وزیر اعظم عمران خان صاحب نے فحاشی کے نتائج اور ریپ کی وجوہات کو باہم ملا دیا۔ خلطِ مبحث اسی کو کہتے ہیں۔
ناقدین نے بھی ان کی بات کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ وفورِ تنقید میں عجلت کامظاہرہ کیا۔ یوں ایک اہم بات سماجی تقسیم کی نذر ہوگئی۔ ہرکسی نے اپنے اپنے قبیلے کو پکارااور رزم گاہ آباد ہوگئی۔ ایسی معرکہ آرائی میں جو چیز سب سے پہلے کام آتی ہے وہ دلیل ہے۔ جو بچ جاتی ہے وہ عصبیت ہے۔ یہ رویہ ہمیں کسی نتیجے تک نہیں پہنچنے دیتا۔ جمہوریت سے مذہب تک، ہم نے ہر شے کومتنازع بنادیا۔
خان صاحب کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ریپ کا ہدف، اس کی ذمہ داری میں بھی شریک ہے۔ یہ جملہ تو انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے کہ ''ہر انسان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ خود کو روک سکے‘‘۔ یہ مجرم کی طرف سے عذر ہے۔ یہ عذر اگر وزیراعظم کے منصب پر بیٹھے کسی شخص کی طرف سے پیش کیا جائے تواس کی سنگینی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ بایں ہمہ خان صاحب نے یہ بات ایک سوال کے جواب میں کہی۔ وہ ریپ پر کوئی لیکچر نہیں دے رہے تھے۔ اس لیے اس ایک جملے سے پورا مقدمہ تراشنا اور اسے فحاشی کے باب میں ان کی تشویش سے جوڑنا بھی انصاف نہیں۔
ریپ ایک سنگین جرم ہے۔ اس کے لیے کوئی عذر ادنیٰ درجے میں بھی قابلِ قبول نہیں۔ یہ فرد ہی نہیں، معاشرے کے خلاف بھی ایک جرم ہے۔ مذہب اور سیکولر اخلاقیات دونوں اس کوبرداشت نہیں کرتے۔ عام طور پراس کا ارتکاب دو طرح کے لوگ کرتے ہیں۔ نفسیاتی مریض یا پھروہ جوقوت کے نشے میں سرشارہو۔ اس کو فحاشی یا ہدف سے متعلق کرکے، ہم اس کی سنگینی کوکم کردیتے ہیں۔
فحاشی ایک الگ مسئلہ ہے۔ وہ عمل جو جنسی تعلقات میں عدم توازن کو جنم دے اور نتیجے کے طور پرمرد وزن کے لیے باہمی تعلقات کے وہ دروازے کھول دے، جنہیں مذہب اور سماجی روایت، دونوں بند رکھنا چاہتے ہیں، فحاشی میں شامل ہے۔ خاندان کا ادارہ، ہر مذہبی و غیر مذہبی روایت میں موجود رہا ہے۔ اس کا آغاز مردوزن کے اُس باہمی تعلق سے ہوتا ہے جو مذہب اور سماج، دونوں کے لیے قابلِ قبول ہو۔ اس کا اعلانِ عام ہوتا ہے اورمعاشرہ ایک جوڑے کونئی شناخت دیتا ہے۔ اس تعلق سے حقوق وفرائض جنم لیتے ہیں اور ایک مکمل سماجی نظم قائم ہوتا ہے۔
مختلف مذاہب اور معاشروں میں اس تعلق کو مختلف رسوم سے بیان کیا جاتا ہے لیکن سب میں اس کا جوہر ایک ہی ہے۔ اگر کوئی مرد یا عورت اس تعلق سے نکل کر کہیں اور جنسی تعلق قائم کرنا چاہے توتمام روایتی معاشروں میں اسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کہیں قبول کیا جاتا ہے تواُسی وقت جب مذہب یا سماجی روایت اس کی اجازت دے جیسے اسلام میں ایک مرد کے لیے ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت۔
اِس تعلق کی حفاظت کے لیے ان ذرائع کے دروازے بھی بند کیے جاتے ہیں جو اس میں کسی طرح کا فساد برپا کرسکتے ہوں۔ جب ہم گھروں کوآگ سے بچانا چاہتے ہیں تو بچوں کو آگ سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ لازم نہیں کہ آگ کے ہرکھیل کا انجام یہی ہولیکن چونکہ اس کھیل میں اس کا اندیشہ ہروقت موجود ہوتا ہے،اس لیے ایک حفاظتی اقدام کے طورپر اس کی ممانعت کردی جاتی ہے۔ جب تقریبات میں آتش بازی کے نتیجے میں آگ بھڑکنے کے واقعات ہونے لگیں تو حکومتیں آتش بازی کوممنوع قرار دے دیتی ہیں۔ عقلِ سلیم کیلئے اس بات کا سمجھنا مشکل نہیں۔
اسلام میں اسی لیے سدِذریعہ کوایک اصول مانا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم معاشرے کو جس فساد سے بچانا چاہتے ہیں، اسے ان اسباب سے بھی دور رکھیں جواس فساد کا باعث بن سکتے ہیں۔ قرآن مجید نے زنا ہی سے نہیں، اس کے قریب جانے سے بھی روکا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں کہا گیا ''اور زنا کے قریب نہ جاؤ۔ اس لیے کہ وہ کھلی بے حیائی اور بہت بری راہ ہے۔‘‘ (17:32)
