نوازشریف صاحب کی خاموشی تادیرباقی نہیں رہ سکتی۔کچھ ہی دنوں میں افواہوں کی بھنبھناہٹ اس کی جگہ لے لے گی۔اگلے مرحلے میں یہ افوہیں شور میں ڈھل جائیں گی۔پھر وہ بولنا چاہیں گے تو بھی ان کی آواز سنائی نہیں دے گی۔یہ اب ان کی مرضی ہے کہ وہ اُس وقت کا انتظار کرتے ہیں یا خود ہی اپنی خاموشی کا پردہ چاک کرتے ہیں۔
ووٹ کی عزت اگر محض نعرہ نہیں‘ایک بیانیہ ہے توپھر انہیں سمجھنا ہوگا کہ بیانیہ ایک بیج کی طرح ہوتا ہے۔کسان اسے بو کر لا تعلق نہیں ہوجا تا۔وہ پسینہ بہا کر زمین کو سیراب کرتا ہے کہ بیج کونپل بن جا ئے۔وہ راتوں کی نیند تج دیتا ہے کہ کونپل برگِ سبز میں ڈھلے۔ایک پتے سے کئی پتے اور پھر تاحدِ نظر کھیت لہلہانے لگے۔کسان اس کے بعد زیادہ فکرمند ہو جا تا ہے۔پھر وہ رکھوالی کرتا ہے کہ خوشے دانوں سے بھر جائیں۔پھر دانے میں رس آئے۔یہاں تک کہ فصل کٹ کر کھلیان تک پہنچ جا ئے۔
یہ ایسی ریاضت ہے کہ کسی کسان کو اس سے مفر نہیں۔اس کے ہاتھ ہل پر ہوتے ہیں اور نگاہیں آسمان کی وسعتوں میں بادلوں کو تلاش کر تی ہیں۔زبان دعائیہ کلموں سے تر ہوتی ہے اورامید اپنے جوبن پر۔وہ جانتا ہے کہ اس کی کامیابی اسی مشقت میں ہے۔اس کے باپ کی داستان بھی یہی تھی اور اس کے دادا کی کہانی بھی اس سے مختلف نہ تھی۔ اسے معلوم ہے کہ اس کے بیٹے کے لیے بھی قدرت کا یہ دستور تبدیل نہیں ہو نے والا۔
سیاست کی کہانی بھی یہی ہے۔یہ بیانیہ محض ووٹ کی حرمت کا سوال نہیں ہے۔یہ ایک نئے سیاسی کلچر کا بیج بوناہے۔ووٹ کی حرمت اس کا پھل ہے‘اس کا بیج نہیں۔بیج سے ثمر تک‘ بے شمار مراحل ہیں جو طے ہونے ہیں۔نواز شریف صاحب نے بیج بویا ہے۔اسے ایک آزاد میڈیا کا پانی چاہیے تاکہ یہ کونپل بن سکے۔اسے مستحکم سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے جو اسے برگ ہائے سبز میں بدل دیں۔ اسے سول سوسائٹی کا باڑ چاہیے کہ بے لگام مویشی اسے نقصان نہ پہنچائیں۔ اسے دانش کا سائبان چاہیے کہ بالیاں دانوں سے بھر جائیں۔
ایک جمہوری معاشرہ اُسی وقت توانا ہوتا ہے جب اس میں اختلافِ رائے کا احترام کیا جاتا ہو اور یہ مذہب ہو یا سیاست‘ایک سے زیادہ آرا کو قبول کیا جا تا ہو۔جہاں کی فضا آزادیٔ رائے اورفکری ارتقا کے لیے سازگار ہو۔جہاں سیاسی جماعتیں جمہوری رویوں کی تربیت گاہیں ہوں۔ جہاں سول سوسائٹی اتنی توانا ہو کہ وہ ریاست پر اثر انداز ہو سکے۔ جہاں خوف کی حکمرانی نہ ہو‘ محبت کی فراوانی ہو۔جہاں سیاسی اور سماجی ادارے مضبوط ہوں۔جہاں آئین کا احترام کیا جا تا ہو اور عام آدمی بھی آئین شکنی جیسے جرم کی سنگینی سے پوری طرح واقف ہو۔
یہ کام اقتدار کی سیاست میں رہ کر نہیں ہو سکتے۔نوازشریف صاحب نے اگر بیانیے کی سیاست کر نی ہے توانہیں صرف الیکشن کے عمل پر توجہ نہیں دینی‘انہیں ایک جمہوری کلچر کی تشکیل کے لیے اپناکردار ادا کرنا ہے جس میں ووٹ کی عزت ایک قدر کے طور پر مستحکم ہو تی ہے۔ انہیں اب سیاست دان کے بجائے لیڈر بننا ہے۔انہیں قومی امور پر اپنی رائے دینی ہے۔انہیں عوام کے سامنے ایک لائحہ عمل رکھنا ہے۔کلچر‘سیاست‘عالمی مسائل‘ایک دنیا ہے جہاں ان کی موجودگی محسوس کی جانی چاہیے۔
نواز شریف صاحب کا بیانیہ ایک نعرے سے آگے نہیں بڑھ رہا۔وہ جمود کا شکار ہے۔میں ان کی اس جد وجہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جو انہوں نے گزشتہ برسوں میں‘بطورِ خاص 2013 ء کے بعد کی ہے۔انہوں نے ایک مشکل دور میں عزیمت کا مظاہرہ کیا۔ان کی جد وجہد تاریخ کا روشن باب ہے۔بیانیہ لیکن اس کے سوا کچھ چاہتا ہے۔سب سے بڑھ کر فکری اور علمی اثاثہ۔ اس بات کا ادراک کہ جمہوریت کابیج ثمر بار کیسے ہو تا ہے۔
