فواد چوہدری صاحب کا کہنا ہے ''ملالہ کی تصویر کی وجہ سے کتاب پر پابندی جیسے فیصلوں سے، ہم اگلی نسل کو ذہنی طور پر معذور کر دیں گے‘‘۔
صاحبانِ منصب اگر اس جرأت رندانہ کا مظاہرہ کریں تو ہم جیسوں کیلئے بات کرنا سہل ہو جاتا ہے۔ بات محض ملالہ کی نہیں، اس سوچ کی ہے جس کو یقین ہے کہ اسے قوم کی فکری و نظری اصلاح کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور اس کا یہ حق گویا خدا کی طرف سے عطا کردہ ہے کہ وہ فکری کجی کو دیکھے تو اسے ہاتھ سے سیدھا کر دے۔ یہ سوچ سرکاری اداروں میں ہے اور غیرسرکاری گروہوں میں بھی۔
بزعمِ خویش اصلاح پسندوں کے ان گروہوں نے ہمیشہ خود کو اس منصب پر فائز کیا ہے اور حکومتیں ان کے ہاتھوں یرغمال بنی رہی ہیں۔ حکومت اگر سستی دکھائے تو یہ لوگ جلسے جلوس سے کتابوں پر پابندی لگواتے اور مصنف کو جلا وطنی پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اب بات اس سے کہیں آگے بڑھ چکی۔ ایسے گروہ بھی وجود میں آ چکے جو حکومت کے فیصلے کا انتظار نہیں کرتے۔ کتاب اور مصنف کے بارے میں خود فیصلہ کرتے اور پھر اسے نافذ کر دیتے ہیں۔ یہ فیصلہ سزائے موت بھی ہو سکتا ہے۔
جب جلسے جلوس پر اکتفا کیا جاتا تھا، تب کی مثال ڈاکٹر فضل الرحمن ہیں۔ ان کی کتابوں پر پابندی عائد ہوگئی‘ یہاں تک کہ انہوں نے جس ادارے کی بنا رکھی تھی، اس کی لائبریری ان کی کتب سے خالی ہوگئی۔ پچاس سال ہوگئے اور یہ ادارہ آج تک ڈاکٹر صاحب کی یاد میں کوئی تقریب نہیں کر سکا۔ خود ڈاکٹر صاحب کو ملک چھوڑنا پڑا۔ اس چراغ کی لو امریکہ سے جنوب مشرقی ایشیا تک پھیل گئی، یہ الگ بات کہ چراغ تلے اندھیرا ہی رہا۔
دوسرے دور کی ایک مثال ڈاکٹر محمد فاروق خان ہیں۔ دن دہاڑے، جب وہ اپنے پروردگار کی توفیق سے فکری اور جسمانی شفا بانٹ رہے تھے، شہید کر دیے گئے۔ اپنے چہرے پر ابدی مسکراہٹ سجائے، وہ اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔ ان کی کتابیں طاقِ نسیاں کے حوالے ہو گئیں۔ جاوید احمد صاحب غامدی کو ملک چھوڑنا پڑا۔ ڈاکٹر خالد ظہیر کی 'اصلاح‘ کے لیے مسلح مصلحین ان کے گھر کی دہلیز تک جا پہنچے۔
نقصان کس کا ہوا؟ اس ملک کا، جہاں لوگوں کو یہ سبق ملا کہ اگر انہیں جینا ہے تو سرکاری اور غیرسرکاری مصلحین کی مرضی سے۔ وہ طے کریں گے کہ لوگوں کو کیا سوچنا ہے، کسے ہیرو بنانا ہے، کیا لکھنا اور کیا چھپنا ہے۔ کبھی حرمتِ مذہب کے نام پر اور کبھی قومی مفاد کے عنوان سے، سوچ بچار کے دروازے بند ہونے لگے۔ اس کا انجام وہی ہو سکتا ہے جو فواد چوہدری صاحب بتا رہے ہیں: 'فکری اپاہج پن‘۔
فواد چوہدری صاحب نے ایک اور بات بھی کہی: کتابوں پر پابندی کا فیصلہ وہ لوگ کرتے ہیں، جنہوں نے عمر بھر ایک کتاب نہیں پڑھی ہوتی۔ یہ فیصلہ سازی کے اس عمل کی طرف اشارہ ہے۔ افسر شاہی، واقعہ یہ ہے کہ سماجی حرکیات سے واقف ہوتی ہے نہ معاشرہ سازی سے۔ اس کی دلچسپی روزمرہ کے معاملات تک محدود ہوتی ہے۔ اسے خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں احتجاج کی کوئی لہر نہ اٹھ جائے۔ اس لیے وہ پابندی جیسے سطحی فیصلوں سے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
پنجاب حکومت تو اس معاملے میں دوسروں سے کئی قدم آگے ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی صاحب بھی ان امور میں بہت متحرک اور مذہبی طبقات کو بالخصوص خوش رکھنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ پنجاب میں فرقہ واریت کا ایک یہ علاج دریافت کیا گیا ہے کہ سب مسالک کے علما پر مشتمل ایک بورڈ بنا دیا جائے جو یہ فیصلہ کرے کہ قرآن مجید کا کون سا ترجمہ لائقِ اشاعت ہے۔ اسی طرح سرکاری افسر علمی کتابوں کے بارے میں فیصلہ دے رہے ہیں۔
یہ سوچ فرقہ واریت کو کم نہیں کرتی، اسے مزید پختہ بناتی ہے۔ اس کا پہلا مفہوم یہ ہے کہ فرقوں کی سرپرستی سرکار نے اپنے ذمہ لے لی۔ دوسرا یہ کہ موجود فرقوں سے باہر کسی سوچ کے پنپنے کے امکانات کو ختم کر دیا جائے۔ جو لکھا جائے، اب انہی مسلکی دائروں تک محدود ہو۔ گویا مذہبی طور پر معاشرے کو اس طرح بند کر دیا جائے کہ کہیں سے نئی سوچ کا گزر نہ ہو۔
مسلکی تشکیل، دوسری صدی ہجری کا واقعہ ہے۔ یہ فقہی مسالک وجود میں نہ آتے اگر مسلم سماج میں فکری آزادی نہ ہوتی۔ اس دور کے حکمرانوں کو صرف اس بات سے دلچسپی تھی کہ ان کے حقِ اقتدار کو چیلنج نہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید کی تفسیر سے فقہی آرا کی تشکیل تک، ہر بات کی آزادی تھی۔ اسی وجہ سے لوگوں نے اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کیا کہ وہ کس امام یا مسلک کی تقلید کریں گے۔ بعد کے ادوار میں بھی، امت کو ان مسالک کا پابند نہیں کیا گیا۔ اگر ایسا ہوتا تو ہماری تاریخ میں ابن تیمیہ ہوتے نہ شاہ ولی اللہ۔ تفسیر کی عظیم الشان روایت وجود میں آتی نہ دوسرے علومِ اسلامی میں ارتقا ہوتا۔
معاشرے فکری ارتقا سے آگے بڑھتے ہیں۔ فرقہ واریت، اختلافِ رائے سے نہیں، رویوں سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کا علاج کتابوں پر پابندی لگانا یا سوچ کو محدود کرنا نہیں، ان رویوں پر قدغن لگانا ہے جو غیر شائستگی اور حدود سے تجاوز پر مبنی ہوتے ہیں۔ جس میں دوسروں کی تکفیر کی جاتی ہے اور دائرہ اسلام کو اپنی فکر تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اختلاف ایک صحت مندانہ سرگرمی ہے، اگر علمی معیارات پر پورا اترتی ہو تاہم یہ فیصلہ حکومت کو نہیں، سماج کوکرنا ہے کہ کیا قابلِ قبول ہے اور کیا نہیں۔ حکومت کی ذمہ داری محض اتنی ہے کہ کوئی رویہ سماجی امن کو برباد کرنے کا باعث نہ بنے۔
فکری اپاہج پن کا تعلق محض مذہبی نہیں، سیاسی امور سے بھی ہے۔ جب سیاسی افکار اور حکومتی وریاستی کارکردگی پر بات کہنے کی اجازت نہیںہوتی، جب قومی مفاد کے نام پر مقدس گائے کے تصورکو فروغ دیا جاتا ہے تو اس کا نتیجہ بھی فکری معذوری کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ معاشرہ فکری اعتبار سے اپاہج ہونے لگتا ہے اور ان لوگوں پر تنگ کر دیا جاتا ہے جو سماج کے فکری سرمائے میں اضافہ کرتے ہیں۔ سرمایہ دار ملک چھوڑ جائیں تو معیشت سکڑنے لگتی ہے اور اہلِ علم نکال دیے جائیں تو سوچ کو گرہن لگ جاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ایک جمہوری معاشرہ ہی فکری آزادی کی ضمانت دے سکتا ہے۔ ایسا معاشرہ جس میں لوگ اپنے مذہبی خیالات کا اظہار کر سکیں اور جس تعبیر کو چاہے، کسی خوف کے بغیر اختیار کرسکیں۔ جہاں قومی مفاد کا تعین عوام کا اجتماعی شعور کرے اور اس شعور کی تربیت آزادی کے ساتھ کی جا سکے۔ جہاں ہیرو سازی کا حق حکومت کے بجائے عوام کے پاس ہو۔
فواد چوہدری صاحب نے جو بات کہی ہے، اس کو آگے بڑھنا چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن کو مل کر ایسے سماج کی تشکیل کی طرف پیشرفت کرنی چاہیے جہاں ذہنی طور پر صحت مند لوگ پیدا ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومتوں کو ایسے گروہوں کے سامنے کمزوری نہیں دکھانی چاہیے جو اپنی ہنگامہ آرائی کی صلاحیت سے حکومتوں کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ اس کیلئے میثاقِ معیشت کے ساتھ، ایک میثاقِ سماج بھی ہونا چاہیے۔ ایسے سماج کی تشکیل پر اتفاقِ رائے جو جمہوری قدروں پر مبنی ہو۔
گھٹن بڑھ رہی ہے۔ اس میں اُس وقت اور اضافہ ہوجاتا ہے جب چین کے سیاسی ماڈل کو مثالی قرار دیا جاتا ہے۔ اس گھٹن کے نتیجے میں باصلاحیت لوگوں کو اگر موقع ملتا ہے تو ملک چھوڑ جاتے ہیں‘ اور اگر نہیں ملتا تو پہلے مرحلے پر لا تعلق اور دوسر ے مرحلے پر اپنی تنہائی میں سکون تلاش کرتے ہیں۔ خسارہ آخرِ کار معاشرے ہی کا ہوتا ہے۔