کیا ایک نئی سیاسی جماعت پاکستان کو درپیش مسائل کا حل ہے؟
ملک کے بارے میں فکر مند رہنے والے لوگ کچھ عرصے کے بعد ‘اس تصور کو زندہ کرتے ہیں کہ ہماری روایتی سیاسی جماعتیں‘ درپیش مسائل کے حل میں ناکام رہی ہیں۔اس لیے ایک نئی جماعت کی ضرورت ہے۔اسی خیال نے تحریکِ انصاف کو جنم دیا اور عمران خان صاحب کو ایک طبقے میں پذیرائی ملی۔ان کی کارکردگی کو دیکھنے کے بعد‘ اب لوگ پھر اس تصور کا احیا کرر ہے ہیں۔اس لیے ضرورت ہے کہ اس تجویز کا سنجیدہ تجزیہ ہو۔
ہر سیاسی جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو پارٹی وابستگی سے ماورا احترام کے مستحق سمجھے جا تے ہیں۔لوگ ان کی دیانت پر اعتبار کرتے ہیں۔بعض یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ اگر یہ سب لوگ ایک جماعت میں جمع ہو جائیں تو ہمیں وہ 'صاف ستھری‘ قیادت میسر آ سکتی ہے جو ملک کو ایک شفاف سیاست دے۔ایسا کبھی نہیں ہو سکا۔اس بحث میں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ یہ کیوں نہیں ہو سکتا؟
اس ضمن میں دو باتوں کی تفہیم ضروری ہے۔ایک یہ کہ سیاسی جماعتیں خلا میں نہیں بنتیں۔دوسرا یہ کہ اقتدار اُن کی منزلِ مراد ہو تی ہے۔پہلی بات کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں سماج کے ا خلاق کا پرتو ہوتی ہیں۔ سیاسی ادارے‘جن میں سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں‘سماجی اخلاقیات کا عکس ہوتے ہیں۔یہ نہیں ہو سکتا کہ سماج کے تمام طبقات جن میں علما‘ اساتذہ اورصحافی شامل ہیں‘اخلاقیات کو بنیادی اہمیت نہ دیں اور سیاست دان تزکیہ نفس کے آخری مراحل طے کرجائیں۔لوگ جن معاشروں کی مثال دیتے ہیں‘انہوں نے پہلے سماجی تطہیر کا مرحلہ طے کیا‘اس کے بعد ان کی سیاسی تطہیر ممکن ہوئی۔دوسری بات کی شرح یہ ہے کہ زمینی حقائق سے مطابقت پیدا کیے بغیر اقتدار نہیں ملتا۔
سماج کو اخلاقی طور پر حساس بنائے بغیر ‘ایسی سیاسی جماعت وجود میں نہیں آ سکتی جو اعلیٰ اخلاقیات کی مظہر ہو۔تحریکِ انصاف کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جیسے ہی وہ اقتدار کے حصول کیلئے سنجیدہ ہوئی‘ اسے ایک روایتی سیاسی جماعت میں تبدیل ہو نا پڑا۔جہانگیر ترین صاحب نے ایک ٹی وی انٹر ویومیں اس بات کا کریڈیٹ لیا ہے کہ پارٹی میں یہ سوچ انہوں نے پیدا کی جب قیادت کو یہ باور کرایا کہ روایتی سیاست دانوں کی تائید حاصل کیے بغیر‘اقتدار تک نہیں پہنچا جا سکتا۔جوماضی میں سیاسی جماعتوں کی کامیابی کا سبب بنے ہیں‘وہی ہماری کامیابی کا باعث بنیں گے۔خان صاحب نے اس کو مان لیا۔
روایتی سیاست دانوں کی شمولیت کے ساتھ‘ آپ اس میں روایتی سیاسی ہتھکنڈے بھی شامل کر لیں۔جیسے ان قوتوں کی تائید جو ماضی میں اقتدار کے بناؤ اور بگاڑ میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ جب وہ تمام عوامل جمع ہوگئے جو ‘ایک آدھ استثنائی واقعے کے ساتھ‘ ہمیشہ سے کسی سیاسی جماعت کی کامیابی کی ضمانت تھے تو اقتدار کا پھل تحریکِ انصاف کی جھولی میں آ گرا۔اب تحریک انصاف بھی ویسی ہی ایک جماعت ہے جیسے دوسری۔کچھ خوش گمان آج بھی خان صاحب کے استثنا کے قائل ہیں۔حالانکہ تحریکِ انصاف ان کی مرضی کے بغیر روایتی سیاسی جماعت نہیں بن سکتی تھی۔
تحریکِ انصاف کا تجربہ ایک بار پھر ثابت کر رہا ہے کہ نئی سیاسی جماعت کا تصور ایک خام خیال ہے۔اگرہم سماجی حقائق کو تبدیل کیے بغیراس تجربے کو دہرائیں گے تو اس کا نتیجہ ماضی کے برعکس نہیں نکل سکتا۔ جس سماج میں ایک رنگ روڈ کے منصوبے میں ہونے والی کرپشن‘آئین شکنی سے زیادہ اہم مسئلہ ہو‘اس میں احترام ِ قانون پر مبنی کوئی سیاسی نظام وجود میں نہیں آسکتا۔اسی طرح جہاں اختلافِ رائے کو بطورِ قدر نہ مانا جا تا ہو‘وہاں کے سیاسی نظام میں جمہوریت اپنے نتائج نہیں دکھا سکتی۔
