قائداعظم ایک امیر آدمی تھے۔اتنے امیر کہ 1926ء میں ان کا شمار جنوبی ایشیا کے دس سب سے بڑے سرمایہ کاروں میں ہوتا تھا۔ان کے چار مکانات کی قدر اگر آج کے حساب سے متعین کی جائے تو1.4 سے1.6ارب ڈالر بنتی ہے۔ قائد اعظم کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟
ڈاکٹر سعد خان کی کتاب ''محمدعلی جناح...دولت‘جائیداد اور وصیت‘‘ اس سوال کا جواب دیتی ہے۔یہی نہیں‘ان کی دولت اورجائیداد کی مکمل تفصیل بھی۔قائد کا تمام سرمایہ‘آمدن‘ جائیدادسب دستاویزی ہیں۔ان کی شخصیت کی طرح‘ شفاف ریکارڈ کے ساتھ۔یہ کتاب پڑھے کئی ماہ گزر چکے لیکن ہنوز سرہانے دھری ہے۔اس کتاب نے مجھے بعض ایسے سوالات پر غورکے لیے مجبور کیا جن کا تعلق کتاب کے موضوع سے نہیں لیکن قائد کی شخصیت سے ضرور ہے۔ایک موضوع ''قائد اعظم کا اسلام ‘‘ہے۔
مذہب کے باب میں قائد اعظم کے خیالات ہمارے ہاں مدت سے زیرِ بحث ہیں۔ان کا مسلک کیا تھاا وروہ مذہب وریاست کے باہمی تعلق کو کیسے دیکھتے تھے؟ان سوالات کے ہمیں جو جواب ملے وہ مختلف ہیں۔قائداعظم کو ان معنوں میں سیکولر ماننے والے بھی کم نہیں جوسیکولرازم کو مذہب مخالف سیاسی تصور قرار دیتے ہیں۔ایسے لوگ بھی بہت ہیں جو قائدکی اسلام پسندی کے حق میں ان کے خطبات سے اقتباسات کے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ شخصی زندگی سے لے کر سیاسی زندگی تک‘ہر شعبۂ حیات میں مذہب کی بالادستی کے قائل تھے۔
ڈاکٹر سعد خان نے موضوع کی رعایت سے قائداعظم کے مسلک اور مذہب کا بھی ذکر کیا ہے۔ایک پیرا گراف بہت دلچسپ ہے۔اسی نے مجھے قائد کے تصورِ اسلام پر مزید غور پر مجبور کیا۔پہلے یہ پیراگراف دیکھیے: ''بیگم جناح کا قبولِ اسلام سنی مسلک کے مطابق ہواجبکہ اگلے روز ان کا نکاح شیعہ روایت کے مطابق ہوا۔جناح کی سرکاری نمازِ جنازہ سنی مسلک کے مطابق ادا کی گئی جبکہ ان کی وصیت اسماعیلی روایت کے مطابق تھی۔جناح صاحب زندگی بھر بمبئی کی اثنا عشری جماعت کو چندہ ادا کرتے رہے لیکن کبھی مجلسِ عاشورہ میں دکھائی نہیں دیے۔دوسری طرف وہ عید میلاد کی تقریب میں ضرور دکھائی دیے جو کہ بنیادی طور پر سنی مسلک کی سرگرمی سمجھی جا تی ہے۔انہوں نے مسلکی وابستگیوں سے بالا تر ہوکر اپنی ہمشیرگان کی شادیاں کرائیں۔ان کا ایک بہنوئی سنی تھا اور دوسرا شیعہ...‘‘ (صفحہ89)
ایک اور بات جو اس کتاب کے متن میں تونہیںلیکن میں نے بین السطور پڑھ لی۔اتنا امیر آ دمی ہونے کے باوجود‘قائداعظم نے حج نہیں کیا۔ان کے سوانح میں کہیں اس کی خواہش کا اظہار بھی نہیں ملتا۔ اپنی وصیت میں ‘وہ اپنی وراثت کا بڑا حصہ تعلیمی اداروں کے نام کر گئے۔گویا وہ خلقِ خدا کو نہیں بھولے۔ مذہبی تعلیم کے مطابق حج ان پر فرض تھا جو خدا کا حق ہے۔اگر وہ ایک مذہبی آدمی تھے تواتنے اہم مذہبی فریضے سے غافل کیسے رہے؟
اسلام کے ساتھ ان کا لگاؤ ان کے بہت سے خطبات سے واضح ہے۔یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ قرآ ن مجید پڑھتے تھے۔یقینا وہ جانتے ہوں گے کہ نماز ‘روزہ‘ حج کے بارے میں قرآن مجید میں کیالکھا ہے اور مذہب کے ساتھ کسی فرد کے تعلق کو ماپنے میں‘ان پیمانوں کی کیا اہمیت ہے؟اس کے باوجود ایسا کیوں ہے کہ حج کی خواہش پیدا نہیں ہوئی؟ ایک طرف یہ احساس کہ خداکے حضور پیش ہوں توشاباش ملے کہWell done Jinnah اوردوسری طرف فرائض سے یہ لاتعلقی؟ میں نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
مذہب کسی واحدتعبیر کا نام نہیں۔مسلمانوں میں‘ کم ازکم چھ تعبیرات کے ماننے والے بکثرت تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ ایک یہ تعبیرکہ مذہب چند عقائد کو ماننے اور چند مناسک و رسوم پر عمل کر نے کا نام ہے۔کاروبارِزندگی سے اس کازیادہ گہرا تعلق نہیں۔سیاست‘کاروبار اور معاشرت کے معاملات ایک سماجی روایت کے مطابق ہوتے آئے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔یہ مذہب کا براہ راست موضوع نہیں۔ سماج کی اپنی ڈگر ہے اور مذہب کی اپنی جو سراسر انفرادی معاملہ ہے۔
