سوشل میڈیا نے اس حقیقت کو آخری درجے میں ثابت کر دیا ہے کہ تاریخ کبھی علم ِیقین کا فائدہ نہیں دیتی لہٰذا اس پر کسی ایسے مقدمے کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی جو جوہری طور پر علم ِیقین کا متقاضی ہے‘جیسے مذہب۔
سوشل میڈیا آج مختلف گروہوں کے ہاتھوں میں ایک ایسا آلہ ہے جسے وہ پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا کے شعبے بنا رکھے ہیں۔یہ اپنے راہنماؤں کے حق میں اور مخالفین کی کردار کشی کے لیے‘ من گھڑت واقعات پھیلاتے ہیں۔سماج میں موجود ان کے ہم نوا‘کسی تحقیق کے بغیر انہیں معلومات کا مصدقہ ذریعہ مان لیتے ہیں۔کچھ دنوں کے بعد وہ مسلمہ حقائق کے طور پرنقل ہونے لگتے ہیں۔یہاں تک کہ ان معلومات کی بنیاد پر کالم لکھے جاتے اور تقریریںکی جا تی ہیں۔
سوشل میڈیاپر یہ بتایاجاتا ہے کہ عمران خان انسانی تاریخ میں جنم لینے والے ایسے منفرد راہنما ہیں جن کی مثال ماضی میں موجود ہے اور نہ مستقبل میں پیدا ہونے کا کوئی امکان ہے۔اس کی تائید میں بہت سے واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔پھر یہ کہ ان کے مخالفین تاریخ کے بدترین لوگ ہیں۔ یہی سوشل میڈیایہ اطلاع بھی دیتا ہے کہ نوازشریف کو قدرت نے جس سانچے میں ڈھالاتھا‘اسے اپنے ہاتھ سے توڑ دیا۔اب ان جیسا لیڈر دوبارہ جنم نہیں لے گا۔ان کی مخالفت وہی کر سکتاہے جسے عقل چھو کر نہیں گزری۔ یہی معاملہ دوسرے سیاسی راہنماؤں کا بھی ہے۔
آج سوشل میڈیا پر سیاسی مقدمات کو ثابت کرنے کے لیے اکثرجن واقعات کا سہارا لیا جاتا ہے‘وہ اُس نسل کی زندگی میں پیش آئے جس سے میرا تعلق ہے۔گویا ہمارے آنکھوں دیکھے واقعات ہیں۔گویا ان کے عینی شاہد ابھی زندہ ہیں۔نواز شریف اور عمران خان کی سیاسی پیدائش ہماری نظروں کے سامنے ہوئی۔ان فرضی کہانیوں کو کروڑوں گواہوں کی موجودگی میں اس بے جگری سے پھیلایا جا تا ہے کہ آدمی کو اس دیدہ دلیری پر حیرت ہوتی ہے۔
کچھ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ یہ واقعات صحت کے ساتھ بیان ہو جائیں یا یہ بتا دیا جا ئے کہ یہ موضوع یعنی گھڑے گئے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود دو باتیں ناممکن ہیں‘ ایک یہ کہ سوشل میڈیاپربیان کردہ ہر واقعہ جرح وپڑتال کے مرحلے سے گزر جائے۔دوسرا یہ کہ یہ تنقیح یا جرح ہر اس آدمی کی نظر سے گزر جائے جس نے مبینہ واقعہ سن رکھا ہے۔ یوں ایسے بہت سے واقعات معاشرے میں پھیل جاتے ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔ یہی آنے والے دنوں میں تاریخ کی کتابوں کا حوالہ بن جائیں گے۔
یہ ایک ایسے دور میں ہو رہا ہے جب جانچ پڑتال کے بے شمارذرائع میسر ہیں اور کسی پر بات کہنے کی کوئی قدغن نہیں۔ذرا سوچیے کہ اُس دور کی تاریخ کتنی قابلِ بھروسا ہو گی جب تاریخ نگاری سرکاری سرپرستی میں کی جا تی تھی یا سچ تک رسائی کے لیے بہت محدود مواقع اور وسائل میسر تھے۔دور کیوں جائیں‘سرد جنگ کے دنوں میں سوویت یونین اور امریکہ نے دنیا کو اپنا ہم نوا بنانے کے لیے وسیع ابلاغی تحریکیں اٹھائیں۔ ہر اہم زبان میں ایسی کتب کی اشاعت ہوئی جن میں تاریخ کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے بیان کیا گیا۔ چونکہ یہ ایک نظریاتی جنگ تھی اس لیے ان نظریات سے متاثر لوگوں نے یہ تاریخ رضا کارانہ طور پر پھیلا نا شروع کر دی۔آج بھی ان کتب کے حوالے دیے جا تے ہیں۔
مذہب ایک ایسا موضوع ہے جو جوہری طور پر علمِ یقین کاتقاضا کر تا ہے۔ اسلام بھی ایک مذہب ہے۔یہ ایک دعوے پر کھڑا ہے۔تاریخ نے محمد ابن عبد اللہ (ﷺ)کو دیکھا کہ انہوں نے رسول اللہ ہونے کا اعلان کیا کہ وہ خدا کی بات انسانوں تک پہنچانے کے لیے مبعوث فرمائے گئے ہیں۔ اب یہ لازم ہے کہ انہوں نے جو بات من جانب اللہ بیان کی‘اس کے ابلاغ میں کوئی شک اور کوئی گمان حائل نہ ہو‘ یعنی رسول اللہﷺ سے اس کی نسبت یقینی ہو۔
