"KNC" (space) message & send to 7575

طاقتور کون؟

طاقت ور وہی ہے جس کا خلاف آواز اٹھ سکے نہ اس کا احتساب ہو سکے۔ ایک وفاقی وزیر کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے جو ایک معروف گدی نشین ہیں۔ کچھ تصاویر اور وڈیوز اس کے علاوہ بھی پھیلی ہوئی ہیں لیکن ان کا تذکرہ چند سطور بعد۔
موصوف لوگوں میں شفا تقسیم کر رہے ہیں۔ خواتین ان کے سامنے قطار میں کھڑی ہیں۔ پیر صاحب نے ہاتھ میں قینچی تھام رکھی ہیں اور ہر خاتون کے بالوں کی ایک لَٹ کاٹ رہے ہیں۔ ساتھ نذرانہ بھی وصول کیا جا رہا ہے۔ پیر صاحب خود ایک انگریزی سکول میں پڑھے ہیں۔ بزبانِ انگریزی خطاب فرمائیں تو فصاحت کے دریا بہا دیتے ہیں۔ ان کا اپنا بیٹا امریکہ میں پڑھتا رہا ہے اور وہاںکے سابق وزیرخارجہ سینیٹر جان کیری کے زیر سایہ امورِ جہاں بانی سیکھ رہا ہے۔ خان صاحب کے بعد، یہی صاحب برسرِ اقتدار سیاسی جماعت کے اہم ترین عہدیدار ہیں۔
یہ واحد گدی نشین نہیں جو سیاست و اقتدار میں شریک ہیں۔ دیگر دو بڑی جماعتوں کی صفوں پرنظر ڈالیں تواِن جیسے بہت سے مل جائیں گے۔ سندھ کی سیاست تو بالخصوص اِن سے بھری ہوئی ہے۔ ان سب کے بچے انگریزی اور مغربی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ یہ بیمار پڑ جائیں تو جدید ترین شفا خانوں کا رخ کرتے ہیں۔ ان کے ہاں تقریبات ہوتی ہیں توشرکا کو جدید تہذیب کے سارے رنگ وہاں نظر آتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر اور بھی ہیں۔ ریاستی اداروں کے مدارالمہام ان کے حضور میں پیش ہوتے اور نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اہم ریاستی فیصلوں اورلین دین کیلئے انہی روحانی مراکزکا انتخاب کیا جاتاہے۔ مقتدرہ کے لوگ ذاتی تقریبات میں ان کومدعو کرتے ہیں۔ ہر صاحبِ اختیارکو زوال ہے مگر ان کے اقتدار کو زوال نہیں۔ اب آپ بتائیے کی اس ملک میں اصل طاقت کس کے پاس ہے؟
ریاست کے پاس اِن کی احتساب کا کوئی نظام موجود نہیں۔ اقتدار دیدہ ہو یا نادیدہ، دنیاوی ہو یا روحانی، اس کا ایک مستقل مرکز ان کے آستانے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ان کو مزید طاقتور بناتی ہیں جب انہیں بڑے عہدے دیتیں اور اپنے ساتھ اقتدار میں شریک کرتی ہیں۔ ریاستی ادارے ان کے جاہ و حشم میں اضافہ کرتے ہیں جب ان کے آستانوں کو یکے از مراکزِ اقتدار مان کر ان کے ہاں حاضری دیتے اور ان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
یہ اس کا نتیجہ ہے کہ ریاست کا نظام ان قوتوں کے اتحاد کا یرغمال بن جاتا ہے جو عوام کے بنیادی مسائل کا سبب ہیں۔ یہی قوتیں مشاطگی کا سہارا لے کر اپنے خدوخال تبدیل کرتیں اور ایک نئے چہرے کے ساتھ بار بار برسرِ اقتدار آ جاتی ہیں۔ عوام اس کو تبدیلی سمجھتے ہیں، درآں حالیکہ سب نظرکا دھوکہ ہے۔ وہی محاورہ کہ پرانی شراب نئے لیبل کے ساتھ۔ سماجی اورریاستی قوت کے یہ مراکز، عوام کے خلاف متحد ہیں۔
یورپ میں بھی ایک اتحاد پایا جاتا تھا: بادشاہ، کلیسا اور جاگیرداراس کے اراکین تھے۔ معاشرہ ان قوتوں کا یرغمال بن چکا تھا۔ ان تینوں نے مل کر ایک استحصالی نظام قائم کیا اور عوام اس کا ایندھن بن گئے۔ پھر ایک وقت آیا کہ یہ زنجیریں ٹوٹنے لگیں۔ آج بادشاہ ایک علامت ہے اور عوام کے رحم و کرم پر ہے۔ کلیسا نے خودکو رضاکارانہ طور پر محدود کرلیا ہے۔ جاگیردار قصہ پارینہ ہوگیا۔
یہ سب کیسے ہوا؟ یورپ میں کچھ لوگ اٹھے جنہوں نے سماج کو سمجھا اور ان عناصرِ ثلاثہ کو بھی۔ پھرعوام کو ان کی ذہنی غلامی سے نجات دلانے کیلئے ایک تحریک اٹھائی۔ اس تحریک نے ایک شعوری انقلاب برپا کیا۔ غلامی سے آزادی کا پہلا مرحلہ ذہنی آزادی ہے۔ یہ طے ہوجائے توجسمانی آزادی کا راستہ نہیں روکا جاسکتا۔ یورپ میں یہی ہوا۔ دانش نے تبدیلی کی بنیاد رکھی۔ فطرت میں کارفرما عناصر نے پھراس عمل کی تکمیل کردی۔
