دین کی روایت کو رطب و یابس سے محفوظ رکھنے کیلئے‘ ہمارے محدثین اور اہلِ علم نے جو خدمت سرانجام دی‘ اس کی قدروقیمت کو کوئی سمجھنا چاہے تو دورِ حاضر کے سوشل میڈیا پر ایک نظر ڈال لے۔
میں نے گزشتہ کالم میں اسی بات کو بیان کیا اور یہ بتایا کہ دین اگر آج بھی پوری طرح محفوظ ہے اور اس کی سند اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ سے بغیر کسی انقطاع کے مل جاتی ہے تو دراصل یہ اس احتیاط کا ثمر ہے جو ہمارے جلیل القدر اکابر نے اپنائی۔ یہ اسی محنت کا نتیجہ ہے کہ ہمیں دین کے باب میں علم ِیقین حاصل ہے جس میں ظن اور گمان شامل نہیں۔ یہ ہمارا ایسا امتیاز ہے جس پر ہم فخر کر سکتے ہیں۔ آج ایک طرف علم ِحدیث کی پاکیزہ روایت ہے اور دوسری طرف گروہی مفادات سے آلودہ سلسلہ ہائے وہم وگمان۔
یہ موضوع اتنا اہم ہے کہ محض ایک کالم اس مقصد کیلئے کفایت نہیں کرتا۔ سوشل میڈیا سے چونکہ شَر کا مسلسل صدور ہورہا ہے‘ اس لیے ضروری ہے کہ خیروشر کا یہ امتیاز لوگوں پر واضح ہوتا رہے۔ خیر جو ہماری علمی روایت کی صورت میں محفوظ ہے اور شر جو سوشل میڈیا سے پھیلایا جا رہا ہے۔ یہ اس لیے بھی لازم ہے کہ سوشل میڈیا محض سیاسی بحثوں کا فورم نہیں‘ یہ دینی مباحث کا مرکز بھی بن چکا ہے۔
سوشل میڈیا دو کام کرتا ہے: ایک یہ کہ کسی گروہ کے مفادات کی آبیاری کیلئے‘ یہ پروپیگنڈے کا ایک آلہ ہے۔ اس کی مدد سے ایک بیانیے کو فروغ دیا جاتاہے اورانسانی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے‘ اس کا ذہنی اور جذباتی استحصال کیا جاتا ہے۔ جدید اصطلاح میں اس کو 'پوسٹ ٹروتھ‘ بھی کہتے ہیں۔ واقعات کی ایک ایسی من پسند تعبیر جس پر حقیقت کا گمان ہو۔دوسرا کام جو سوشل میڈیا کرتا ہے‘ وہ بغیر تحقیق کے خبروں کی اشاعت اور تشہیر ہے۔ خبر دینے والا کون ہے؟ ذریعہ کتنا معتبر ہے؟ اس کو کسی بات کا لحاظ نہیں۔ اگر 'خبر‘ کے عنوان سے پھیلنے والی کوئی بات میرے خیالات یا بیانیے سے ہم آہنگ ہے تو میں اس کی تشہیر میں عجلت کروں گا اور یہ جاننے کی کوشش نہیں کروں گا کہ اس کا ماخذ کیا ہے؟ یوں سوشل میڈیا جھوٹ کے پھیلاؤ کا ایک آلہ ہی نہیں‘ ایک ایسے کلچر کے فروغ کا باعث بھی ہے جو انسانوں کو سچ اور جھوٹ کی تمیز سے بے نیاز کر دیتا ہے۔
یہ کام ماضی میں بھی ہوتا تھا مگر باندازِ دگر۔ لوگ جھوٹی روایات اور واقعات گھڑ کر پھیلاتے اور یوں گروہی مفادات کی آبیاری کرتے تھے۔ ہمارے محدثین نے جب یہ رجحانات دیکھے تو انہیں اس خدشے نے آ لیاکہ ان روایات اور واقعات کی اگر چھان پھٹک نہ کی گئی تو آنے والے دنوں میں لوگ اسے دینی روایت کے طور پر قبول کرلیں گے؛ چنانچہ انہوں نے دوباتوں کا اہتمام کرنا شروع کیا‘ ایک یہ کہ اس راوی کے حالات کا جائزہ لیا جائے جو کوئی خبر دے رہا ہے‘ کیا اس کا شخصی کردار اور ذہنی سطح ایسی ہے کہ اس کی روایت پر بھروسہ کیا جا سکے؟ اس سوچ نے اسماء الرجال کے عظیم الشان علم کو جنم دیا۔
محدثین نے اس پر ہی اکتفا نہیں کیا‘ انہوں نے نفسِ مضمون کے اعتبار سے بھی روایت کو پرکھنے کا بندوبست کیا۔ اس کے معیارات مقرر کیے‘ جیسے جو روایت قرآن مجید کے خلاف ہوگی‘ اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس علم پر بہت کتابیں لکھی گئیں۔ مثال کے طور پر خطیب بغدادی کی ''الکفایہ فی معرفۃ اصول علم الروایہ‘‘۔ محدثین نے ان سیاسی‘ سماجی اور نفسیاتی محرکات کا کھوج لگایا جو روایات گھڑنے کا باعث بنے۔ اسی طرح یہ بتایا کہ فضائل کی روایت کو کس اصول پر پرکھا جائے گا اور قانونی مضامین کی حامل روایات کیلئے کیا معیارات ہوں گے؟
