ایک خلا ہے جو بڑھ رہا ہے۔ بظاہر سب کچھ ہے مگر وہی نہیں ہے جو لازم تھا۔
میڈیا میں سیاست کا غلبہ ہے۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ غلبے کا مگر یہ مطلب نہیں کہ زندگی کے دوسرے شعبے نظر اندازکر دیے جائیں۔ سیاست سماج کا ایک جزو ہے کل نہیں۔ اخبارات‘ ٹی وی چینل سماج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ ان مباحث کو اٹھاتے ہیں جن سے معاشروں کے موت وحیات وابستہ ہیں۔ ''نیویارک ٹائمز‘‘ مثلاً محض اخبار نہیں ایک جریدہ ہے۔ بی بی سی کے ''دوہا ڈیبیٹس‘‘ کو آج تک یاد کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں یہ نہیں ہے۔ کسی سنجیدہ موضوع کے لیے میڈیا کے پاس وقت نہیں۔ 'ریٹنگ‘ کی سوچ نے اتنا غلبہ پا لیاکہ ہر شے اسی ترازو پرتولی جا رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پست فکری دانش کے نام پر فروخت ہورہی ہے۔ اس سے عوام کا مذاق بھی بگڑرہا ہے۔ ادب، مذہب، سیاست ہر میدان میں تیسرے درجے کے لوگ غالب ہیں اور وہی عوام کی فکری تربیت کر رہے ہیں، الا ماشاللہ۔اس کے بعد ندرتِ فکر کہاں اورسوچ کی بلندٔ پروازی کہاں؟
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ
جو لوگ سماجی تعمیر میں سنجیدہ ہوتے ہیں، انہیں اس بات کا ادراک ہوتا ہے۔ وہ ایسے اداروں کو زندہ رکھتے ہیں جو دراصل عوامی مزاج کی تشکیل کرتے ہیں۔ جو لوگوں میں لطیف جذبات پیدا کرتے اورایک معاشرے کے جذباتی وجود کو متوازن رکھتے ہیں۔ یہی جذباتی توازن ہے جو اجتماعی سطح پر خیروشر کی قدروں کو مستحکم بناتا ہے۔ یہ ادارے ادب، موسیقی، مصوری اور دوسرے علوم کی آبیاری کرتے ہیں۔ انہی سے ایک کلچر تشکیل پاتا ہے۔
سلطنتوں کے عہد میں، معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اعیانی طبقے کی سوچ زیادہ پختہ تھی۔ اسی وجہ سے ادارے قائم ہوئے اورفنون زندہ رہے۔ مغلوں کے دورکو دیکھ لیجیے۔ یہ بادشاہ اور حکمران تھے جو شاعروں، ادیبوں، فنکاروں اور فنون لطیفہ سے متعلق لوگوں کی سرپرستی کرتے تھے۔ شاعری ایک کام تھا۔ موسیقی بھی ایک کام تھا۔ ان سے سماج میں جذباتی توازن قائم رہتا تھا اور یہ فنون لوگوں کے اضطراب کو تھامے رکھتے تھے۔ اچھی شاعری اورگائیکی کے امتزاج میں، جب ایک فرد اپنے دکھوں کا اظہار دیکھتا ہے تواسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا درد ایک اجتماعی دکھ میں بدل گیا ہے اور یوں اس کو قرار مل جاتا ہے۔ دکھ ذات تک محدود رہے تو لاعلاج مرض بن جا تا ہے۔
سرمایہ دارانہ سماج نے اس توازن کو باقی رکھا ہے۔ وہاں کا میڈیا بھی کاروباری سوچ کے تحت وجود میں آیا لیکن وہ جانتا ہے کہ اس پرسماج کا ایک حق ہے۔ وہ ایسے پروگراموں کو وقت دیتا ہے جوکاروباری نقطہ نظر سے اگر اہم نہ بھی ہوں لیکن ان کی ایک سماجی افادیت ہوتی ہے۔ وہ معاشرہ آرٹ کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ حکومت اورسماج، دونوں اس باب میں ہم آواز ہیں۔
ہم ایسی سماجی ضروریات سے بے نیاز ہوگئے ہیں۔ ہمارے ہاں مخیر حضرات اگر سماج پر خرچ کریں گے توان کی پہلی ترجیح معبد و مزارات کی تعمیر ہوگی اور ان پر بلاضرورت سرمایہ خرچ ہورہا ہوگا۔ اس کے ساتھ آرٹ کے نام پرپیسہ دینا ان کے خیال میں غیرشرعی ہے یا پیسے کا ضیاع۔ بھلا سماج کو اچھے گائیکوں کی کیا ضرورت؟ یہی حال حکومتوں کا بھی ہے۔ آرٹ کو سبسڈی دیتے وقت ان کے ہاتھ رک جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سینما کی جگہ شاپنگ پلازے تعمیر ہوگئے اورآرٹس کونسلز جیسے ادارے ویران ہو گئے۔
اس سے ایک خلا واقع ہوا ہے۔ آج ہمارے سماج میں وہ ادارے موجود نہیں ہیں جو اسے جذباتی طورپر متوازن بنائیں۔ ہرطرف وحشت کا غلبہ ہے۔ نام نہاد انقلابی مفکرین نے نفرت آمیز تحریروں اور خطابت سے لوگوں کو شدت پسند بنایا ہے۔ بیسویں صدی کے متروک افکار کی جگالی کرتے ہوئے انقلاب کے نعرے بلند کیے ہیں۔ انہی افکار کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ہر شے کو سیاست اور ریاست کے گرد گھمایا گیا۔
