ایک عالمگیر نظامِ اقدار چیلنج بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہے۔
یورپین پارلیمنٹ کی سفارشات اس وقت زیرِ بحث ہیں۔ ہمارے خلاف کم وبیش اتفاقِ رائے سے ایک قرارداد منظور کرلی گئی ہے۔ مقدمہ یہ ہے کہ پاکستان کے قوانین مذہبی آزادی کی بنیادی قدر سے متصادم ہیں۔ نظامِ عدل ان کی زد میں آنے والوں کو انصاف فراہم نہیں کر سکا۔ ان کی وجہ سے اقلیتیں امتیازی سلوک کا ہدف ہیں۔ پاکستان کو اگر عالمی برادری کے ساتھ ہم قدم ہونا ہے تو اسے ان قوانین کو بدلنا اور عدالتی نظام کوبہتر بنانا ہوگا۔
ہم سے یہ مطالبہ پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی ہم سے ایسے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں جو ہمارے نظامِ اقدار سے ہم آہنگ نہیں تھے‘ جیسے سزائے موت کا خاتمہ۔ ہمارے بارے میں یہ رائے بتدریج مستحکم ہوئی ہے کہ ہماری معاشرتی اقدار میں مذہبی رواداری کا کہیں گزر نہیں ہے۔ اس کا تعلق صرف قوانین سے نہیں، ہمارے اجتماعی رویے سے بھی ہے۔ غلط اور صحیح سے قطع نظر، سب سے پہلے یہ سمجھنا لازم ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
مغرب، 'مشرق‘ کے بارے میں ایک رائے رکھتا ہے۔ اس رائے نے ایک شعبہ علم، 'مطالعہ شرق‘ (Orientalism) کی بنیاد رکھی ہے۔ ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب 'اورینٹلزم‘ میں اس علم کی اساسات کو واضح کیا ہے۔ 1978ء میں پہلی بار شائع ہونے والی یہ کتاب سماجی علوم میں کلاسک کادرجہ رکھتی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ کس طرح یہ مطالعہ نوآبادیاتی سوچ اورغلبے کی نفسیات کے زیرِاثر وجود میں آیا ہے۔
ایڈورڈ سعید نے واضح کیاکہ مطالعہ شرق ایک سادہ علمی معاملہ نہیں ہے۔ یہ علوم و فنون، اداروں، اندازِ نظر اور اسلوبِ تحقیق کا ایک مجموعہ ہے جو علم (knowledge) اور طاقت (Power) کے باہمی تعلق کو بیان کررہا ہے۔ اس تعلق نے مغرب میں ایک علمی روایت کو جنم دیا جس کے زیرِاثر مشرق کا ایک تصور پیدا ہوااور اس نے اس سامراجی غلبے کو مستحکم کرنے میں ایک کردار ادا کیا جو یورپ کو مشرقی ممالک پر حاصل ہوگیا تھا۔ اس مطالعے کے نتیجے میں ایک 'خیالی جغرافیہ‘ (imaginative geography) وجود میں آیا اوراس طرح دنیا دو حصوں میں منقسم کردی گئی: یورپ اور 'دیگر‘ (other)۔ یورپ نے خود کو تہذیب کی علامت قرار دیتے ہوئے اس 'دیگر‘ کا مطالعہ کیا اور اس کے علم، تہذیب، فنون اور روایت کے بارے میں حکم لگایا‘ یوں مشرق کو کم تر سمجھتے ہوئے، اسے مغربی تہذیب کی سطح پر لانے یا بالفاطِ دیگر، مہذب بنانے کواپنے سیاسی اہداف میں شامل کر لیا۔
یہ مطالعۂ شرق انیسویں صدی میں یورپ میں شروع ہوا جسے برطانیہ اور فرانس جیسی سامراجی قوتوں نے اپنے نوآبادیاتی عزائم کی تکمیل کیلئے بطور ہتھیار استعمال کیا۔ جدید دور میں یہ امریکہ کی سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جسے سامراجی تسلط کے لیے اپنالیا گیاہے۔ یوں یورپ اور امریکہ، اس باب میں ہمنوا اورایک ہی تہذیب کے نمائندہ ہیں۔
اورینٹلزم کو معیار ماننے کا مطلب یہ ہے کہ مشرق کی وہی تعبیر معتبر ہوگی جو مغرب کے علمی مراکز میں کی جائے گی۔ اسلام کیا ہے؟ اس کا جواب وہاں سے ملے گا۔ یہ مسلمان نہیں بتائیں گے۔ چینی تہذیب کیا ہے؟ یہ مغرب کے اہلِ علم طے کریں گے۔ اب اس علم اور طاقت کا باہمی تعلق کس طرح وجود میں آتا ہے، اسے برطانیہ کے وزیراعظم آرتھربالفور کی ایک تقریرسے سمجھا جا سکتا۔ 1910ء میں، جب برطانیہ نے مصر پر قبضے کا فیصلہ کیا تو بالفور نے کہا تھا ''برطانیہ مصرکو جانتا ہے اوراب مصروہی ہے جو برطانیہ جانتا ہے۔ برطانیہ جانتا ہے کہ مصرمیں اپنی حکومت بنانے کی صلاحیت نہیں۔ اس پربرطانیہ کا قبضہ اس بات کی تصدیق کررہا ہے۔ اہلِ مصر کیلئے (اب) مصراس ریاست کا نام ہے جس پربرطانیہ کا قبضہ اور حکومت قائم ہوچکی۔ 'غیرملکی تسلط‘ اس لیے معاصر مصری تہذیب کی بنیادی اینٹ ہے‘‘۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ کم وبیش ایک سو سال بعد، 2003 ء میں جب امریکہ نے عراق پرقبضے کا فیصلہ کیاتو اسے 'آزادی آپریشن‘ قراردیا۔ گویا غیرملکی قبضہ اہلِ عراق کیلئے 'آزادی‘ ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ امریکہ طے کرے گاکہ اہلِ عراق کیلئے آزادی کیا ہے؟