اس فرق پر علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں علمی بحث کی ہے اور اسے مزید نکھارا ہے۔ ایک فقہا کا ذہن چونکہ قانونی ہوتا ہے‘ اس لیے فقہا نے روایات کو اپنی نظر سے دیکھا اور روایت کی قبولیت کیلئے اپنے معیارات مقرر کیے۔ اس طرح محدثین کے ساتھ علمِ روایت کے باب میں جو خدمت فقہا نے سرانجام دی‘ وہ بھی کم اہم نہیں ہے۔ فقہا اور محدثین‘ دونوں کے اصولوں کو سامنے رکھا جائے تو معلوم کیا جا سکتا ہے کہ دین کو رطب و یابس سے محفوظ رکھنا‘ ہمارے اسلاف کا کتنا بڑا کارنامہ ہے۔
یہی معاملہ تاریخ کا بھی ہے۔ اس میں اگرچہ احتیاط کی وہ صورت ہمیں دکھائی نہیں دیتی جو علمِ حدیث میں نظر آتی ہے؛ تاہم مورخین نے اس دیانت کا ضرور مظاہرہ کیا کہ اس بات کو چھپایا نہیں۔ مسلم تاریخ کے باب میں طبری کو اہم ترین ماخذ سمجھا جاتا ہے۔ طبری نے اپنی تاریخ کے مقدمے ہی میں یہ واضح کر دیا کہ ان تک جس طرح روایات پہنچیں‘ انہوں نے بغیر کسی جرح کے انہیں نقل کر دیا۔ گویا ان روایات کی سچ اور جھوٹ کی ذمہ داری نہیں اٹھائی۔ تاریخ کے باب میں روا رکھی گئی‘ اس بے احتیاطی نے مسلمانوں میں فرقہ واریت کے بیج بونے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ حدیث اور تاریخ کے فرق کو اگر سامنے رکھا جائے تو فرقہ واریت سے بڑی حد تک بچا جا سکتاہے۔
آج سوشل میڈیا نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے اس کارنامے کی قدر کریں اور یہ جانیں کہ اگر وہ یہ محنت نہ کرتے تو آج دین کی حقیقت تک رسائی کتنی مشکل ہو جاتی۔ اگر جرح و تعدیل کا یہ عمل نہ ہوتا تو سنگ ریزوں اور نیلم والماس میں تمیز کتنی مشکل ہو جاتی۔ مسلمانوں کو اگرچہ اس باب میں مشیتِ ایزدی بھی حاصل رہی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری خود اٹھائی۔ صرف متن ہی کی نہیں‘ اس کو جمع کرنے‘ پڑھانے اور بیان کرنے کا بھی اہتمام فرمایا۔ مسلمانوں میں حفظِ قرآن کی روایت نے اس اندیشے کو ختم کر دیا کہ اللہ کی کتاب میں کوئی تحریف ہو سکے۔ اسی لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید اس امت کا قولی تواتر ہے۔
یہی معاملہ دین کے دوسرے ماخذ سنت کا بھی ہے۔ نبی کریمﷺ چونکہ اللہ کے آخری رسول تھے‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے دین ابراہیمی کی پوری روایت کو آپﷺ کی سنت کی صورت میں اس طرح مجسم کر دیا کہ آپﷺ کی ذاتِ والا صفات اس روایت کا واحد اور مستند ترین حوالہ بن گئی۔ آپﷺ نے ملتِ ابراہیم کی نہ صرف پیروی کی بلکہ اس میں اضافہ فرمایا اور اس کو جاری کر دیا۔ اسی لیے قرآن مجید نے واضح کر دیا کہ دینِ ابراہیمی کے وارث آپﷺ اور آپؐ پر ایمان لانے والے ہیں۔ اس سنت پر امت تواتر کے ساتھ عمل کرتی آئی ہے۔ گویا قرآن اگر قولی تواتر ہے تو سنت عملی تواتر۔
سوشل میڈیا آج صرف سیاست ہی نہیں‘ مذہبی مباحث پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ گویا یہ مذہب کو جاننے کا بھی ایک ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کی طرف رجوع کرتے وقت‘ ہم اپنے اسلاف کی روایت کو پیشِ نظر رکھیں کہ جنہوں نے اپنے اپنے عہد کے ایسی غیر ذمہ دارانہ رویوں کو دین کی صحت پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔ ہمیں اگر سوشل میڈیا پر دین کے باب میں کوئی بات ملتی ہے تو لازم ہے کہ محدثین اور فقہا کے طریقے پر‘ اسے موضوع اور ضعیف روایات سے الگ کر کے دیکھیں۔ یہ رویہ جہاں ہمارے دل میں محدثین فقہا‘ علمِ حدیث اور علمِ فقہ کی حقیقی قدروقیمت پیدا کرے گا‘ وہاں دین کی وہ روایت بھی متاثر نہیں ہوگی جو علمِ یقین پر کھڑی ہے اور یہ تسلسل صدیوں سے قائم ہے۔