علامہ اقبال نے بھی اس خطے کی اصل استحصالی قوتوں کی نشاندہی کردی تھی جب انہوں نے عام آدمی کو پیری، ملائی اور سلطانی کا کشتہ قراردیا۔ اقبال نے تنہا یہ کام کیا، جویورپ میں اہلِ دانش کی ایک سے زیادہ تحریکوں نے سرانجام دیا۔ علامہ اقبال کاکام لیکن جزوی کامیابی ہی حاصل کرسکا۔ انگریزوں کی سلطانی ختم ہوئی لیکن پیری اورملائیت نہ صرف ختم نہیں ہوئیں بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہوگئیں۔ جدید سلطانی نے قدیم سلطانی کی طرح انہیں مضبوط کیا۔ تاریخ میں جھانک کر دیکھ لیجیے! ایسے جاگیرداروں ہی کے آبائواجداد تھے جنہوں نے انگریزوں کو مقامی دست و بازو فراہم کیے۔
ہمارے خطے میں تاریخی عمل کا راستہ، آج تک تبدیل نہیں ہوا۔ ٹیکنالوجی وغیرہ کے آجانے سے آدابِ سماج توتبدیل ہوئے، فکرِ سماج نہیں بدلا؛ چنانچہ دیکھیے کہ یہاں کمپیوٹراور موبائل فون نے مذہبی انتہاپسندی اورپیری کے فروغ ہی میں کردارادا کیا۔ یہاں ریاست انتہا پسندوں کے دبائو میں آتی ہے تو موبائل بند کر دیتی ہے۔ کیوں؟ اس لیے یہ آلہ ان کا ہتھیار ہے۔ اب موبائل کے ذریعے 'چھو‘ کرکے شفا بانٹتی جاتی ہے۔
ہمارا دانشور تو الا ماشااللہ، یہ ادراک ہی نہ کرسکا کہ سماج اورریاست کی اصل قوت کا منبع کون ہے۔ وہ آج بھی سب سے کمزور طبقے کو سب سے زیادہ طاقتور سمجھتا ہے۔ یہ طبقہ سیاستدان ہے؛ چنانچہ دیکھیے کہ ہمارا نظامِ ریاست اگرکسی طبقے کا احتساب کرسکا ہے تووہ صرف سیاستدان ہے۔ یہ نظام اس پر قادر ہے کہ ایک سابق وزیر اعظم کو پھانسی چڑھا دے۔ دوسرے کو ہمیشہ کیلئے سیاست سے باہر کردے۔ یہ نظام مگر یہ قدرت نہیں رکھتاکہ طاقت کے کسی دوسرے مرکز پرقابض کا احتساب کرسکے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نظام کے پاس وہ سماجی یا قانونی آلات ہی نہیں جو پیری، ملائیت، سلطانی یا کسی دوسرے حقیقی مرکزِ اقتدار کواپنی گرفت میں لاسکے۔ پاکستان کی تاریخ کا سفر یہ بتاتا ہے کہ سیاستدانوں میں بھی وہ احتساب سے محفوظ رہ سکتے ہیں جن کا تعلق ان تین طبقات سے ہے یا ان میں سے کوئی ایک طبقہ ان کی پشت پرہے۔
جب تک ان قوتوں کے درمیان اتحاد (nexus) موجود ہے، اس ملک میں کسی مستقل اورحقیقی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ جزوی تبدیلی آسکتی ہے جیسے قیامِ پاکستان کی صورت میں آئی لیکن ہم جانتے ہیں کہ نظام کے حیلے وہی پرویزی رہے۔ حقیقی تبدیلی کیلئے ان قوتوں کی ذہنی غلامی سے آزادی پہلا مرحلہ ہے۔ یہ اہلِ دانش کا کام ہے۔ یہ طبقہ ابھی تک یہ دریافت نہیں کرپایا کہ مسائل کہاں سے پھوٹ رہے ہیں۔ اس کے فکری افلاس کا عالم یہ ہے کہ یہ نوازشریف، زرداری یا کرپشن کوملک کا سب سے اہم مسائل میں شمارکرتا ہے۔ اسے یہ جاننے میں معلوم نہیں کتنا وقت لگے گاکہ کرپشن کی ایک نہیں، کئی صورتیں ہیں اوریہ کہ کرپشن نتائج میں سے ہے، اسباب میں سے نہیں۔
حکمران جب یہ کہتے ہیں کہ طاقتور کو قانون کے سامنے سرنگوں کریں گے توان کے پیشِ نظرکوئی ایسا طبقہ نہیں ہوتا جودراصل طاقت کا منبع ہے۔ ان کا ہدف وہ ہوتے ہیں جو پہلے ہی قانون کی دسترس میں ہیں۔ جو طاقت کا منبع ہیں، وہ تو اُن کے دائرہ خیال سے بھی باہر ہیں۔ جب ہم یہی نہیں جانتے کہ طاقتور کون ہے تو اس حال میں کون سی تبدیلی اورکہاں کی تبدیلی؟
تبدیلی ایک ہمہ جہت سماجی عمل ہے۔ اس کاآغاز صحیح تجزیے سے ہوتا ہے اور یہ اہلِ علم ودانش کا کام ہے۔ مرض کے علاج کا پہلا مرحلہ درست تشخیص ہے۔ یہاں یہ عالم ہے کہ ٹی بی کے مریض کوکھانسی کا مریض بتایا جارہا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں