پاکستانی معاشرہ ‘کیاجمہوریت کی برکات سے کبھی فیض یاب ہو سکے گا؟
آگہی کے وسیع ہوتے امکانات کے باوجود‘مجھے مستقبل قریب میں تو اس کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔آج عوام کی شعوری سطح ماضی کے مقابلے میں کہیں بلند ہے۔ یہ بے حجابی کا دور ہے۔جو پنہاں ہے‘دراصل ظاہر ہے۔عام شہری بھی اقتدار کے حقیقی اور ظاہری مراکز کا فرق اچھی طرح جان گیا ہے۔ اس کے باوصف‘ جمہوریت کا پودا سر سبز ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کے ایک سے زیادہ اسباب ہیں۔
سب سے بڑ ا سبب ‘سیاسی جماعتوں کی عدم یک سوئی ہے۔بڑی سیاسی جماعتوں کی پہلی ترجیح آج بھی اقتدار ہے‘جمہوریت نہیں۔وہ شرکتِ اقتدار کے ہر فارمولے کو قبول کرنے پر آمادہ رہتی ہیں ‘اگر انہیں شراکت دار مان لیا جا ئے۔پیپلزپارٹی نے اس باب میں کوئی ابہام باقی نہیں رہنے دیا۔شہباز شریف صاحب روزِ اوّ ل سے اس کے قائل ہیں۔پی ٹی آئی پر اقتدار کا دروازہ اسی وقت کھلا جب اس نے کچھ کمپرومائز کیے۔ ق لیگ کی تو شہرت ہی یہی ہے۔سیاسی جماعتوں میں اب اتفاق ہے کہ مقتدر حلقوں سے شراکتِ اقتدار جائز ہے۔اختلاف صرف اس میں ہے کہ یہ شراکت دوسروں کے ساتھ کیوں ہے‘ہمارے ساتھ کیوں نہیں؟نوازشریف صاحب اور مریم صاحبہ کا ‘میرا گمان ہے کہ ابھی تک استثنا ہے۔ دوسرا سبب بھی سیاسی جماعتوں ہی سے متعلق ہے۔پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے نام سے جو گروہ پائے جاتے ہیں‘ انہیں سیاسی جماعت بنانے کی کوئی شعوری کوشش نہیں ہوئی۔اقتدار پسندوں کو جمع کر کے‘ا نہیں ایک جماعت کا نام دے دیا گیا ہے۔نوازشریف اگر ووٹ کی عزت کے بیانیے کو ایک مؤثر عوامی تحریک نہیں بنا سکے تواس کی وجہ یہ رہی کہ اس کی پشت پرمسلم لیگ کی تنظیم موجود نہیں تھی۔یہی معاملہ دیگر جماعتوں کا بھی ہے۔
پیپلزپارٹی میں قمر زمان کائرہ اورچوہدری منظور جیسے لوگ موجود تھے جو سیاسی جماعت کے تصور کو سمجھتے تھے۔انہیں صوبائی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا گیا۔ زرداری صاحب نے فیصل صالح حیات ا ور منظور وٹو کی شکل میں ان کا متبادل تلاش کرنے کی سعی کی۔وہ متحرک ہوں یا نہ ہوں‘اس سے کم از کم یہ واضح ہو جاتا ہے کہ زرداری صاحب کا تصورِ جماعت کیا ہے اور وہ آئندہ پیپلزپارٹی کو کن خطوط پر منظم کر نا چاہتے ہیں۔
تحریکِ انصاف کا معاملہ بھی ظاہر وباہر ہے۔عمران خان صاحب نے بھی اپنا ذہن کھول کر رکھ دیا ہے کہ وہ ایک جماعت کی آمریت اور مطلق اقتدار کے قائل ہیں۔ ان کی طرف سے پارٹی کو جمہوری اصولوں کے مطابق منظم کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی۔انہیں پارٹی کارکن کے بجائے 'ٹائیگرز‘ کا تصور زیادہ بھاتا ہے۔وہ انسانوں کا ایک ایسا گروہ چاہتے ہیں جو ہر اگلا قدم اٹھانے سے پہلے ان کی انگلی کی طرف دیکھے۔
مذہبی سیاسی جماعتوں میں صرف جماعت اسلامی اپنی قیادت کے انتخاب میں جمہوری اصولوں کا اہتمام کرتی ہے اور اس کاکارکن دوسروں کے مقابلے میں زیادہ باشعور ہے۔اس کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ اس کا تنظیمی ڈھانچہ کسی سیاسی جماعت کے لیے سازگار نہیں۔وہ دراصل ایک تحریک کے طور پر منظم کی گئی ہے جو سیاسی جماعت سے زیادہ ایک فوجی نظم سے قریب تر ہے۔دوسری مذہبی سیاسی جماعتیں موروثیت کے اصول پر کھڑی ہیں اور مذہب کے نام پرکارکنوں سے وفا داری کا تقاضا کرتی ہیں۔جمہوریت ظاہر ہے کہ وہاں بھی نہیں ہے۔
تیسرا سبب ایک موثر مذہبی طبقہ ہے جو جمہوریت پر یقین نہیں رکھتا۔وہ طالبان کو آئیڈلائز کرتا اور جمہوریت کو کفر قرار دیتا ہے۔یہ طبقہ میڈیا کو دجال کہتاہے اور اس کے ساتھ میڈیا سے اپنے جثے سے زیادہ حصہ وصول کرتا ہے۔یہ ابلاغ کے تمام ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اس کی تبلیغِ عام کرتا ہے کہ جمہوریت سے نجات ہی میں ہماری نجات ہے۔سماج میں لوگ اس سے اثر قبول کرتے ہیں اوران کی پرجوش مہم کے نتیجے میں ایک تعداد ایسی بھی ہے جوجمہوریت ہی کو غلط سمجھتی ہے۔
