نور مقدم کے قتل نے ہماری سماجی بُنت کے بارے میں چند سوال اٹھا دیے ہیں۔
کیا یہ حادثہ مخلوط طرزِ معاشرت کا بدیہی نتیجہ ہے؟کیایہ لبرل اقدار کو قبول کرنے کا انجام ہے؟کیا یہ مذہب سے دوری کا شاخسانہ ہے؟ کیا خواتین کو گھروں تک محدود کرنے سے ایسے واقعات کا سدِباب ممکن ہے؟ کیا بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد‘ فرد خود مختار ہو جاتا ہے؟ کیافرد پر سماج کا کوئی حق نہیں؟کیا والدین کاکردار محض اتنا ہے کہ اولاد کو پال پوس کر بڑاکریں اور پھر لاتعلق ہوجائیں؟
یہ سوالات کیوں پیدا ہوئے؟سماج کی تشکیل‘ ہماری دانش اورپالیسی سازی کا بنیادی موضوع کبھی نہیں رہی۔ہوتی تو یہ سوالات کب کے حل ہو چکے ہوتے۔ترقی یافتہ معاشروں میں یہ سوالات نہیں اٹھتے۔مسائل وہاں بھی ہیں لیکن ان کی نوعیت عملی ہے‘نظری نہیں۔وہاں اس طرح کے حادثے ہوتے ہیں تو موجود روایت اور قانون کی روشنی میں حل تلاش کیے جاتے ہیں۔وہاں یہ نظری سوال پیدا نہیں ہوتا کہ مجرم کو سرِ عام پھانسی دینا جائزہے یا ناجائز؟ہمارا معاملہ یہ ہے کہ گھریلو تشدد پر قانون بنتا ہے تو نظری بحثیں اٹھا دی جا تی ہیں۔اسے کفر‘ اسلام کا مسئلہ بنادیاجاتا ہے۔کسی کو خیال ہوتا ہے کہ اس قانون سے اسلام خطرے میں پڑ جا ئے گا۔کوئی سوچتاہے کہ لبرل اقدار خطرے میں ہیں۔وہ عورت جو خطرات میں گھری ہوئی ہے اور اس تشدد سے امان چاہتی ہے‘وہ زیرِ بحث ہی نہیں رہتی۔ اس سے پہلے یہی معاملہ دہشت گردی کے ساتھ ہوا۔ سماج مر رہا تھا اور لوگ اپنے اپنے نظریات کی جنگ لڑ رہے تھے۔
اس رویے کا ایک اور نقصان بھی ہے۔پاکستان میں نظریات کے نام پر اب مفاداتی گروہ وجود میں آ چکے۔یہ گروہ ہر سماجی مسئلے کو اسی عینک سے دیکھتے ہیں۔ان کا مطالبہ ہوگا کہ عورت کے خلاف تشدد کے مرتکب کوشدید سزا دی جائے مگر جیسے ہی 'شدیدسزا‘ کی علمی صورت سامنے آئے گی‘یہ سزائے موت کے خلاف عَلم اٹھالیں گے۔یہاں عورت پیچھے رہ جائے گی اور لبرل ازم کی بقا مقصد بن جائے گا۔
دوسری طرف والے بھی عورت کے حقوق کی تائیدکریں گے مگر جیسے ہی عورت کو ایک مکمل شخصیت تسلیم کر نے کی بات ہوگی‘ انہیں وہ نظامِ اقدار خطرے میں گھرا دکھائی دے گا جو مرد کی برتری کا قائل ہے۔اب عورت پس منظر میں چلی جائے گی اورسماجی روایات کا تحفظ مقدم ہو جائے گا۔پھر کبھی اسلام کو ڈھال بنایا جائے گا اور کبھی روایت کو۔یہ ابہام اور انتشارِ فکر اس وجہ سے ہے کہ ہم سماجی مسائل کو گروہی و سیاسی مفادات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔اگر ہم انہیں سماجی مسائل سمجھتے تو سماجی علوم کی روشنی میں حل کرتے۔پھر سماج اوراس کی ساخت‘روایت اور اس کا پس منظر‘انسانی رویے اور ان پر مذہب وکلچر کے اثرات جیسے عنوانات کے تحت نورمقدم کے قتل کو سمجھاجاتا۔اس کی روشنی میں دیکھا جاتا کہ یہ مخلوط معاشرت کا شاخسانہ ہے یا اس کا سبب کوئی اور ہے۔اب ہم پہلے سے بنے مذہبی یا لبرل سانچے میں ہر مسئلے کو رکھتے ہیں اور پھر اس کا ایک بنابنایا نتیجہ اور حل سامنے لے آتے ہیں۔ایسے حل اکثر بے معنی اور ناقابلِ عمل ہو تے ہیں۔ مثال کے طور پر اسی مخلوط معاشرے کو دیکھ لیجیے۔پاکستان کاروایتی معاشرہ مخلوط ہے۔میں دیہاتی آدمی ہوں اور جانتا ہوں کہ زرعی معاشرہ مخلوط ہوتا ہے۔میرے پورے گاؤں میں صرف دو گھر تھے جہاں وہ پردہ رائج تھا جسے شرعی کہاجاتاہے۔ایک ہمارا گھر اور ایک سید خاندان۔ میرا ننھیالی گاؤں‘میرے گاؤں سے دو میل کی مسافت پر ہے۔ میں بچپن میں سینکڑوں بار پیداآتاجاتا رہا۔کبھی والدہ کے ساتھ‘کبھی بڑے بھائیوں کے ساتھ۔جب تک آنا جانا رہا‘اس گاؤں کے کم و بیش ہرمرد اور عورت کو جانتا تھا۔یہاں کا ہر مرد میرا ماموں تھااور ہر عورت خالہ۔یہاں کسی ایک گھر میں پردہ نہیں تھا۔اس گاؤں سے ملنے والا پیاراتنا پاکیزہ تھا کہ ہر رشتہ محبت اور احترام کا حسین امتزاج تھا۔
ہمارے دیہات کی معیشت اور ثقافت‘سب مخلوط ہیں۔مرد اور عورتیں مل کر فصل بوتے اور کاٹتے ہیں۔مویشی پالتے ہیں۔چند سال پہلے تک بے شمار گھروں کی چاردیواری نہیں ہوتی تھی۔جہاں چار دیواری ہی نہ ہو وہاں دروازے کا کیا تصور؟پورے گاؤں میں دو تین کنویں تھے جہاں سے عورتیں پانی بھرتی تھیں۔ہمارے گھر کے بالکل سامنے ایک کنواں ہے۔ ظہر سے مغرب تک محلے بھر کی لڑکیاں وہاں جمع ہوتیں۔ بحیثیت مجموعی ایک پاکیزہ معاشرت تھی اور امن تھا۔ اگر مخلوط معاشرہ ایسے واقعات کا سبب ہے تو ہمارے دیہات میں صرف انارکی ہونی چاہے تھی۔کیایہ معاشرت لبرل ازم کی عطاہے؟ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سرے سے کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ہوتے تھے لیکن بہت کم۔اس کی وجہ مجرمانہ ذہنیت ہے نہ کہ مخلوط معاشرہ۔اس ذہنیت کے مظاہر دنیا کے پاکیزہ ترین معاشروں میں بھی مل جاتے ہیں۔تاریخ کی کتب اس کی گواہ ہیں۔ایسے واقعات کو مخلوط معاشرت سے جوڑنا تعصب ہے یا فکری افلاس۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے گزشتہ دنوں میں اخلاق باختگی کے سامنے آنے والے چندواقعات کو مدرسہ کلچر کا جزوِ لاینفک بنا دیا جائے۔یہی حال دوسری انتہا کابھی ہے۔اگر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ہر قید سے آزاد کر دیا جائے اور انہیں بکثرت ایسے مواقع فراہم کردیے جائیں کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں‘ مل سکیں۔کھانے کی پابندی ہو نہ پینے کی۔قانون کا ڈر ہو نہ اخلاق کا اور اس کے بعد یہ خیال کیا جائے کہ کوئی حادثہ نہیں ہو گا تو یہ بھی اُسی درجے کا فکری افلاس ہوگا۔پہلی بات کہنے والے ایک نظری گنبد میں بند ہیں اور دوسری بات کہنے والے دوسرے گنبد میں۔
واقعہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل اس وقت ایک خود روجنگل کی طرح اُگ رہی ہے۔اکثریت ایک نقال ہے جو تہذیب کو جانتی ہے نہ کسی عادت کو شعوری طور پر اپنا رہی ہے۔ سوشل میڈیا نے اس پر معلومات کا ایک جہاں کھول دیا ہے لیکن اس میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ ان معلومات کو صحیح جگہ پر رکھ کر دیکھ سکے۔نہ گھر میں اسے کچھ سمجھایا جاتا ہے نہ تعلیمی اداروں میں۔وہ نہیں جانتی کہ نظام ِاقدار کیا ہوتا ہے۔اسے نہیں معلوم کہ تہذیب ایک پیکیج کی طرح ہوتی ہے جس میں انتخاب کا حق نہیں ہوتا۔والدین یہ خیال کرتے ہیں کہ بچے 'ماڈرن‘ ہوجائیں گے توان کا مستقبل سنور جائے گا۔یہ نہیں جانتے کہ اس ماڈرن ہونے کی ایک قیمت ہے جو چکانا پڑتی ہے۔
بچے سمجھتے ہیں کہ مغرب میں اٹھارہ سال کا بچہ آزاد ہوجاتا ہے تو ہمیں بھی ہو جانا چاہیے۔وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ وہاں اس آزادی کا مطلب معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونابھی ہے۔اٹھارہ سال بعد والدین اس کے اخراجات کے ذمہ دار نہیں ہوتے۔یہ آزادی مکمل پیکیج کا نام ہے۔یہاں بیٹا یا بیٹی باپ کے پیسے پر عیاشی کرنا چاہتے ہیں ا ور ساتھ ہی خود مختاری کامطالبہ بھی کرتے ہیں۔یہی حیثیت خاندان کے ادارے کی ہے۔جہاں خیر اور شر‘نیکی اور بدی کی تمیز سکھانے کا کوئی اہتمام نہ ہو وہاں خاندان کا ادارہ ناگزیر ہوتا ہے۔والدین اور بڑوں کا وجود ہی انسان کو بچانے کا ضامن ہوتا ہے۔مشکل میں وہی ہاتھ تھامتے ہیں۔دیکھیے‘جون ایلیا نے کیسے توجہ دلائی:
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
نور مقدم کے قتل جیسے حادثات اصلاً سماج کا موضوع ہیں‘مذہب یا نظریات کا نہیں۔ترتیب درست کیجیے‘مسئلہ سمجھ میں آ جائے گا۔