا چاہتی ہے۔ایک سیاسی جماعت کو کمزور کرنا ہو تو اس کے ایک حصے کو کاٹ کر نئی سیاسی جماعت کھڑی کردی جاتی ہے۔نون لیگ سے قاف لیگ کو برآمد کیا جاتا ہے۔ صحافیوں کی ایک تنظیم کے مقابلے میں دوسری تنظیم بنوا دی جاتی ہے۔یہی نسخہ اب مدارس پر بھی آزمایاجا رہا ہے۔
اس فیصلے کا وقت بتا رہا ہے کہ مقصود مولانا فضل الرحمن کی قوت کوتوڑناہے۔خیال یہ ہے کہ مولانا کی اصل قوت مدارس ہیں۔ان کے طالب علم ہیں جو ان کے جلسوں کی رونق بڑھاتے ہیں۔ان طلبا کے مذہبی جذبات ہیں جنہیں وہ جب چاہیں‘ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔مولانا کو کمزور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مدرسے اورمولاناکے تعلق کو کمزور کر دیا جائے۔
پہلے مرحلے میں یہ کام کے پی میں کیا گیا۔مولانا سمیع الحق کی خدمات مستعار لی گئیں کہ مولانا فضل الرحمن سے مفاداتی تصادم رکھتے تھے۔ صوبے میں مساجد کے آئمہ کے لیے تنخواہیں مقرر کی گئیں‘یہ الگ بات ہے کہ اس پر کم ہی عمل ہو سکا۔اصلاحِ مدرسہ کے نام پر کروڑوں روپے دیے گئے۔مقصود لوگوں کی وفاداریاں خریدناتھا کہ مولانا فضل الرحمن کا ساتھ نہ دیں ۔ یہ مہم نتیجہ خیز نہ ہوسکی۔اب اس کا دوسرا مرحلہ ہے۔بظاہر پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کو ناکام بنانا پیشِ نظر ہے ۔برسرِ اقتدار گروہ جانتا ہے کہ اس میں اگر مذہبی جذبہ شامل ہو گیاتو یہ تحریک آتش فشاں بن سکتی ہے۔اس سیاسی تحریک میں مذہبی رنگ شامل کر نے کی صلاحیت صرف جمعیت علمائے اسلام میں ہے جو مولانا فضل الرحمن کے الفاظ میں‘ان مدارس کی چوکیدار ہے۔ اس کی پیش بندی یوں کی جا رہی ہے کہ مدارس کی قیادت کو تقسیم کردیاجائے۔یوں ایک اچھا کام ایک ایسے ارادے سے کیا جا رہا ہے جو مذموم ہے۔اجارہ داریوں کے ساتھ‘مذہبی تعلیم کا اصل المیہ ‘اس کا مسلکی بنیادوں پر منظم ہوناہے۔اس کو آج تک موضوع نہیں بنایا گیا۔اب جو نئے بورڈزبنائے گئے ہیں ‘وہ بھی اسی مسلکی بنیاد پر۔پانچ نئے بورڈزمیں‘دو بریلوی‘ایک دیوبندی‘ایک شیعہ اور ایک اہلِ حدیث ہے۔اس سے مذہبی تعلیم بدستور مسلکی رہے گی‘ البتہ مفاداتی گروہوںکی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔اب مسلکی عصبیت کیسے ختم ہو سکتی ہے اگر مذہبی تعلیم ہی مسلکی ہو؟
مدرسہ ریفارمز کے ضمن میں‘ہماری تاریخ میں ایک ہی اہم قدم جنرل پرویز مشرف کے دور میں اٹھایا گیا جب ڈاکٹر محمود احمد غازی مذہبی امور کے وزیر تھے۔یہ ماڈل دینی مدارس اور مدرسہ بورڈ کا تصور تھا۔تین ماڈل مدارس او ر یہ بورڈ قائم ہوئے۔ یہ تجربہ ناکام رہا۔اس کی وجہ ریاستی کمزوری ہے۔ ریاست نے ان مذہبی گروہوں کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ وہ ان کے بالمقابل کھڑا ہونے کی سکت نہیں رکھتی۔معلوم نہیں کہ یہ ماڈل مدرسے اب بھی موجودہیں یا نہیں۔مدرسہ بورڈ کومذہبی گروہوں نے پرِ کاہ کے برابر اہمیت نہیں دی ۔ریاست اس معاملے میں اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام رہی۔اس بار زیادہ ہوشیاری سے کام لیا گیا ہے۔حکومت کا خیال ہے کہ نئے بورڈ بنانے سے مذہبی طبقات کا کم ازکم وہ حصہ ان کا ہم نواہوجا ئے گا جس کو اس اقدام سے فائدہ پہنچے گا۔دیگر مسالک کی حد تک تو شاید یہ مفروضہ درست ہو مگردیوبندیوں کے حوالے سے ‘گمان یہی ہے کہ حکومتی ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا۔ مولانا فضل الرحمن کو کمزور کرنے کا جو مقصد ‘حکومت اس وقت حاصل کرنا چاہتی ہے‘اس میں کامیابی کا امکان کم ہے۔اس کی وجہ ظاہرو باہر ہے۔اہلِ دیوبند کی سیاسی قیادت مولانافضل الرحمن کے ہاتھ میں ہے اور انہیں کوئی قابلِ ذکر چیلنج درپیش نہیں۔ جو کام مولانا سمیع الحق نہیں کر سکے‘ وہ ہماشما کے بس کانہیں۔ بہت کم امکان ہے کہ کوئی مدرسہ' وفاق المدارس‘ سے الگ ہو۔ اگر کوئی نیا مدرسہ نئے بورڈ کے ساتھ منسلک ہوگاتو سرِ دست غیر اہم ہوگا۔حکومتی کوشش ہوگی کہ اسے وفاق المدارس کے مقابلے میں لا کھڑا کیا جائے مگراس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔
جب تک 'وفاق المدارس ‘کومولانا فضل الرحمن کی سرپرستی میسر ہے‘ شاید ہی کوئی اس سے الگ ہو۔میرا خیال یہ ہے کہ اکوڑہ خٹک کا مدرسہ بھی یہ قدم نہیں اٹھائے گا۔ ریاست کو مولانا کی مسلکی گرفت کا اندازہ نہیں۔ اہلِ دیوبند کی تاریخ سے نا آشنا اس راز کوکبھی نہیں جان سکتا ۔ہمارے پالیسی ساز نہیں سمجھ سکتے کہ مولانا فضل الرحمن اس وقت ایک ایسی روایت کے امین ہیں جو1857ء کے بعد سب سے زیادہ سخت جان واقع ہوئی ہے۔اس روایت میں ایک وحدت ہے جو اس مسلک کی سیاست اور مدرسے کو یک جارکھتی ہے۔
میں نے یہ تبصرہ مذہبی تعلیم کے نظام کو امرِواقعہ مان کر کیا ہے۔اس باب میں مَیں مولانا مناظر احسن گیلانی کے موقف کو درست سمجھتا ہوں جوابتدائی سطح پر مذہبی تعلیم کے لیے کسی علیحدہ ادارے کو درست نہیں سمجھتے اور یکساں نصابِ تعلیم کے قائل ہیں۔وہ اسے تخصص کے درجے میں روا رکھتے ہیں۔اس وقت صرف یہ بیان کرنا ہے کہ آج اگر ریاست یا حکومت یہ چاہے کہ وہ اس نظام میں کوئی تبدیلی لائے تواس کی ناکامی نوشتۂ دیوار ہے۔نئے بورڈز کے قیام سے ریاست کو وہ کچھ حاصل ہونے والا نہیں‘جس کی وہ توقع لگائے بیٹھی ہے۔ارادہ اچھا نہ ہوتو درست فیصلہ بھی اچھے نتائج نہیں دے سکتا۔