ملبوسات کی شعبے میں مولانا طارق جمیل سے منسوب ایک برانڈ متعارف کرا یا گیا ہے۔مولانا نے بزبان خوداس کا محرک بتایا ہے کہ اس کاروبار سے ہونے والی یافت کو مدارس کی تعمیروترقی کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ مقصود دینی مدارس کو معاشی خود کفالت کی راہ پر ڈالنا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ دینی طبقات کو باوقار بنانے کیلئے ضروری ہے کہ مدارس عوامی عطیات اور زکوٰۃ و صدقات سے بے نیاز ہو جائیں۔ مولانا طارق جمیل کے زیرِ اہتمام اس وقت بھی کئی مدارس قائم ہیں۔
مولانا کے اس اقدام نے معاشرے میں ایک نئی بحث اٹھا دی ہے۔ یہ بحث کئی سوالات کے گرد گھوم رہی ہے؟ کیا دین کے نام پر حاصل ہونے والی وجاہت کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنا جائز ہے؟ کیا یہ اسی طرز کا کوئی منصوبہ ہے جو مرحوم جنید جمشید نے شروع کیا تھا؟ کیا دعوت اور دین سے متعلق افراد کو کاروبارِ دنیا سے دور رہنا چاہیے؟ کیا دینی مدارس کو معاشرے پر اپنے انحصار کو ختم کر دینا چاہیے؟ یہ کالم انہی سوالات کے جواب تلاش کرنے کی ایک کوشش ہے۔
یہ تو واضح ہے کہ مولانا طارق جمیل تبلیغی جماعت کے نظام تک محدود نہیں ہیں۔ چند سالوں سے وہ جو کچھ کر رہے ہیں، یہ ان کا اپنا اجتہاد ہے جس کا بظاہر جماعت سے تعلق نہیں۔ اس لیے لازم ہے کہ مولانا کی سرگرمیوں کو تبلیغی جماعت سے الگ کرکے دیکھا جائے۔ بطور جماعت، تبلیغی جماعت کی حکمتِ عملی میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی اور وہ مولانا کے کسی اقدام کے لیے جواب دہ بھی نہیں ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ اب مولانا کے پیشِ نظر اپنا ایک لائحہ عمل ہے۔ اسے وہ دھیرے دھیرے سامنے لا رہے ہیں۔ اس کے کئی زاویے ہیں جن کا اظہار ان کے طرزِ عمل سے ہورہا ہے۔ اس میں دعوت ہے، سیاست ہے، کاروبار ہے، مدارس اور مذہبی تعلیم کی تنظیمِ نو ہے۔ مولانا کے زیرِ اہتمام کام کرنے والے مدارس 'وفاق المدارس‘ کا حصہ نہیں ہیں۔ ان کا نصاب اپنا ہے اور تعلیم کا نظام بھی۔ گویا مدارس کے باب میں ان کی انفرادیت پہلے سے قائم ہے۔ مولانا اپنی وجاہت کو اب ان سب دائروں میں بروئے کار لانا چاہتے ہیں۔
گزشتہ چند سالوں میں مولانا طارق جمیل نے اپنا ربط ضبط بڑھایا ہے۔ خود کو ریاستی مقاصد سے ہم آہنگ بنایا ہے اور ان مقاصد کے حصول میں ریاست کے ساتھ شریک ہوئے ہیں۔ بایں ہمہ صاحبانِ وسائل کے ساتھ تعلقات کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل رکھا ہے اور اس بات کی شعوری کوشش کی ہے کہ ان وسائل کے مصرف کو ایک رخ دیں۔ مولانا کی حکمتِ عملی میں ذرائع ابلا غ اورتعلقات عامہ کو بھی خاص مقام حاصل ہے۔ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ میڈیا میں کس کس سے ذاتی رابطہ رکھنا چاہیے اور کون رائے سازی میں کتنا مؤثر ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت کو بنیاد بنا کر، وہ سیاسی اور سماجی سطح پر ایک موثر کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے نئے پروجیکٹ کو میں اسی تناظر میں دیکھ رہا ہوں۔ اس پروجیکٹ کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے، میرا خیال ہے کہ یہ تناظر سامنے رہنا ضروری ہے۔ ان کے ہر منصوبے اور اقدام کو ایک بڑی تصویر کے ایک جزو کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ اسی سے ان کے کام کی تفہیم ممکن ہوگی۔