یہ ممکن ہے کہ لوگ اس کے مشمولات سے اختلاف یا اس پر تنقید کریں جیسے اسلام مخالف کرتے ہیں۔ لیکن مذہب تقاضا کرتا ہے کہ اس بات کے رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت میں کوئی شک نہ ہو۔اس کی مثال قرآن مجید ہے۔دنیا نے اس کے مضامین پر تنقید کی لیکن علمی سطح پر یہ مانا ہوا مقدمہ ہے کہ قرآن مجید کے عنوان سے دنیا میں جو کتاب موجود ہے یہ وہی ہے جو سیدنا محمدﷺ پر نازل ہوئی۔علم کی دنیا میں جو لوگ اس سے اختلاف رکھتے ہیں‘ان کی تعداداتنی کم ہے کہ ناقابلِ التفات ہے۔اسی طرح سیدنا مسیح علیہ السلام پر بھی ایک کتاب نازل ہوئی ہے۔ آج یہ جس صورت میں موجود ہے‘لازم ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام سے اس کی نسبت اور تسلسل یقینی طور پر ثابت ہو۔یہ جس زبان میں نازل ہوئی‘اسی زبان میں ہمارے پاس موجود ہو۔اس پر اسی درجے کا اتفاق پایا جائے جیسا قرآن مجید پر پا یا جا تا ہے ۔مسیحیت کا مذہب ہونا متقاضی ہے کہ اس باب میں کوئی ابہام نہ ہو۔
مسلمانوں میں پائی جانے والی فرقہ واریت کا تعلق تاریخ سے ہے۔ تاریخ بھی وہ جو ایک ایسے دور میں لکھی گئی جب ایک خاندان کی حکومت تھی جو ایک دوسرے خاندان کو شکست دے کر اقتدار پر قابض ہوا تھا۔اب یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ اس دور میں لکھی جانے والی تاریخ کتنی قابلِ بھروسا ہے اور اس سے حاصل ہونے والی معلومات ‘کیا کسی مذہبی مقدمے کی بنیاد بن سکتی ہیں؟
یہ ایسی بدیہی بات ہے کہ ہر دور میں اہلِ علم کوتاریخ اور واقعات نگاری کی اس کمزوری کا شعور رہا ہے۔یہ اسی شعور کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ہاں علمِ حدیث کی روایت نے جنم لیا۔محدثین نے روایت کو قبول کرنے کے لیے جرح و تعدیل کے اصول مرتب کیے۔ان کو استعمال میں لاتے ہوئے زیادہ روایات کو مسترد اورکم کو قبول کیا۔بہت سی ناقابلِ بھروسا روایات آج بھی کتابوں میں نقل ہوتی ہیں لیکن اہلِ علم نے ان پر یہ حکم بھی لگا دیا کہ یہ لائقِ التفات نہیں۔
اس محنت کے باوجود‘کیا یہ کہا جا سکتا کہ آج روایات اورتاریخ کے عنوان سے جو کچھ موجود ہے‘وہ اتنا قابلِ اعتبار ہے کہ اس سے علمِ یقین حاصل ہو سکتا اور یوں اس کی بنیاد پر کوئی مذہبی مقدمہ قائم یا رد کیا جا سکتا ہے؟اس کا جواب اہلِ علم دیتے آئے ہیں۔ جیسے اس بات کو بطور اصول مانا گیا کہ خبر ِواحد سے ظنی علم حاصل ہوتا ہے‘یقینی نہیں۔تاہم عام آدمی اس بات سے مرعوب ہو جا تاہے کہ فلاں بات تو فلاں قدیم کتاب میں لکھی ہوئی ہے ‘لہٰذا اسے مانے بغیر کوئی چارہ نہیں۔عام آدمی کی اس غلط فہمی کو سوشل میڈیا نے دور کر دیا ہے۔سوشل میڈیا نے بتا دیاہے کہ واقعات کیسے گھڑے اور کیسے پھیلائے جاتے ہیں۔واقعات نگاری کے پسِ پردہ کون کون سے مقاصد کارفرماہوتے ہیں اور کیسے یہ مقاصد سیاسی اور گروہی مفادات سے آلودہ ہوتے ہیں۔اب ایک عام سمجھ بوجھ والا بھی‘جو کسی پروپیگنڈامہم کا حصہ نہیں‘ جانتا ہے کہ کوئی ذمہ دار آدمی اپنے تجزیے کی بنیاد سوشل میڈیاپر نہیں رکھ سکتا‘الا یہ کہ ان معلومات کو کسی دوسرے ذریعے سے پرکھ نہ لے۔
دنیا سیکھنے کی جگہ ہے۔افسوس ان پر جو اِس عبرت کدے میں جیتے ہیں مگر سبق حاصل نہیں کرتے۔خاص طور پر وہ فرقہ پرست جو تاریخی اور غیر مصدقہ کہانیوں کی بنیاد پر مذہبی مقدمات قائم کرتے ہیں‘یہ جانے بغیر کہ مذہب علمِ یقین کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کی بنیاد ظن پر نہیں رکھی جا سکتی۔