اس سے سماج نظر انداز ہوا اور نتیجتاً سماجی ادارے۔ اس قوم کی یہ بدقسمتی رہی کہ مذہبی مفکرین ہوں یا سیکولر، سب کی سوچ کا محور ریاست تھی، سماج نہیں۔ یوں جو فکری کام ہوا وہ ریاست اور سیاست کے گرد ہی گھومتا رہا۔ سماجی علوم اور سماجی اداروں کی تشکیل میں ہم کوئی کردار ادا نہ کر سکے۔ اس سے ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا، جس نے شخصیت سازی کے عمل کو بری طرح متاثر کیا۔
جس کمرشل ازم یا کاروباری سوچ کا میڈیا پر غلبہ رہا، اسی نے تعلیم کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تعلیم قابل خریدوفروخت ایک جنس بنی تو اس میں سے فکری اور جذباتی تعمیر کا پہلو غائب ہوگیا۔ غیرنصابی یا ہم نصابی تعلیم غیراہم شمار ہوئی اور یوں ختم ہوگئی۔ اب تعلیم کا حاصل صرف جی پی اے ہے اورگریڈ۔ آج کے طالب علم کے پاس ڈگری ہے مگر شخصیت نہیں۔ اعتماد کا یہ عالم ہے کہ کسی سنجیدہ موضوع پر بات کرنی اس کیلئے جوئے شیر لانا ہے۔ایسا کیوں ہے؟ سماجی سطح پر پیدا ہونے والا یہ خلا جب فرد کومنتقل ہوتا ہے توایک ادھوری شخصیت وجود میں آتی ہے۔ جذباتی توازن سے محروم۔ سوشل میڈیا تک رسائی سے یہ خلا اور گہرا ہورہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا ایک کیمسٹ کی دکان ہے، کسی ڈاکٹرکا کلینک نہیں۔ وہاں ہر طرح کی دوائیاں موجود ہیں لیکن یہ بتانے والا کوئی نہیں کہ کس مرض کیلئے کیا دوا کھانی چاہیے۔ یوں دل کا مریض جگر کی دوا کھا رہاہے اور معدے کا گردے کی۔ اس کا نتیجہ مرض میں اضافے کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا۔ اکثریت توزہر کھا رہی ہے۔ سروے بتاتے ہیں کہ غیراخلاقی مواد دیکھنے والوں میں ہمارا معاشرہ سب سے آگے ہے۔
آج یہاں ہرکوئی سیاست کے کھیل میں مصروف ہے، ریاستی ادارے سراپا سیاست ہیں۔ علما سیاست میں رنگے جا چکے۔ ریاست اورعلما، دونوں نے مدارس کو بھی سیاسی ادارہ سمجھ لیا ہے۔ یہاں تک کہ خانقاہیں اب سیاست کا مرکز ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے ادارے تو پہلے ہی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکے۔ میڈیا میں بھی صبح و شام سیاست۔ سماج کسی کو یاد ہے اور نہ سماجی ادارے۔
یہ خلا بڑھ رہا ہے اور کسی کواس کا احساس نہیں۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ بند معاشروں میں یہی ہوتا ہے۔ 'جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود‘۔ اقبال بہت پہلے متوجہ کرچکے۔ ہرطرف سیاست اور وہ بھی یک رخی۔ سیاست سے مراد 'اقتدار کی سیاست‘ ہے۔ سیاسی شعور، افکار اور فکروفلسفہ اس کے دائرے سے باہر ہیں۔ یہ خلا دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا جب اسے بھرتا ہے توانتشارِ فکر جنم لیتا ہے۔ اب اقتدار کی سیاست ہے یا انتشارِ فکر۔
یہ خلا جیسے جیسے بڑھتا جائے گا، امید کے چراغ بجھتے چلے جائیں گے۔ میں یاد دلاتا رہتا ہوں کہ پاکستان کا قیام کسی خصوصی خدائی سکیم کا حصہ نہیں۔ اس پربھی اُسی الٰہی سنت کا اطلاق ہوتا ہے جس کے تحت امریکہ، برطانیہ یا بھارت کی ریاستیں اور معاشرے چل رہے ہیں۔ سماجی تعمیر سے بے نیازی، یہاں بھی انہی نتائج کو جنم دے گی جو نتائج دنیا کے کسی دوسرے حصے میں نکلیں گے۔ اس سنتِ الٰہی کا یہاں بارہا ظہور ہو چکا مگر یہاں کی دانش اس کا پوری طرح ادراک نہیں کر سکی۔ اس دانش کی سنت میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آ رہی۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ جذباتی عدم توازن بڑھ ہے اور کوئی ایسا ادارہ، کوئی ایسا ہاتھ موجود نہیں جو ان جذبات کو تھام سکے۔ خلا اور تاحدِ نظر خلا۔