جو لوگ سیاست کی تطہیر کے بارے میں سنجیدہ ہیں‘انہیں سماجی تبدیلی کو اپنی سعی و جہد کامحوربنانا چاہیے۔اس مقصد کیلئے ایک تحریک برپا کرنی چاہیے۔ایسی تحریک ‘ جس میں سماج کے تمام قابلِ ذکر طبقات شامل ہوں۔چند دن پہلے سپریم کورٹ بار کونسل نے جو سیمینار منعقد کیا‘وہ اسی نوعیت کی ایک کوشش تھی کہ عوام میں آئین ا ور اختلافِ رائے کے باب میں حساسیت پیدا کی جائے۔اگر تمام سماجی طبقات اس تحریک کا حصہ بن سکیں تو عوامی شعور کی ایک بڑی تحریک اٹھ سکتی ہے۔اس کے مقاصد ظاہر ہے کہ کسی کو اقتدار تک پہنچانا یا اتارنا نہیں بلکہ اس عزل و نصب کے عمل کو آئین کے تابع بنانا ہے۔
تاہم‘سیاست ایک مسلسل عمل ہے۔اسے سماجی تبدیلی کی آمد تک مؤخر نہیں کیا جا سکتا۔اسے جاری رہنا ہے اوریہ مروجہ سیاسی و سماجی روایات کے تحت ہی جا ری رہے گا۔اس سیاسی عمل کو ممکن حد تک بہتر بنانے کی ضرورت ہے تا کہ سیاسی و قومی زوال کو کسی حد تک روکا جا سکے۔اس جاری عمل میں دو باتیں اہم ہیں۔ایک سیاسی جماعتیں اور دوسرا انتخابات۔
اگر سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام میں جمہوریت نہ ہو اورملک میں جمہویت لانے کا دعویٰ اپنی اخلاقی قوت کھو دیتا ہے۔ اسی طرح اگرکسی سیاسی جماعت کا منشور جمہوری روایات اور احترام آئین کے تصورات سے خالی ہو تو وہ مقتدر طبقات کی ا یجنٹ بن کر رہ جاتی ہے۔اس کے ساتھ اگر انتخابی عمل میں دھاندلی کے امکانات مضمر ہوں توپھر پورا امکان ہے کہ ہم اس سے زیادہ سنگین سیاسی اضطراب میں مبتلا ہو جائیں جس کا ہم پانچ سال سے شکار ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ مجوزہ انتخابی اصلاحات کو تمام اہم سیاسی جماعتوں کو تائید حاصل ہو۔ اس کے بغیر اس پر اعتماد پیدا نہیں ہو گا۔ اگر قومی اتفاقِ رائے کے بغیر اس کو نافذ کرنے کی کوشش ہوئی تواس سے مایوسی بڑھے گی اور ملک سیاسی بے چینی کی نذ ر ہو جا ئے گا۔ آج کی سیاست کو بہتر بناننے کی یہی دو صورتیں ہیں: سیاسی جماعتوں کے طرزِ عمل اور موقف میں زیادہ سے زیادہ شفافیت کے ساتھ جمہوری قدروں کا احترام اور قومی اعتماد کا حامل انتخابی عمل۔
نئی سیاسی جماعت ہمارے کسی مسئلے کا حل نہیں۔ اگر وہ سماجی حقائق سے بے نیاز ہو گی تو اقتدار تک نہیں پہنچ پائے گی اوریوں اپنی افادیت کھو دے گی۔ اگر زمینی حقائق سے مطابقت پیدا کر کے اقتدار تک پہنچ گئی تو وہی کچھ ہوگا تو تین سال سے ہو رہا ہے۔ وہی لوگ ایک بار پھر‘ایک نئی سیاسی جماعت کے بینر تلے حکومت کا حصہ ہوں گے۔
میری رائے یہ ہے کہ اس وقت جو سیاسی نظام موجود ہے‘اسے جاری رکھا جائے اوراسے بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔کسی ہمہ گیر اور بڑی تبدیلی کیلئے سماجی تبدیلی پر تمام توجہ مرتکز کر دی جائے۔یہ کب ثمر بار ہو‘یہ طے کرنا شاید مشکل ہو۔یورپ کو اس کیلئے صدیوں انتظار کرنا پڑا۔دنیا میں آنے والی تبدیلوں نے مگر ہمارے لیے آسانی پیدا کر دی ہے۔میرا احساس ہے کہ اگرایک عشرے تک یکسو ہو کر سماجی تبدیلی کی کوشش کی جائے تو سیاسی نظام اس کے نتیجے میں‘بغیر کسی اضافی کوشش کے‘شفاف ہو جا ئے گا۔
سیاسی عمل کی تفہیم کیلئے تاریخ اور سماجی علوم کا علم ناگزیر ہے۔اس کے بغیر تجزیہ کیا جائے گا تو یورپ کی مثالوں کو پاکستان پر منطبق کریں گے۔اس سے صرف خلطِ مبحث پیدا ہوگا۔عمران خان صاحب نے اپنی انتخابی مہم میں یہی کیا۔اب لوگ ان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ بھی سائیکل پراپنے دفتر جایا کریں۔زمینی حقائق کا مطالبہ بالکل دوسرا ہے۔اس لیے خاموشی کے سوا ان کے پاس کوئی جواب ہے نہ ان کے حامیوں کے پاس۔