چوتھا سبب‘دانشور طبقہ ہے جو جمہوریت کے معاملے میں فی الجملہ کوئی واضح موقف نہیں رکھتا۔لبرل طبقہ ‘غالباً واحد گروہ ہے جو اس باب میں مکمل ذہنی یک سوئی رکھتا ہے۔وہ اسے لبرل ازم کے نظامِ فکر کی روشنی میں دیکھتا ہے۔یا پھر ہم جیسے چند متفرق افراد جو اسے کسی نظری پس منظر کے بجائے‘انتقالِ اقتدار کے واحد پُرامن حل کے طور پر دیکھتے اور اسے انسانی فکر کی ایک غیرمعمولی دریافت سمجھتے ہیں جو الہامی تعلیمات سے متصادم نہیں۔لبرل طبقہ اوریہ لوگ محدود دائرۂ اثر رکھتے ہیں۔ دانشوروں کی اکثریت اب بھی محدود جمہوریت‘ کی قائل ہے جس میں بظاہر اقتدار سیاست دانوں کے پاس ہو مگر کلیدی فیصلوں کا مرکز کوئی دوسرا ہو‘جو ان کے خیال میں زیادہ لائقِ اعتبار ہے۔
پانچواں سبب وہ حلقہ ہے جو اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہتا ہے۔ اہلِ سیاست کو اسی کے اشارے پر ناقابلِ بھروسا ثابت کیا جاتا ہے تاکہ ان کا حقِ اقتدار ثابت ہو سکے۔ اس کے خیال میں ریاست کے مفاد کا یہ تقاضا ہے کہ اسے ان ہاتھوں میں نہ سونپا جا ئے جو عوام کے منتخب کردہ ہیں۔اس سوچ کا ماخذ بھی یہی ہے کہ ملک کے عوام درست فیصلے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔اس سوچ کو پھیلانے والے ان معنوں میں پڑھے لکھے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی ڈگری ہے۔عام طور پر طبیعیاتی علوم کا پس منظر رکھتے اور سماجی علوم سے ناآشنائے محض ہیں۔یہ عام مجالس میں اکثر یہ گفتگوکرتے ملیں گے کہ یہ پارلیمنٹ کیسے قانون سازی جیسا فریضہ سر انجام دے سکتی ہے جس کی اکثریت ان کے نزدیک جاہل ہے۔
چھٹا سبب ہمارا نظامِ تعلیم ہے۔ یہ نظام جمہوری سوچ پیدا نہیں کرتا۔ اس میں تاریخ کا مطالعہ بھی اس طرح کرایا جاتا ہے کہ وہ افراد کے کارہائے نمایاں کا ایک ریکارڈ ہے اور انسانی تاریخ کی تشکیل میں عوام کا کوئی کردار نہیں۔ آئین کیا ہے‘ اس کی حرمت کیا ہوتی ہے‘ ہمارا تعلیمی نصاب ان تصورات سے خالی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کے اندر آئین اور جمہوریت کے بارے میں کوئی حساسیت پیدا نہیں ہو سکی۔ اس کا فائدہ غیرسیاسی عناصراٹھاتے ہیں۔ یہ آخری سبب جمہوریت پر ایک اہم اعتراض کوبھی تقویت پہنچاتا ہے۔ عوام چونکہ جمہوریت کے فکری پس منظر سے واقف ہیں اور نہ ہی اس کے اثرات سے‘ اس لیے وہ محض ووٹ دینے کو جمہوریت سمجھ لیتے ہیں۔ یوں وہ ووٹ کا حق ایسے لوگوں کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں جو سماج کیلئے مضر ہیں۔ پچھلے الیکشن میں ایک ایسی جماعت کو بائیس ہزار ووٹ ملے جو عدالت‘ ریاست اور باشعور عوام کی نظر میں انتہا پسندی کو پھیلانے کی مرتکب تھی۔
میرے نزدیک یہ ایک کمزور اعتراض ہے۔پہلی بات یہ ہے کہ عوام کی اکثریت نے کبھی ایسے لوگوں کا انتخاب نہیں کیا۔ دوسرا یہ کہ عوام کی اکثریت ایک سیاسی شعور رکھتی ہے جو اس نے روایتی بصیرت سے اخذ کیا ہے۔اسے معلوم ہے کہ اقتدار کسے سونپا جائے۔تیسرا یہ کہ جمہوریت میں خود احتسابی کی سب سے زیادہ صلاحیت ہے۔عوام اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرتے رہتے ہیں ‘شرط یہ ہے کہ انہیں مسلسل اس کا موقع دیا جائے۔
میرا احساس ہے کہ پاکستان میں ان اسباب کے خاتمے کے لیے ایک بڑی سماجی تحریک کی ضرورت ہے۔ایسی تحریک جو عوامی سطح پر جمہوریت کا شعور اجاگر کرے۔اس کا مفہوم اور مدعا واضح کرے۔مخالفین کی پھیلائی غلط فہمیوں کا ازالہ کرے۔اس کے بغیرسیاست اقتدار کے لیے سودے بازی کے ایک کھیل کے سواکچھ نہیں۔