نیا پاکستان کیا بنتا ‘ پرانا پاکستان‘سرعت کے ساتھ ایک سے دو پاکستان کی طرف بڑھ رہا ہے۔معاشی اور تمدنی فاصلے خیال‘ ہوتاہے کہ اب ناقابلِ عبور ہو چکے۔آج ایک طرف تجوریاں بھری ہیں اور دوسری طرف جیبیں خالی۔ایک مملو پاکستان ہے اورایک محروم پاکستان۔
اس تقسیم نے آج جنم نہیں لیا۔یہ برسوں سے ہے۔ہم مگر اسے کم نہیں کر سکے۔یکساں نصابِ تعلیم سے پاکستانیت اورنفاذِ اسلام سے سوشلزم تک‘ نہیں معلوم کتنے مبہم نعرے ہماری سماعتوں سے ٹکراتے رہے لیکن اس خلیج کو نہ پاٹ سکے جو وسائل کی غیر مساویانہ تقسیم سے پیدا ہوئی۔ان نعروں نے 'محروم پاکستان‘ میں بسنے والوں کو ذہنی نشے کے سوا کچھ نہیں دیا۔پرانی شراب 'پاکستانیت‘ کے نام پر ایک بارپھرفروخت کی جا رہی ہے۔
'پاکستانیت‘ کیا ہے؟یہ اگر کوئی اصطلاح ہے تو اس نے کہاں جنم لیا؟کس لغت میں اس کے معانی ملیں گے؟میں تو اس کے خدو خال سے ناواقف ہوں۔یہ میرے لیے ان نعروں کی طرح ہے جوعوام کے جذباتی استحصال کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور عوام ان کے مفہوم سے بے خبر ‘صرف ردھم پر ناچتے ہیں۔یہ عوامی رقص 'پاکستان کا مطلب کیا ...‘‘ سے شروع ہواا ور تادم ِ تحریر جا رہی ہے۔
مذہب اور سیکولرزم تو محض عنوان ہیں۔ نفسِ مضمون ایک ہے۔ جو تحریکِ پاکستان کا مذہبی حوالہ قبول نہیں کرتے‘وہ بھی یہ کہتے ہیں تقسیم مسلمانوں کے مادی اور اقتصادی مسائل کا ناگزیر حل تھا۔یہ ملک مسلمانوں کے معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے وجود میں آیا جو متحدہ ہندوستان میںکا روبار اور وسائل پر ہندو غلبے کے باعث ناممکن ہو گیا تھا۔جو کہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے‘ان کے نزدیک اس جملے کی شرح یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کا تہذیبی تشخص اور مادی وجود دونوں خطرات میں گھر گئے تھے۔ ان کی حفاظت کے لیے پاکستان ناگزیر تھا۔
عنوان مختلف ہو سکتا ہے مگر متن ایک ہے: مسلمانوں کو ایک بالا دست طبقے کے تسلط سے محفوظ رکھنا جو وسائل پر قابض تھا۔ آج بھی یہ مسئلہ جوں کا توں باقی ہے‘اس فرق کے ساتھ کہ ہندو بنیے کی جگہ مسلمان بنیے نے لے لی۔جو تقسیم سے پہلے محروم تھا ‘وہ آج بھی محروم ہے۔متحدہ ہندوستان کی کوکھ میں جو محروم پاکستان تھا‘وہ جنم لینے کے بعد بھی اسی طرح محروم ہے۔
اس کی محرومیوں کا علاج یکساں نصابِ تعلیم یا پاکستانیت جیسے نعروں میں نہیں‘ اس معاشی تفاوت کے خاتمے میں ہے جو دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ تہذیبی روایات‘ نظامِ تعلیم‘مذہب‘اردو‘ادب‘ ہر شے اس کی زد میں ہے اور اپنی معنویت کھوتی جا رہی ہے۔زمیں پر پھیلی تلخ حقیقتوں سے ان کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ان کا مصرف صرف عوام کا جذباتی استحصال ہے۔
آج بڑے شہروں کے شاپنگ مالز خریداروں سے اٹے ہیں جن کو من پسند ملبوسات اور چیزوں سے دلچسپی ہے‘ان کی قیمت سے نہیں۔تقریبات دولت کی نمائش کیلئے منعقد ہوتی ہیں۔مہنگائی کیا ہوتی ہے‘اس طبقے کی لغت میں یہ لفظ کہیں موجود نہیں۔دوسری طرف محروم پاکستان میں دو وقت کی روٹی کا حصول زندگی کا سب سے بڑا چیلنج بن چکا۔بجلی کے بل دیکھ کر دل کی دھڑکن تیز ہو جا تی ہے۔ معاشی وسائل کے اس بڑھتے ہوئے فرق سے تہذیبی سطح پر بھی دو پاکستان وجود میں آ رہے ہیں۔ایک طرف وہ نسل ہے جو اردو نہیں جانتی۔جو اردو نہیں جانتا ‘اس کو کوئی رشتہ اقبالؔ اور غالبؔ و میرؔ سے قائم نہیں ہو سکتا۔اس رشتے کے بغیر پاکستانیت کا ہر تصور ادھورا ہے۔ یہی معاملہ لباس کا بھی ہے۔معاشی طور پر بر باد سماج میں لباس کی ازکارِ رفتہ بحثوں کی کوئی معنویت نہیں۔ایک مذہبی آدمی ہوتے ہوئے بھی‘ مجھے کبھی کبھی خیال ہو تا ہے کہ ہمارا مذہبی طبقہ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا ہے۔ وہ اپنے عہد سے پوری طرح لاعلم ہے۔اسی لیے مذہبی گھرانوں کی نئی نسل اس کے خیالات سے عملی بغاوت کر چکی۔
تہذیبی بحثیں خالی پیٹ نہیں ہو سکتیں۔ہم اس طرح کی پُرحکمت باتوں کو مارکسزم کا نام دے کر مسترد کریں گے تو ایک بڑی غلطی کا ارتکاب کریں گے۔ تہذیب‘مذہب اور جمالیات کی بحثیں آسودہ حالوں ہی کو سازگار ہیں۔پھر یہ کہ تہذیبی ارتقا ایک سماجی عمل ہے۔تہذیب فطری بہاؤ کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔یہ ریاستی پالیسیوں سے ماورا ہوتی ہے۔ 'پاکستانیت‘ کے خدو خال کسی سرکاری نوٹیفکیشن سے طے نہیں ہوں گے۔یہ گلیوں ‘بازاروں ‘چوکوں اور چوراہوں میں چلتے پھرتے پاکستانیوں کے رویوں سے متشکل ہوں گے۔ریاست کاکام صرف اتنا ہے وہ عوام کو وہ ماحول فراہم کرے جس میں ان کے بنیادی حقوق محفوظ ہوں۔انہیں آگے بڑھنے کے لیے مساوی مواقع ملیں۔ اس کے بعد انہیں آزاد چھوڑ دے کہ وہ اپنی روایت اور تاریخی پس منظر سے اپنا تہذیبی تشخص کشید کریں۔
ہماری ریاست مگر وہ کام نہیں کرتی جو اسے کرنا چاہیے۔وہ سماج کی ذمہ داری اپنے ہاتھ لے لیتی ہے۔ وہ یکساں نصابِ تعلیم اور پاکستانیت کے نعروں سے نیا پاکستان بنانا چاہتی ہے۔ دوسری طرف پہلا پاکستان تیزی کے ساتھ دو پاکستان میں بدل رہا ہے۔ جب تک عوام کی اکثریت خطِ غربت سے نیچے رہے گی‘ ان کا تہذیبی وجود غربت کے تیزاب میں تحلیل ہو تا رہے گا۔ بے مغز نعرے اس عمل کو روک نہیں سکتے۔
تہذیب‘ پاکستانیت‘ مذہب‘ سب ہمارے نفسیاتی سہارے ہیں۔ داخلی طور پر ہم سب سے کٹ چکے۔ جب کسی کو موقع ملتا ہے‘ وہ پاکستانیت کے خول سے نکلنے کی کوشش کر تا ہے۔ نئی نسل کا خواب امریکی اور مغرب کے تعلیمی ادارے اور سماج ہیں۔ اس کی پہلی خواہش یہ ہے کہ وہ یہاں سے نکل جا ئے۔یہ معاشی نا ہمواری ہے جس نے پاکستان کے ساتھ اس کے رشتے پر براہِ راست حملہ کیا ہے اور وہ اس کی تاب نہیں لا سکی۔
یہی معاملہ مذہبی تعبیرات کا بھی ہے۔عمران خان کی باتوں پر سب سے زیادہ پُر جوش طبقے کی اکثریت آج بھی کسی 'مہذب‘ اجتماع میں جاتی ہے تو انگریزی سوٹ اس کا پہلا انتخاب ہو تاہے۔آج بھی اس طبقے کی خواہش ہے کہ اس کے بچے فرفر انگریزی بولنے والوں ہوں۔اگر اسے انگریزی آتی ہے تو وہ اپنے بچوں کے ساتھ اس زبان میں گفتگو کر نے کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ طبقہ تہذیبی احساسِ کمتری میں مبتلا لوگوں میں سرِفہرست ہے۔ دوغلے پن کا شکار۔اس سے وہ لوگ کہیں بہتر ہیں جو ذہنی طور پر مغرب کی تہذیبی بالا دستی کو قبول کر چکے۔ کم ازکم کسی داخلی خلفشار کا شکار تو نہیں۔تہذیبی فاعلیت اور مفعولیت اس وقت میرا موضوع نہیں۔مجھے صرف یہ بتانا ہے کہ معاشی ناہمواری میں مبتلا قوم کی پہلی ترجیح ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جن میں معاشی تفاوت کو مسئلہ جان کر حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ تہذیبی تشخص یا کلچرل انفرادیت ایک سماجی عمل ہے اور براہِ راست معاشی حالات سے مربوط ہے۔ جو مسلمان معاشرے معاشی طور پر کمزور ہیں اور جہاں لوگوں میں معاشی طبقات کا فرق واضح ہے‘وہ قوم میں یک جہتی کیلئے ایک جذباتی فضا پیدا کرتے ہیں اور لوگوں کو اس جانب متوجہ نہیں ہونے دیتے کہ ان کے امیر‘ کیوں امیر تر اور غریب کیوں غریب تر ہو رہے ہیں۔اس سے وہ اپنا سماجی اور معاشی مقام محفوظ بناتے ہیں۔ ایران‘ افغانستان اور پاکستان ان معاشروں میں سرِفہرست ہیں۔جہاں عام آدمی کی معاشی حالت بہتر ہے‘ وہاں اس طرح کے نعرے استعمال نہیں ہوتے۔ جیسے ملائیشیا‘جیسے بنگلہ دیش۔
پاکستانیت اور لباس کی ان بحثوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی اور صحافتی حلقے ان عوامل سے کتنے بے خبر ہیں جنہوں نے اس سماج کو اپنے حصار میں رکھا ہے اورجودراصل اسکے تہذیبی خد وخال کا تعین کر رہے ہیں۔