جہاں تک کاروبار کا اخلاقی پہلو ہے تواس حوالے سے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ ہر عالم اور عامی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کاروبار کرے۔ دین، ایک عالم سے کاروبار میں وہی مطالبہ کرتا ہے جو ایک عامی سے کرتا ہے اور وہ دیانت ہے۔ پھر اگر یہ کاروبار ایک دینی مقصد کے لیے کیا جا رہا ہے تو یہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن ہو جاتا ہے۔ ہم تعلیم میں اور اصلاح کے باب میں ان کی رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں‘ لیکن اس اقدام کو غلط نہیں کہہ سکتے۔
میرے نزدیک یہ سماج کی دینی تشکیل کا ایک نیا ماڈل ہے۔ یہ پہلے سے موجود ماڈلز سے مختلف ہے۔ اس وقت ہمارے ہاں تین طرح کے ماڈل موجود ہیں۔ ایک جماعت اسلامی کا ماڈل ہے جس کے مقاصد میں تجدیدِ دین، سماجی اصلاح، مصلحین کی تنظیم اور سیاسی تبدیلی شامل ہیں۔ اس میں اصل اہمیت سیاسی تبدیلی کو حاصل ہے جواس ماڈل کے تحت دیگر تبدیلیوں کیلئے بمنزلِ اساس ہے۔ تصورِ دین کے باب میں جوہری اختلاف کے ساتھ، طاہرالقادری صاحب نے بھی اسی ماڈل کو اپنایا۔
ایک ماڈل تبلیغی جماعت کا ہے۔ اس میں فرد تمام دعوتی مساعی کا مرکز ہے۔ دعوت اوّل و آخر فرد سے متعلق ہے۔اس میں خاص اور عامی ایک درجے میں دعوت کا مخاطب ہیں۔ سیاسی تبدیلی اس دعوت کا حصہ نہیں۔ اس لیے تبلیغی جماعت کے تصورِ دین میں اجتماعیت بالواسطہ شامل ہے، دعوت کا براہ راست حصہ نہیں۔ اس کی دعوت کے تمام بنیادی نکات ایک فرد کو مخاطب بناتے ہیں۔
تیسرا ماڈل جمعیت علمائے اسلام کا ہے۔ یہ اصلاً وہی ہے جو جمعیت علمائے ہند نے تقسیم سے پہلے اپنایا تھا۔ اس کا محورو مرکز سیاست ہے جو علما کے ہاتھ میں ہو۔ دینی مدارس وہ نرسریاں ہیں جہاں سے اُسے دست وبازو میسر آتے ہیں۔ یوں مدارس کا تحفظ بالواسطہ طورپر اس کے مقاصد میں شامل ہے۔ چونکہ یہ جماعت حصولِ اقتدار کی کشمکش میں فریق ہے، اس لیے لازم ہے کہ ان سیاسی و غیرسیاسی قوتوں کے ساتھ حالتِ جنگ میں رہے جواقتدار پر قابض ہیں یا اس کی جدوجہد کر رہی ہیں۔
مولانا طارق جمیل کا ماڈل ان سب تجربات سے مستعار مگر مختلف ہے۔ یہ اقتدار کے مراکز پر قابض قوتوں کے اشتراک سے عبارت ہے۔ یوں براہ راست اقتدار کا حصول اس کے مقاصد میں شامل نہیں۔ یہ دراصل مقتدر طاقتوں کو دینی بنیاد پر سماجی حمایت فراہم کرنا ہے۔ اس سے سیاسی مراکز پر متصرف قوتوں کو یہ فائدہ ہوگا کہ انہیںسماجی سطح پر دیندار طبقے کی حمایت میسر رہے گی اور مولانا کو یہ فائدہ ہوگا کہ ریاست دین کے اس تصور کی سرپرست بن جائے گی جو مولانا پیش کررہے ہیں۔ ان کی حیثیت شیخ الاسلام کی سی ہوگی۔یہ تصور مقتدر طبقوں کوبھی سازگار رہا ہے۔ اس میں نہ عوام کے حقِ اقتدار کا ذکر ہے نہ یہ اقتدار پر فائز قوتوں کو چیلنج کرتا ہے۔ اس میں صاحبانِ اقتدار زمین پر خدا کا سایہ ہوتے ہیں‘ اور اگر وہ سماجی سطح پر دینی مدارس اور سرگرمیوں کی پشت پناہی کررہے ہوں تو پھر ان کے خلاف اٹھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ یہ ماڈل دراصل سماج کو ان طبقات کا متبادل فراہم کردے گا جو جمہوریت کی بات کرتے ہیں اور اس تصورکو دین سے متصادم نہیں سمجھتے۔
میں دینی تحریکوں اور شخصیات کا طالب علم ہوں۔ اپنی افتادِ طبع کے پیشِ نظر، میں واقعات کو جزئیات کے بجائے کل میں دیکھنے کا عادی ہوں۔ مولانا طارق جمیل کے اس نئے پراجیکٹ کو بھی میں نے ان کی گزشتہ چند سالہ سرگرمیوں کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے میرے نزدیک کاروبار کے تناظر میں اٹھنے والے سوالات ایسے نہیں جنہیں تجارت کے جواز اور عدم جواز تک محدود رکھا جائے۔یہ ماڈل کیا کامیاب ہوسکتا ہے؟ اس سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ کوئی درست ماڈل ہے؟ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر وجود میں آیا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو ایک تجربہ اور سہی!