دوسری یہ کہ مذہب ایک فکری نظام(discourse)ہے جیسے اشتراکیت‘سرمایہ داری اور بہت سے دوسرے نظام ہیں۔مذہب کے ساتھ ہمارا تعلق فکری (intellectual) ہے۔یہ ایک فکری سرگرمی کا موضوع ہے۔ہمیں اس دنیا کو سنوارنے کیلئے اس سے مدد لینی چاہیے۔پیغمبر انسانی تاریخ کی بلند وبالا شخصیات ہیں اور ہمیں ان کی تعلیمات سے استفادہ کرنا چاہیے۔ مذہبی کتب کو بھی اسی زاویے سے دیکھنا چاہیے۔ مذہب فرد اور خدا کامعاملہ ہے۔اس معاملے میں کسی دوسرے ادارے کا کردار‘چاہے وہ کلیسا ہو یا ریاست قابلِ قبول نہیں۔کلیسا یا مذہبی طبقے نے ایک خود ساختہ شریعت ایجاد کر رکھی ہے اور یوں ابنِ آدم کو چند رسوم میں جکڑ دیا ہے۔مذہب کو ان رسوم ومناسک سے ماورا‘ اس کے مقاصد کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔
تیسری تعبیر یہ ہے کہ مذہب ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ یہ زندگی کے ہر شعبے کو محیط ہے۔ اس کا مقصود انسانی معاشرے میں خدا کی حاکمیت کا بالفعل قیام ہے۔ مذہب کا اصل مطالبہ یہی ہے۔نماز ‘روزہ اور حج جیسی عبادات اور مناسک بھی ضروری اور مذہب کا حصہ ہیں لیکن ان کی حیثیت ایک تربیتی نظام کی ہے تاکہ ان پر عمل کر کے وہ لوگ تیار ہوں‘ جو دنیا میں اسلام کے غلبے کو امرِ واقع بنا سکیں۔
چوتھی تعبیر کے مطابق‘مذہب ایک عصبیت ہے جیسے رنگ و نسل کی عصبیت۔ ہم جس خاندان یا مذہب میں پیدا ہوتے ہیں‘اس کے ساتھ ہماری جذباتی وابستگی ہوتی ہے۔اس جذباتی وابستگی کا ہمیں زندگی بھر دفاع کرنا اور اس عصبیت کو زندہ رکھنا ہے۔جس طرح غیرت کے نام پر مرنا مارنا ایک اعزاز ہے‘اسی طرح مذہب کے نام پر قتل ہونا اور قتل کرنا بھی ایک اعزاز ہے۔اس تعبیر میں یہ بات غیر اہم ہے کہ مذہب زندگی گزارنے کا کوئی ڈھنگ سکھاتا ہے یا کسی رسم یا عبادت کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر مذہب کی کسی رسم پر عمل کیا جا تا ہے تو وہ بھی اسی عصبیت کو زندہ رکھنے کے لیے۔ہم ویسے حجاب کے بارے میں حساس نہیں لیکن اگر کوئی ہمیں بالجبر اس سے روکے گا تو پھر اس کے لیے جان پر کھیل جائیں گے۔
مذہب کی پانچویں تعبیر یہ ہے کہ یہ کارخانہ قدرت ایک واہمہ یا عکس ہے جس کی اپنی کوئی حقیقت نہیں۔اس کائنات میں ایک ہی حقیقت ہے اوروہ خدا کی ذات ہے۔ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں‘اسی کے تنزلات ہیں ۔انسان بھی اسی سمندر کا ایک قطرہ ہے۔اس کی سعی و جہد کا حاصل یہ ہونا چاہیے کہ وہ قطرہ پھر سمندر میں مل جائے۔مذہب کا مطلوب بھی یہی ہے۔
چھٹی تعبیر کے مطابق‘انسان خدا کی مخلوق اور اس کا بندہ ہے۔اسے ایک دن خدا کے حضورمیں پیش ہونا ہے۔وہاں اس کے مستقل ٹھکانے کا فیصلہ ہونا ہے:جنت یا جہنم۔اس کا فیصلہ اس پر منحصر ہے کہ ایک انسان نے اس دنیا میں خود کو کتنا پاکیزہ بنایا۔یہ پاکیزگی اس دین پر عمل سے حاصل ہوتی ہے جو پیغمبر لے کر آتے ہیں۔اس میں کچھ غیر اہم نہیں۔یہ ذہنی و جسمانی طہارت نماز‘ روزہ اور حج‘ زکوٰۃ کے بغیر نہیں مل سکتی ‘اس لیے یہ مقصود بالذات ہیں۔امورِ دنیا میں مذہبی تعلیمات فرد کی سماجی حیثیت کے مطابق‘اس سے متعلق ہوتی ہیں اور وہ اسی حد تک جواب دہ ہے۔
مجھے ان تعبیرات میں غلط اور صحیح کا فیصلہ نہیں کرنا۔میں نے بطورامرِ واقعہ‘ان کو بیان کیا ہے۔ان سب کو ماننے والے کسی نہ کسی درجے میں 'مذہبی‘ ہیں۔سوال یہ ہے کہ قائد اعظم ان میں سے کس تعبیر کے قائل تھے؟اس سوال کاجواب اگلے کالم میں‘ان شااللہ۔