نوازشریف کا بیانیہ مراکزِ اقتدار میں موجود اس عدم توازن کی نشاندہی کر رہا ہے جس نے ملک کو مسلسل اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ آج نہ فکرِ تازہ کی آرزو باقی ہے‘ نہ معاشی نمو کا امکان۔ کوئی ریاست و سیاست کے مبادیات ہی سے واقف ہوتو اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ سوال یہ ہے کہ اس سے نجات کیسے حاصل کی جائے؟ یہ بیانیہ قومی بیانیہ کیسے بن سکتا ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کا تعلق شعوری تبدیلی کے ساتھ ہے۔ عوام جانتے ہوں کہ آئین یا عمرانی معاہدہ کیا ہوتا ہے اور ملک کیلئے اس کی کیا اہمیت ہے؟ ان کوخبر ہوکہ روپے پیسے کی کرپشن کا علاج ممکن ہے لیکن اگر ملک کوآئینی پابندیوں سے آزاد کردیا جائے تو قومی سلامتی کی کوئی دوسری ضمانت موجود نہیں۔ آئین شکن دراصل پوری قوم کے سر سے چادر اتاردیتا ہے۔ جب تک عوام شعوری سطح پراس بات کو محسوس نہیں کریں گے، نوازشریف کا بیانیہ قومی بیانیہ نہیں بن سکتا۔
شعوری تبدیلی ایک سماجی عمل ہے، سیاسی نہیں۔ جب تک سماج کسی نظریے، سوچ یا فکرکو شعوری سطح پرقبول نہ کرے، سیاست میں اس کے نتائج کا ظہور نہیں ہوسکتا۔ تحریکِ پاکستان کا بیانیہ پہلے عوامی بیانیہ بنا۔ اس کے بعد ہند کی تقسیم ممکن ہوئی۔ اگر مسلم معاشرہ مولانا ابوالکلام آزاد کی بات مان لیتا تو مسلمانوں کے لئے ایک آزاد وطن کے قیام کی راہ ہموار نہ ہو پاتی۔ اسی طرح اگر بھٹو صاحب کا روٹی کپڑا اور مکان کا بیانیہ عوام کی سمجھ میں نہ آتا تو ان کی سیاسی پذیرائی ممکن نہ تھی۔
نوازشریف کا بیانیہ ابھی قومی بیانیہ نہیں بنا۔ ان کی مقبولیت کئی عوامل کا مجموعہ ہے، جن میں سے ایک بیانیہ بھی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ گزشتہ چھ سالوں میں ایک بڑی سماجی تبدیلی آئی ہے اور لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ کون سی رکاوٹ ترقی کی راہ میں حائل ہے؛ تاہم ابھی اس کی یہ حیثیت نہیں کہ خلقِ خدا نے اس کو ایسے مان لیا ہو جیسے تقسیم کے بیانیے کو مانا تھا۔
گزشتہ دنوں میں ہونے والے تین سروے بتا رہے ہیں کہ ڈسکہ میں نون لیگ کو برتری حاصل ہے۔ جب لوگوں سے پوچھا گیاکہ وہ نون لیگ کوکیوں بہتر سمجھتے ہیں تواکثریت نے اس کے دو اسباب بتائے: ایک ترقیاتی کام اور دوسرا غریبوں کی امداد۔ آٹھ فیصد نے نظریے کو بھی حمایت کی ایک وجہ قراردیا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نون لیگ کی عوامی تائید میں 'بیانیے‘ کا کتنا حصہ ہے۔
عوام تو ایک طرف، آج کا دانشور بھی اس کا پوری طرح ادراک نہیں کرسکا کہ ملک کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ اس کے نزدیک بھی قومی سطح پر موجود اتفاقِ رائے کو پامال کرنا کوئی قابلِ ذکر جرم نہیں‘ ووٹ کی بے حرمتی کوئی ایسا گناہ نہیں کہ اس پر واویلا کیا جائے۔ وہ نوازشریف کی ذات اور ان کے بیانیے کے فرق کو بھی نہیں سمجھ سکا۔ اور تو اور، جمہوریت کا تمغہ اپنے سینے پر سجانے والی پیپلز پارٹی کی قیادت بھی، سندھ کی حکومت اور قومی اسمبلی کی چند نشستوں کو ،ووٹ کی عزت سے زیادہ گراں قدر سمجھتی ہے۔
اگر یہ مقدمہ درست ہے توپھر نوازشریف صاحب اور مریم نواز صاحبہ کو سمجھنا ہوگا کہ ایک بڑی سماجی تبدیلی کے بغیر قومی سیاست کواس بیانیے کے گرد نہیں گھمایا جا سکتا۔ اس بیانیے کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ قوتیں رضاکارانہ طورپر اقتدار کی سیاست سے لاتعلق ہو جائیں۔ انسانی تاریخ میں کم ہی ہواہے کہ کسی نے اپنی مرضی سے یہ دستبرداری اختیار کی ہو؛ البتہ حالات کے تحت۔ ایک سیاسی قوت ایسے حالات صرف عوامی تائید ہی سے پیداکر سکتی ہے۔ اگر عوام مسلم لیگ کے ساتھ نہ ہوتے توکیا کانگرس تقسیم پر آمادہ ہو جاتی؟ انگریز مسلم لیگ کی بات مان لیتے؟
اگر نون لیگ اس وقت اقتدار کی سیاست کرنا چاہتی ہے تو نوازشریف صاحب کابیانیہ اس کی قوت میں اضافہ توکر سکتا ہے، اس کی اساس نہیں بن سکتا۔ اقتدارکی سیاست زمینی حقائق کی بنیاد پرہوتی ہے۔ اس وقت نون لیگ کو دو بڑی سیاسی حقیقتوں کا سامنا ہے۔ ایک مثبت اورایک منفی۔ مثبت یہ کہ اسے عوام کی غیرمعمولی تائید حاصل ہے۔ سنجیدہ سیاسی مبصر متفق ہیں کہ اگر آج انتخابات ہوں تووہ سب سے بڑی جماعت ہوگی۔ منفی زمینی حقیقت یہ ہے کہ بعض قوتوں کو نون لیگ گوارا نہیں۔ ان کے وجود کا انکار عملاً ناممکن ہے اور انہیں تسلیم کیے بغیر ملک انتخابات کی طرف بڑھ سکتا ہے نہ انتخابی عمل شفاف ہو سکتا ہے۔
جو جماعت عوام میں اتنی پذیرائی رکھتی ہو، اس کیلئے ناممکن ہے کہ وہ انتخابی سیاست سے لاتعلق ہوجائے۔ نون لیگ کا مخمصہ یہ ہے کہ انتخابی عمل میں اس کی شرکت، ان دو مثبت اور منفی حقائق کے گرد گھوم رہی ہے۔ اس مخمصے سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے: نون لیگ کی دو حصوں میں تقسیم۔ ایک وہ جو سماجی تحریک اٹھائے۔ دوسرا وہ جو اقتدار کی سیاست کرے۔
سماجی تحریک کا لائحہ عمل اور ہوگا اور سیاسی جماعت کا الگ۔ سماجی تحریک کے پیشِ نظر یہ ہوکہ وہ قوم میں ایسی شعوری تبدیلی پیدا کرے کہ وہ اس بیانیے کو اسی طرح قبول کر لے جس طرح اس نے تحریک پاکستان یا روٹی، کپڑا اور مکان کے بیانیوں کو قبول کیا تھا۔ اس کیلئے ذہن سازی کرنا پڑے گی اور ابلاغی سطح پر فکری تحریک اٹھانا پڑے گی۔ عوامی سطح پراس کی قیادت مریم نوازکریں۔ اگر انہوں نے ملک کی دانش، نوجوانوں اور دیگر طبقات کو اپنا ہم نوا بنا لیا تو قومی سیاست خود بخود نوازشریف کے بیانیے کے تابع ہو جائے گی۔
بطور سیاسی جماعت مسلم لیگ کو شاہد خاقان عباسی صاحب کی قیادت میں منظم کیا جائے۔ حمزہ شریف ان کے معاون ہوں۔ وہ ایسی سیاست کرے جو نون لیگ کی انتخابی قوت کو محفوظ رکھے اور اسے اقتدار تک پہنچا سکے۔ وہ زمینی حقائق کے اعتراف کے ساتھ حکمتِ عملی بنائے اور اتنی ہی پیش رفت کرے جتنی حالات اجازت دیں۔ نوازشریف صاحب کی حیثیت دونوں کیلئے ایک قائد کی ہو۔
اس میں ایک اعتراض پیدا ہو سکتا ہے کہ اس وقت نون لیگ کا سب سے مقبول چہرہ مریم نواز ہیں۔ اگر وہ اقتدار کی سیاست سے الگ ہوں گی تو اس سے نون لیگ کو نقصان ہوگا۔ میرا جواب یہ ہو گا کہ مریم نواز جب سماجی تبدیلی کی مہم اٹھائیں گی تو عوام کے سامنے ہی رہیں گی اور بالواسطہ نون لیگ کی سیاسی تنظیم کے لیے قوت کا باعث بنیں گی۔
اس تقسیم سے جہاں نون لیگ کے لیے امکانات کے دروازے کھلیں گے، وہاں وہ تضادات سے بھی بچ جائے گی۔ ماضی میں جب آئی جے آئی بنی تھی تواس وقت میرا خیال یہ تھاکہ اس نوعیت کا تعلق جماعت اسلامی اور مسلم لیگ میں قائم ہو سکتا ہے۔ جماعت میں سیاسی رجحان رکھنے والے، مسلم لیگ میں چلے جائیں اور جماعت اسلامی ایک سیاسی و فکری تربیت گاہ کا کردار ادا کرے۔ نون لیگ کو تقسیمِ کار کی یہ حکمتِ عملی تین سال کے لیے تو ضرور اختیار کرنی چاہیے۔ اس وقت تک عوامی شعور کی بیداری، امرِ واقعہ بن سکتی ہے۔
نون لیگ کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ اصولی موقف کے ساتھ، اقتدار کی سیاست کیسے ہو؟ یہ کالم اسی سوال کا جواب ہے۔