ایڈورڈ سعید کے اس نقطہ نظر سے اختلاف بھی کیاگیا۔ مجھے ان کے تجزیے سے اتفاق ہے۔ سامراجی سوچ یہی ہوتی ہے اوریہ مغربی سامراج کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ ہرسامراج اپنی تہذیب کوغالب سمجھتا اوراس کی روشنی میں دیگر دنیا کو 'مہذب‘ بنانا چاہتا ہے۔ چونکہ اس کے پاس طاقت بھی ہوتی ہے، اس لیے وہ یہ کام قوت کے ساتھ کرنا چاہتا ہے۔ مغلوب قوتوں کی نفسیات منفعلانہ ہوتو یہ کام آسان ہوجاتا ہے۔
یورپی پارلیمنٹ کے مطالبے کوجب ہم اس پس منظر میں دیکھتے ہیں تویہ خارجہ پالیسی کا سادہ مسئلہ نہیں رہتا۔ خارجہ پالیسی کے سطح پراس کا حل تلاش کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اسے ایک وسیع ترتناظر میں سمجھا جائے۔ ایک درست پالیسی کی تشکیل کی سمت میں یہ پہلا قدم ہوگا۔ تشخیص درست ہوگی تو علاج کی تلاش نسبتاً آسان ہوجائے گی۔
آج ایک تہذیب کوعالمگیر قرار دے کر، ہمیں اس سے ہم آہنگ ہونے کیلئے کہا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اپنے تہذیبی تشخص کوبرقرار رکھتے ہوئے، کیا ہمارے لیے یہ ہم آہنگی ممکن ہے؟ دوسرے قدم کے طورپر، ہمیں اس نوعیت کے سوالات کا سامنا کرنا ہوگا۔ اسی ضمن میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس تہذیب کے جن مقدمات کوہم اپنے مذہب کے خلاف سمجھتے ہیں، یہ مذہب کا کوئی ثابت شدہ مقدمہ ہے یا ہمارے سوئے فہم کا نتیجہ؟ انسانی حقوق کا جو تصوراس وقت ایک عالمگیر قدرکی حیثیت اختیار کرچکا، ہمارا مذہب اس بارے میں کیا کہتا ہے؟ آزادیٔ رائے کا مغربی تصور کیا ہمارے لیے قابلِ قبول ہے؟
اس دوسرے قدم کا تعلق ہمارے داخلی مدافعتی نظام سے ہے۔ اس نظامِ دفاع کے ہتھیارعلم، بصیرت اورادراک ہیں۔ یہ ہتھیار ایک بند معاشرے میں کارآمد نہیں ہو سکتے۔ جہاں فتوے کی زبان میں گفتگو ہو، وہاں مکالمہ نہیں ہوسکتا اورفکری ارتقا بھی نہیں۔ دوسرے کا سامنا کرنے سے پہلے اپنا سامنا کرنا ضروری ہے۔ اسی مرحلے میں ہمیں خود سے یہ سوال کرنا ہے کہ عالمگیر نظامِ اقدار کی تشکیل میں ہمارا حصہ کتنا ہے؟ اگر نہیں ہے توکیوں؟
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں چند اورسوالات کے جواب بھی تلاش کرنے ہیں۔ ہم پر لگائے جانے والے اعتراضات کی حقیقت کیا ہے؟ یورپی پارلیمنٹ نے مثال کے طور پر ہمارے نظامِ عدل کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔ اسی طرح قوانین کے بارے میں بات کی ہے۔ اپنے جواب سے دنیا کو مطمئن کرنے سے پہلے، ہمیں خودکو مطمئن کرنا ہے۔ اس کے بعد ہی ہم عالمی فورمز پرخود اعتمادی کے ساتھ اپنا دفاع کرسکتے ہیں۔
گلوبل ویلیج ایک نظامِ اقدارکے ساتھ وجود میں آچکا۔ چین نے اگرچہ عالمی معاشی نظام کے مطالبات بڑی حد تک تسلیم کرلیے ہیں مگر جمہوریت کے حوالے سے چین اس نظامِ اقدارکے ساتھ ہم آہنگی پیدا نہیں کرسکا۔ اس کے باوجود وہ اپنا وجود ثابت کرنے پر قادر ہے۔کیا ہم بھی یہ قدرت رکھتے ہیں؟ ہمیں اس پربھی غورکرنا ہوگا۔ چین کو جی ایس پی پلس (GSP+) سٹیٹس نہیں چاہیے مگر ہمیں اس کی ضرورت ہے۔
فرانس کے سفیر کے خلاف مہم جوئی کے نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔ یہ ہمارے لیے اب محض خارجہ پالیسی کا معاملہ نہیں رہا۔ اس کے تار سلامتی کے داخلی نظام سے جڑے ہوئے ہیں جو ہم نے قومی سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کیلئے قائم کیا۔ اب دیکھنا کہ ہمارے اربابِ بست و کشاد اپنی لگائی ہوئی ان گرہوں کو کیسے کھولتے ہیں۔