اس خطے کی مسلم تہذیب کیا تھی؟ خدا مجھے نفسِ جبریل دے تو کہوں۔
اشرافیہ اورسفید پوش توایک طرف، طوائفوں اور گھریلو خادماؤں کی زبان سنیں تو سبحان اللہ کہہ اٹھیں۔ حافظ و بیدل گھر کے خدام کو بھی ازبرتھے۔ اس کی جھلکیاں اس ادب میں دیکھی جا سکتی ہیں جو بیسویں صدی کی چھ دہائیوں تک تخلیق ہوتا رہا۔ دورِ جدید میں شمس الرحمٰن فاروقی نے اس تہذیب کو زندہ کیا۔ ''کئی چاند تھے سرِآسماں‘‘ پڑھیے تو پڑھتے چلے جائیے۔ نواب صاحب جسم کی طلب میں بے چین ہیں‘ دوسری طرف بھی خود سپردگی ہے مگر دونوں طرف اظہار ایسا کہ پڑھنے والا منظر کو بھول کر مکالمے میں کھو جائے۔
سیاست میں بھی اسی تہذیب کا ظہور ہوا۔ سر سید احمد خان، مولانا محمود حسن، ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال، بہادر یار جنگ، کس کس کا نام لکھوں کہ ان میں سے کئی ادب کے ستون ہیں۔ معاملہ ایک دوسری قوم سے تھا۔ مفادات کا غیرمعمولی تصادم۔ اختلاف تھا اور شدید۔ اظہارکا لیکن کوئی پیرایہ ایسا نہ تھاکہ سوقیانہ ہو یا مبتذل۔ مظہرعلی اظہر نے قائد اعظم کے بارے میں ایک جملہ کہہ دیا۔ سزا یہ ملی کہ سیاست میں 'ابتر‘ ہوگئے۔ انہوں نے بھی نام لینا کبھی پسند نہ کیا جن کے ہمرکاب تھے۔
یہ روایت کب برباد ہوئی؟ کون تھا جس نے شرم و حیا کے پردے اس طرح چاک کیے کہ برہنگی ملبوس بن گئی۔ ایسی بنی کہ سیاست لباس کی ضرورت سے بے نیاز ہوگئی۔ یہاں تک کہ اب دریدہ دہنی کا مقابلہ ہوتا ہے۔ جس کی زبان جتنی لمبی ہے، وہ رہنماؤں کا اتنا ہی چہیتا ہے۔ یوں ہر کوئی بڑھ بڑھ کر اس فن میں اپنے کمالات دکھاتا ہے کہ لیڈر کی چشمِ التفات اس پر پڑے۔
پاکستان بنا تو ہمارے ابتدائی ماہ وسال کی سیاست پر قبل از تقسیم کا رنگ غالب تھا۔ سیاست کی باگ ان کے ہاتھوں میں تھی جنہوں نے قائداعظم، علامہ اقبال اور ابوالکلام کے آغوشِ تربیت اور رفاقت میں سیاست سیکھی۔ پچھلی صفوں میں بیٹھنے والے بھی ممتاز تھے۔ ممتاز دولتانہ ہی کو دیکھ لیجیے! ایسی انگریزی لکھتے کہ لوگ رشک کرتے۔ مولانا مودودی تو تھے ہی ابوالکلام کی صدائے بازگشت۔ زبان وبیان میں بھی، افکار میں بھی۔
آٹھ نو سال حکومت وسیاست کی قیادت ان لوگوں کے ہاتھ میں رہی، یہاں تک کہ اقتدار کو مخصوص حصار میں لے لیاگیا۔ 1958ء سے ہماری سیاسی تاریخ کے دوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ جبر کا موسم ہے۔ مولانا مودودی، نواب زادہ نصراللہ خان اور خان عبدالغفار خان جیسے لوگ سیاست میں تھے مگر ان کی شائستگی اس جبر کے خلاف جنم لینے والے غم و غصے کو زبان نہ دے سکی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عوامی مذاق اب پست ہوگیا تھا۔ اس کی تربیت کا کوئی اہتمام ہم سے نہ ہوپایا۔
پھر بیسویں صدی انقلابی تحریکوں کا دورہے۔ اشترکیت سب سے نمایاں تھی۔ تشدد انقلاب کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ تشدد انتہا پسندی کا آخری مظہر ہے۔ فکری انتہا پسندی نے ہمارے سماج کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ جبر کے مقابلے کیلئے انقلابی تحریکوں سے بہتر اظہاریے کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ اقبال جیسا فرزانہ بھی اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلانے کی بات کرتاہے جس سے دہقاں کوروٹی میسر نہ ہو۔ پچاس کی دہائی میں اس انقلاب کی صدا خاصی بلند ہوچکی تھی۔ کہا جانے لگاکہ زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں اور زندانوں کی اب خیر نہیں۔ مذہب کے نام پر اٹھنے والی تحریکیں بھی انقلابی تھیں۔ ایک طرف سرخ انقلاب کی اطلاع دی جارہی تھی اور دوسری طرف سبز انقلاب کی نوید۔ سیاست جبر کاشکار ہوجائے تو اُسے انقلابی آوازیں ہی سازگار آتی ہیں۔ اس انقلابی فضا نے ذوالفقار علی بھٹو کو جنم دیا۔
بھٹو صاحب ایک پرچم اٹھائے ہوئے تھے جس پر لکھاتھا 'سوشلزم ہماری سیاست ہے‘۔ دوسری طرف سے بتایا گیا کہ 'سوشلزم کفر ہے‘۔ ایک انقلاب دوسرے انقلاب کے درپے تھا۔ گویا ایک انتہا پسندی دوسری کے مقابل تھی۔ معاشرہ انتہا پسندی کے نرغے میں تھا۔ بھٹو صاحب نے جارحانہ سیاست کی اور اگر سماج کے طاقتوروں کو للکارا تو ساتھ ہی ان کو بھی جو ان کے مخالف تھے‘ زبان کے ساتھ ہاتھ بھی استعمال کیا جب انہیں اقتدار ملا۔ انہوں نے زبانِ قال سے مخالفین کا مذاق اڑانا شروع کیا‘ ان کے نام رکھے۔ لیڈر کی زبان عامۃ الناس کی زبان بن گئی۔ دوسری طرف سے بھی تشددکا راستہ اپنایا گیا۔ زبان اور ہاتھ کھل گئے۔ یہاں تک کہ تعلیمی ادارے بھی ان کی گرفت میں چلے گئے۔ بھٹوصاحب اوران کے مخالفین نے ایک نئے سیاسی کلچر کو فروغ دیا۔ مذہبی لوگوں نے ہاتھ زیادہ اور زبان کم چلائی۔ بھٹو صاحب کے حامی عام لوگ تھے۔ گالی گلوچ کے علاوہ اظہارِ جذبات کے کسی دوسرے پیرایے سے یہ لوگ کم ہی واقف ہوتے ہیں۔
اس کشمکش نے سیاسی کلچر کو ایک نیاآہنگ دیا۔ یہ 1977ء تک جاری رہا۔ جنرل ضیاالحق مرحوم کے عہد میں ملک ایک پھر جبر کی گرفت میں تھا۔ سیاسی ارتقا کا عمل ایک بار پھررک گیا۔ اسی دوران سوویت یونین کا قصہ تمام ہوا اور انقلابی سیاست، سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ سرد خانے کی نذر ہوگئی۔ جنرل صاحب نے سیاسی مخالفین کو ختم کرنے کیلئے ہر سیاسی اور غیرسیاسی حربہ اختیارکیا۔ بھٹو صاحب کو پھانسی چڑھا دیا اورقومی سیاسی جماعتوں کو تباہ کرنے کیلئے لسانی اور علاقائی تعصبات کوسیاسی بنیادیں فراہم کیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم کا ظہور اسی حکمتِ عملی کا نتیجہ تھا۔
ضیاالحق مذہبی آدمی تھے۔ ان کی ذاتی اخلاقیات پر مذہب کا غلبہ تھا۔ انہوں نے سیاسی مخالفین کے خلاف کبھی غیرشائستہ زبان استعمال نہیں کی۔ روایت ہے کہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے خلاف جب ایک بیہودہ مہم جوئی کی تجویز ان کے سامنے رکھی گئی تو انہوں نے اسے سختی سے مسترد کر دیا۔ 1988ء میں ان کا دور ختم ہوا۔ سیاست نواز شریف صاحب اور بے نظیر بھٹو صاحبہ کے ہاتھ میں چلی گئی۔ حسین حقانی اور شیخ رشید نواز شریف صاحب کے دست وبازو تھے۔ ان کے مشورے سے اور ان کی وجہ سے بے نظیر بھٹو کے خلاف غیرشائستہ مہم چلائی گئی۔ اس نے ہمارے سیاست کو ایک بار پھرآلودہ کردیا۔ یہ دور1999ء تک جاری رہا۔
اس دوران دونوں بڑی جماعتیں تشکیلِ نو کے مرحلے سے گزریں۔ انہوں نے گزشتہ سیاست سے رجوع کا فیصلہ کیا‘ جو 2006ء میں ایک دستاویز میں ڈھلا جسے 'میثاقِ جمہوریت‘ کہتے ہیں۔ یہ سیاست کے ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ دونوں بڑی جماعتوں نے جان لیاکہ غیرشائستگی سیاسی اخلاقیات کو برباد کرتی ہے۔ سیاسی رویے بدلنے لگے۔ انتخابی مہم میں اگرچہ شدت پسندی آ جاتی مگر عمومی سیاست اخلاقی اعتبار سے بہت بہتر ہوگئی۔
2011ء میں عمران خان کے عوامی ظہور کے بعد سیاست کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ ایک انتہا پسندانہ سیاسی موقف کے ساتھ، خان صاحب نے ان نوجوانوں میں سیاستدانوں کے خلاف ہیجان پیدا کردیا جو سیاست سے دور تھے اور جملہ اہلِ سیاست کونفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہ سیاسی حرکیات سے واقف تھے نہ سیاسی تاریخ سے۔ مزید ستم یہ ہوا کہ ان کے ہاتھ سوشل میڈیا کا ہتھیار تھما دیا گیا۔ عمران خان نے ایک بار پھر سیاست کو انتہاپسندی کی آگ میں جھونک دیا۔
افسوس کہ نوازشریف دشمنی میں وہ قوتیں صورتحال کا پوری طرح ادراک نہ کر سکیں جنہوں نے خان صاحب کو سہارا دیا تھا۔ خان صاحب نے اقتدار میں آنے کے بعد بھی ہیجان کو کم نہیں ہونے دیا۔ میثاقِ جمہوریت کی صورت میں جو پیشرفت ہوئی تھی، اس کی روح اگرچہ سیاسی جماعتوں میں موجود رہی لیکن خان صاحب نے جس نئی تقسیم کو ابھارا، وہ گہری ہوتی گئی۔ آج ملک ایک بار انتہا پسندی کے نرغے میں ہے۔