استادِ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے ''اس (زنا) کے برائی اور بے حیائی ہونے پرکسی دلیل و حجت کی ضرورت نہیں۔ انسان کی فطرت اسے ہمیشہ سے ایک بڑا گناہ اورسنگین جرم سمجھتی رہی ہے اور جب تک وہ بالکل مسخ نہ ہوجائے، سمجھتی رہے گی۔ انسان سے متعلق یہ حقیقت بالکل ناقابلِ تردید ہے کہ خاندان کا ادارہ اس کیلئے ہوا اور پانی کی طرح ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ یہ ادارہ صحیح فطری جذبات کے ساتھ صرف اسی صورت میں قائم ہوتا اور قائم رہ سکتا ہے، جب زوجین کا تعلق مستقل رفاقت کا ہو...‘‘۔
جاویدصاحب نے مزیدلکھا ''اس فعل کی یہی شناعت ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے صرف اتنی بات نہیں کہی کہ زنا نہ کرو بلکہ یہ فرمایا کہ زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسی تمام باتوں سے دوررہو جوزنا کی محرک، اس کی ترغیب دینے والی اور اس کے قریب لے جانے والی ہوں‘‘۔ (البیان، جلدسوم، صفحہ 82) ۔
عقلِ عام یہ سمجھنے کیلئے کفایت کرتی ہے کہ جب مخلوط مجالس میں لڑکے اورلڑکیاں لباس کے معاملے میں بے احتیاطی برتیں گے تواس بات کا پورا اندیشہ ہے کہ وہ ان حدود کوپار کرجائیں جو مذہبی اور سماجی اخلاقیات نے طے کررکھی ہیں۔ اس لیے نوجوانوں کو یہی نصیحت کی جائے گی کہ وہ لباس کے معاملے میں اُس شائستگی کوملحوظ رکھیں جوہمارے معاشرے میں شرفاکی پہچان ہے۔ والدین اپنے بچوں کویہی تلقین کریں گے اورعمران خان صاحب یہی بات کہنا چاہتے ہیں۔ اس موضوع پران کے باتوں کو جمع کریں توان کا مدعا یہی ہے۔ اس میں کوئی بات ایسی نہیں جس پر معترض ہوا جائے۔
تاہم اس باب میں یہ پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا آزمائش کے لیے بنائی ہے اور جنسی کشش اس آزمائش میں سرِفہرست ہیں۔ آزمائش کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مردوں یا عورتوں کوگھروں میں محصور کردیا جائے۔ یہ نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی مطلوب۔ دنیا میں ہم جنسی کے واقعات بھی ہوتے ہیں اور تعلیمی اداروں کے اقامت خانے (Hostels) اس کے سب سے بڑے مراکز ہیں۔ کیا اس سے بچنے کیلئے ہوسٹلز بند کر دیے جائیں یا مردوں کو مردوں اور عورتوں کو عورتوں سے ملنے سے روک دیا جائے؟
زنا سے بچنے کے آداب بتا دیے گئے ہیں‘ جیسے عوامی مقامات پر مردوزن کے اختلاط کے آداب سورہ نور میں بیان ہوگئے ہیں۔ ہمیں ان پراکتفا کرنا چاہیے۔ خدا سے بڑھ کراس کی حدود کے معاملے میں حساس ہونے کی ضرورت نہیں۔ جمائما صاحبہ نے سورہ نور کی اسی آیت کا حوالہ دیا ہے مگر ادھورا۔ اس آیت میں صرف مسلمان مردوں کو نہیں، مسلمان عورتوں کوبھی نصیحت کی گئی ہے جوانہوں نے نقل نہیں کی۔
دوسری طرف لبرل ازم ایک ایسا تصورِ حیات (worldview) ہے جو کسی مذہبی اورسماجی قدر کومعیار نہیں مانتا۔ اس کے نزدیک انسانی آزادی وہ بنیادی قدر ہے جو انسانی رویّے تشکیل دے گی۔ کسی مذہب یا سماجی روایت کیلئے یہ حق ثابت نہیں۔ لباس کا انتخاب فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ یہ مذہب یا سماج کا کام نہیں کہ وہ فرد کو بتائے کہ اس نے کیا پہننا ہے۔ اِس وقت خان صاحب پراس طبقے کی طرف سے تنقید ہورہی ہے جو لبرل ازم پر یقین رکھتا ہے۔
یہ ایک مستقل تنازع ہے جوجاری رہے گا۔ لازم ہے کہ اسے مکالمے کا موضوع بنایا جائے۔ اِس وقت اُس خلطِ مبحث کو سمجھنا چاہیے جو خان صاحب کی بات سے پیدا ہوا۔ ہمیں فحاشی اور ریپ کے معاملات کوایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنا ہوگا۔