اس وقت ملک میں اَن گنت مسائل ہیں۔ہماری خارجہ پالیسی بطورِ خاص ایک بھنور میں ہے۔نواز شریف صاحب اس سارے معاملے کو کیسے دیکھ رہے ہیں؟افغانستان ایک نئے اضطراب سے دوچار ہے۔ان کے خیال میں اس مسئلے کا حل کیا ہے؟اسلاموفوبیا اورانتہا پسندی جیسے مسائل پر ان کا نقطہ نظر کیا ہے؟لیڈر ایک مدبر ہوتا ہے۔لیڈر ثقافت‘خارجہ پالیسی‘ مذہب‘ عالمگیریت...ان تمام مسائل پر ایک موقف رکھتا ہے اور قوم کی رہنمائی کرتا ہے۔نواز شریف کو لیڈر ماننے والے بے خبر ہیں کہ ان معاملات میں ان کے راہ نما کے خیالات کیا ہیں؟ ووٹ کو عزت انہی معاشروں میں ملی ہے‘جہاں کے لیڈر عوام کی فکری تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔یہ ان کی سیاسی ضرورت ہے کہ وہ ہر معاملے میں اپنی موجودگی کا ثبوت فراہم کریں۔وہ اپنی جماعت کی فکری راہ نمائی کریں کہ وہ سول سوسائٹی کے ساتھ کس طرح رابطہ رکھے۔اہلِ دانش کیسے اس بیانیے کی تعبیر وتشریح میں شریک ہوں۔اہلِ صحافت کیسے بیانیے کو عوام تک پہنچائیں۔قوم کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ بیانیہ چند افراد کے خلاف کسی انتقام کی آواز نہیں‘قوم کے روشن مستقبل کی نوید ہے۔
مسلم لیگ کے قائد کی خاموشی نے یہ تمام دروازے بند کر دیے ہیں۔آج عوام کے ساتھ ان کا کوئی رابطہ نہیں۔یہی معاملہ مریم نواز صاحبہ کا بھی ہے۔ان کی سیاست عمران خان کے خلاف چند ٹویٹس تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کی سیاست سے لوگ تنگ آ چکے۔پھر یہ کارِ خیر پارٹی کے باقی لوگ خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہے ہیں۔ لیڈر سے لوگ اس سے بہتر کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ بات بھی کچھ قابلِ فہم نہیں کہ نون لیگ کے راہ نما حکومت سے نوازشریف صاحب کی زندگی کی ضمانت مانگ رہے ہیں۔زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے‘ تو کوئی انسان اس کی ضمانت کیسے دے سکتا ہے؟پھر یہ تو معرکہ ہے۔ اس میں مخالفین سے زندگی کی ضمانتیں طلب کرنا کمزوری کا اظہار ہے۔ نوازشریف صاحب نے اب تک جس جرأت کا مظاہرہ کیا ہے‘یہ درخواستیں اس سے متصادم ہیں۔اگر وہ حق و باطل کی جنگ لڑ رہے ہیں تو اسے صرف اللہ کے بھروسے پر لڑنا پڑے گا۔
ان کی خاموشی ایک خلا کو جنم دے رہی ہے اور سیاست میں خلا نہیں رہتا۔ اقتدار کی سیاست ان کے پاؤں کی زنجیر ہے۔اگر انہیں تاریخ میں زندہ رہنا ہے اور بیانیے کی جنگ لڑنی ہے تو انہیں ان زنجیروں کو توڑنا ہوگا۔اس کی ایک ہی صورت ہے جو میں پہلے بھی تجویز کر چکا۔ حقیقی جمہوریت کے لیے ایک تحریک اٹھائی جائے اور اقتدار کی سیاست شہباز شریف صاحب کے حوالے کر دی جا ئے۔
مسلم لیگ نون کے قائد کو اپنے کردار کا ازِ سر نو تعین کر نا ہے۔لیڈر یا سیاست دان؟خاموشی افواہوں کو جنم دے رہی ہے۔ ہر آنے والے دن ان افواہوں کی آواز بلند ہوتی رہے گی۔لوگ کہنے لگے ہیں کہ شہباز شریف صاحب ان کی اشیر باد سے کسی ڈیل کی تلاش میں ہیں۔یہ تاثر بیانیے کے لیے تباہ کن ہے۔ اس وقت سیاست پھر روایتی کرداروں کے ہاتھ میں سمٹ رہی ہے۔مقتدرہ‘پنجاب کے چوہدری‘زرداری صاحب 'سٹیٹس کو‘ کی سب علامتیں متحرک ہیں اور یہ سب لوگ سیاست پر اپنی گرفت کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔اس پس منظر میں بیانیے کی سیاست پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔بیانیہ لیکن ایک بیج کی طرح ہے۔ اسے ابھی ثمر بار ہونا ہے۔ سیاست میں ابہام شدید نقصان دہ ہے۔ایک غلط موقف‘خاموشی سے کہیں بہتر ہے۔کم ازکم زیرِ بحث تو رہتا ہے۔ نوازشریف کی خاموشی اضطراب کو بڑھا رہی ہے۔ ان کے چاہنے والے زبانِ حال سے سوال کر رہے ہیں:
منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحرائی