مریم اور بلاول کیسے لیڈر بن گئے؟
لیڈر بننے کیلئے کیا یہ کفایت کرتا ہے کہ آپ کا باپ یا آپ کی ماں لیڈر ہو؟ کیا لیڈر بننے کیلئے کسی اوراہلیت کی ضرورت نہیں؟ کیا دنیا میں لیڈراسی طرح بنتے ہیں؟ تاریخ کیا کہتی ہے؟ معاصر معاشروں کا تجربہ کیا ہے؟ کیا لیڈر پودوں کی طرح کیاریوں میں اگائے جا سکتے ہیں؟ یہ ایک ہی مضمون ہے جسے بہت سے سوالات کی صورت میں باندھا جا سکتا ہے؟
بادشاہت میں قیادت کوموروثی سمجھاجاتا تھا۔ اس کے علاوہ سیادت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ یہ ممکن تھاکہ کوئی غیرمعمولی صلاحیت کا حامل ایوانِ اقتدار تک جا پہنچے اوراسے بادشاہوں کا اتنا قرب حاصل ہو جائے کہ وہ زمامِ کار اس کے ہاتھ میں تھما دیں۔ ایسی صورت میں بھی اصل اقتدار بادشاہ ہی کے ہاتھ میں ہوتا تھا‘ حکومت کا عوامی چہرہ وہی تھا۔ ابومسلم خراسانی کو بنو عباس کی حکومت کا حقیقی بانی سمجھا جاتا ہے۔ عجم کے ایک بڑے حصے کو اسی نے عباسیوں کے اقتدار کیلئے قائل کیا۔ اس کا اثرورسوخ تو رہا لیکن اقتدار اسے نہیں ملا، یہاں تک کہ عباسیوں ہی کے ہاتھوں مارا گیا۔ اقتدار مدتوں بنو عباس کی وراثت بنارہا۔
ایسا کیوں ہوتا تھا؟ ابنِ خلدون نے اس کا کھوج لگایا۔ انہوں نے علمِ تاریخ کی روشنی میں یہ بتایا کہ یہ عصبیت ہے جو مستحکم اقتدارکی بنیاد بنتی ہے۔ جب کسی قبیلے یا گروہ کو عصبیت حاصل ہو جائے توپھر اقتدار خودبخود اس کے گھر پہنچ جاتا ہے۔ بنو عباس کو جب بنو ہاشم (اہلِ بیت) کی عصبیت منتقل ہوئی تو وہ ان کے اقتدار کی بنیاد بن گئی۔ ابومسلم خراسانی جتنا بھی باصلاحیت کیوں نہ ہو، ان کواقتدار دلواتو سکتا تھا، خود حکمران نہیں بن سکتا تھا۔
اس کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ محض عصبیت اقتدار کے لیے کافی ہوتی تھی۔ صلاحیت اور اہلیت تو ہر کام کیلئے ناگزیر ہے۔ اس کا اطلاق سیاست پربھی ہوتا ہے۔ اہلیت ہو لیکن عصبیت نہ ہوتو اقتدار نہیں ملتا تھا۔ عصبیت ہو‘ لیکن اہلیت نہ ہوتو اقتدار مل سکتا تھا لیکن اسے استحکام نہیں تھا۔ امام زین العابدینؓ سیاست کے آدمی نہیں تھے۔ کربلا کے سانحے کے بعد انہوں نے سیاست میں کوئی دلچسپی نہ لی۔ سیاست کا عَلم سیدنا حسینؓ کے غیر فاطمی بھائی، محمد بن حنفیہ نے تھام لیا۔ یوں اہلِ بیت کی سیاسی قیادت بنو فاطمہ سے علویوں کے پاس چلی گئی اور ساتھ ہی ان کی عصبیت بھی۔ ان کے بعد ان کا بیٹا ابوہاشم عبداللہ علمبردار بنا۔ جب انہیں مرض الموت نے آلیا تو ان کے پاس حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کے پوتے محمد بن علی کے سوا کوئی نہ تھا۔ ابو ہاشم نے ان کواپنا جانشین بنادیا۔ یوں بنو ہاشم کی عصبیت بنو عباس کو منتقل ہوگئی۔
بنو عباس کی حکومت قائم ہوگئی تو محبانِ اہلِ بیت نے ایک بار پھر کوشش کہ یہ اقتدار انہیں مل جائے کہ بنو عباس کااقتدر جس عصبیت پر قائم ہے، اس کے اصل وارث وہی ہیں۔ کوئی اس کو سمجھنا چاہے تو اس خط و کتاب کو دیکھ لے جو عباسی حکمران ابوجعفر منصور اور بنو فاطمہ کے فرزند نفس زکیہ کے مابین ہوئی۔ اس تاریخ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عصبیت اقتدار کی بنیاد رکھتی ہے مگر یہ صلاحیت ہے جواسے پُرشکوہ عمارت میں بدل دیتی ہے۔
عصبیت اچھی یا بری نہیں ہوتی۔ یہ ایک سماجی و سیاسی عمل کاظہور ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک معاشرے میں کسی فردکو تاریخی یا سماجی عوامل کے نتیجے میں ایک عمومی اعتماد حاصل ہوجاتا ہے۔ عوام کی اکثریت جب اسے معتبر مان لیتی ہے توسیادت و حکومت اسے منتقل ہوجاتی ہے۔ اس سے سماجی استحکام پیدا ہوتا ہے۔ اقتداراگر ان اہلِ سیاست کودے د یا جائے جنہیں عوامی تائید میسر نہ ہو یا جنہیں کیاریوں میں اگایا گیا ہوتو پھرحکمرانوں اور عوام کے مابین اعتبار کا وہ رشتہ قائم نہیں رہ سکتا جو سیاسی استحکام کیلئے ناگزیر ہے۔
یہی وہ حقیقت تھی جسے رسالت مآبﷺ نے بیان فرمایا کہ عربوں کے امام و راہنما قریش میں سے ہوں گے۔ آپﷺ کا یہ ارشادگرامی ہی سقیفہ بنی ساعدہ میں قولِ فیصل قرار پایا اورمہاجرین وانصار سیدنا ابوبکرؓ کی قیادت پر متفق ہوگئے۔ تاریخ نے اس فرمانِ رسولﷺ کی حکمت پر مہرِ تصدیق ثبت کردی۔ آپﷺ نے دراصل کوئی دینی حکم نہیں دیا تھا بلکہ ایک بدیہی سماجی حقیقت کی طرف متوجہ کیا تھا۔
برصغیر میں جب تحریکِ خلافت برپا ہوئی تو یہ بحث چل نکلی کہ عثمانیوں کا حقِ اقتدار شرعی طورپر ثابت ہے یا نہیں۔ اس روایت کی بنیادپر ایک رائے یہ تھی کہ عثمانی یہ حق نہیں رکھتے۔ اس کے برخلاف مولانا ابوالکلام آزاد نے عثمانیوں کے حق میں رائے دی اورتائید میں اپنا دینی استدلال پیش کیا۔ بعد میں مولانا مودودی نے بھی اس پرقلم اٹھایا۔ اس بحث کاحاصل یہ تھاکہ نبیﷺ نے کوئی دینی حکم نہیں دیا تھا۔ یہ سیاسی حکمت کا بیان تھا یاپھر آنے والے دنوں کی خبر تھی۔
ایک معاشرے میں سیاسی استحکام اسی وقت آسکتا ہے جب اقتدار ان ہاتھوں میں ہوجنہیں اکثریت کا اعتماد یا ابن خلدون کے الفاظ میں عصبیت حاصل ہو۔ اب یہ عصبیت لازم نہیں کہ ہمیشہ باقی رہے۔ یہ ایک سے دوسرے قبیلے یاگروہ کو منتقل ہوسکتی ہے۔ ریاست کواستحکام کیلئے ایک مرکزِ وحدت کی ضرورت ہوتی ہے اوربادشاہ دراصل اسی ضرورت کوپورا کرتا تھا‘ یا یوں کہیے کہ قومی عصبیت کی علامت تھا۔
یہ معاملہ صرف مسلم معاشرے کے ساتھ خاص نہیں۔ یورپ میں، جہاں بادشاہ تھے، وہاں بادشاہت کے خاتمے کے بعد، جمہوریت کی موجودگی میں بھی، بادشاہ کی ضرورت باقی رہی۔ پارلیمانی جمہوریت کی ماں برطانیہ میں آج بھی بادشاہت موجود ہے۔ یہی بادشاہت ملائیشیا جیسے مسلمان جمہوری ملک میں بھی ہے۔ چند ماہ پہلے جب ملائیشیا ایک بڑے سیاسی بحران میں مبتلا ہوا تو یہ بادشاہ تھا جس کی مداخلت نے، ملک کو بحران سے نکالا۔
دورِ جدید میں قبیلے نہیں رہے۔ ان کی جگہ سیاسی جماعتوں نے لے لی۔ اب جس جماعت کو عوام کی اکثریت یا دوسرے الفاظ میں عصبیت حاصل ہوجائے، اقتدار اسے منتقل کردیا جاتا ہے۔ یہی جمہوریت ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ سیاسی و سماجی استحکام اسی وقت میسر آسکتا ہے جب عوام یا اکثریت کا اہلِ اقتدار کے ساتھ اعتبار کا رشتہ قائم ہو۔ سیاسی جماعتوں میں بھی اسی اصول پر قیادت ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو منتقل ہوتی ہے۔ عصبیت کا ایک خاندان میں رہنا فطری ہے تاہم ہمیشہ کی طرح یہ عصبیت اس وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب اس کا امانتدار، عوام کی نظر میں اس کو سنبھالنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو۔ گویایہ فیصلہ عوام کرتے ہیں کہ کون قیادت کا اہل ہے۔
اگر آج مریم یا بلاول کوپارٹی کی قیادت منتقل ہوئی ہے تواسی اصول پر۔ بنیاد تووالد اور والدہ کی عصبیت ہے لیکن اپنی اہلیت کوثابت کرنا ان کا کام ہے۔ ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ نون لیگ میں سب سے مقبول مریم ہیں اور پیپلزپارٹی میں بلاول۔ جو لوگ سیاسی حرکیات کا زیادہ علم نہیں رکھتے، وہ اسے موروثی سیاست کا نتیجہ قراردیتے ہیں۔ موورثی سیاست وہ ہوتی ہے جہاں کوئی عوام کے سر پربزور اس وجہ سے مسلط کردیا جائے کہ کل اس کا باپ بادشاہ یا حکمران تھا اوروہ خود اس کی اہلیت نہ رکھتا ہو۔
مریم، بلاول یا مولانا فضل الرحمن کی قیادت کسی کالم نگار یا ٹی وی اینکر کی محنت کا ثمر نہیں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ اُن لوگوں کی اکثریت نے انہیں بطور راہنما قبول کیا جنہوں نے کل ان کے والدین میں سے کسی کوراہنما مانا تھا۔