واقعات خیالات پر اثر انداز ہوتے ہیں، اگر خیالات اپنی بنیادوں میں پختہ نہ ہوں۔
گزشتہ چار دہائیوں سے ہمارا خطہ عالمی تبدیلیوں کا مرکز رہا ہے۔ 1979ء میں ایران میں انقلاب آیا اور اسی سال سوویت یونین کے خلاف افغانستان کی سرزمین پر ایک بڑا معرکہ لڑا گیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان دونوں واقعات نے دنیا کی تاریخ ہی نہیں جغرافیہ بھی بدل ڈالا۔ 9/11 کا واقعہ اگرچہ امریکہ میں ہوا مگر اس کا پہلا باب، یہ مانا جاتا ہے کہ اسی خطے میں لکھا گیا اور پھر اس کی قیمت بھی یہاں کے مکینوں نے ادا کی۔ اسامہ بن لادن کی زندگی کا آخری باب بھی یہیں رقم ہوا۔ طالبان کا عروج و زوال بھی عصری تاریخ کا اہم باب ہے جوابھی تمام نہیں ہوا۔
تاریخ نے یوں لگتا ہے کہ اس خطے میں ڈیرا ڈال دیا ہے۔ نہیں معلوم مؤرخ کو یہاں مزید کتنا قیام کرنا ہے۔ دکھائی یہی دیتا ہے کہ فی الحال، اس کے جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ نئی سیاسی تاریخ میں چین کی حیثیت مرکزی ہوگی۔ وہ موجود عالمی قوت کا ہدف بنتی ہے یا خود نئی عالمی قوت، دونوں صورتوں میں یہ خطہ تاریخ کا موضوع بنا رہے گا۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ اب جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ ہی میں نئی تاریخ لکھی جانی ہے۔
بیسویں صدی میں عالمی تاریخ، یورپ اور شمالی امریکہ میں لکھی گئی۔ فکری اور سیاسی اعتبار سے اس خطے نے تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ انسانی فکر میں جو نئے کمالات سامنے آئے، جو بڑے سیاسی فیصلے ہوئے یا سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں جو ترقی ہوئی، اس کی بنیاد اسی خطے میں رکھی گئی۔ دنیا ہرمیدان میں رہنمائی کیلئے ادھر ہی دیکھتی رہی۔ تہذیب نے یہیں ڈیرا ڈالے رکھا اور دنیا اس کی نقالی کرتی رہی۔ سوویت یونین نے فکروسیاست میں اضطراب تو پیدا کیا لیکن دنیا کو کچھ دے نہ سکا جو دیرپا ہوتا۔ یوں دنیا کے نقشے سے غائب ہوگیا۔
مشرقِ وسطیٰ اسرائیل کے قیام کے بعد مسلسل حالتِ اضطراب میں ہے لیکن اس اضطراب نے دنیا کو کم متاثرکیا۔ یہاں جنگیں بھی ہوئیں لیکن اس خطے تک محدود رہیں۔ 1979ء کے بعد حالات تبدیل ہوگئے۔ مشرقِ وسطیٰ بھی براستہ افغانستان، عملی سیاست سے جڑگیا۔ امریکہ نے دنیا کو سوویت یونین کے خلاف متحد کردیا لیکن وہ نہیں جانتا تھاکہ دراصل اس اتحاد کے بطن میں ایک نیا اتحاد پنپ رہا ہے جس کا ہدف آنے والے کل میں امریکہ نے بننا ہے۔ 1989ء میں امریکہ نے افغانستان سے اپنا دامن جھاڑلیا تھا لیکن دوسری طرف نیااتحاد جنم لے چکا تھا، جس کا امریکہ کو احساس نہ ہوسکا۔ یہاں تک کہ 9/11 کو دنیا نے اس کا شباب دیکھ لیا۔
اس خطے میں پیش آنے والے ان واقعات نے انسانی خیالات کو غیرمعمولی طور پر متاثر کیا۔ سوویت یونین کے خاتمے سے اشتراکیت کی عمارت بھی ڈھے گئی۔ کچھ سخت جان لوگوں نے اسے زندہ رکھنے کی کوشش کی لیکن بحیثیت مجموعی انسانی فکر نے اس کی طرف دوسری نظر نہیں ڈالی۔ انسان کے سیاسی و سماجی افکار پراس نظامِ فکر نے غلبہ پالیا جس نے سرمایہ داری سے جنم لیا تھا۔ یہ دنیا میں آنے والی ایک بڑی فکری تبدیلی تھی جس کی بنیاد ان واقعات میں ہے جو اس خطے میں پیش آئے۔
دوسری طرف ایک سیاسی قوت کے طور پراسلام کا احیا ہوا۔ ایرانی انقلاب نے دنیاکو دکھا دیا کہ اسلام بطور فکری قوت نہ صرف زندہ ہے بلکہ انسانی تاریخ کو متاثر کر نے کی صلاحیت سے بھی مالامال ہے۔ اسی طرح اسلام کی بنیاد پر ایک عالمگیر مزاحمتی تحریک بھی یہیں برپا ہوئی اور اس نے دنیا کا چہرہ بدل کررکھ دیا۔ طالبان بھی خالصتاً مذہبی بنیادوں پر اٹھے۔ میرے نزدیک ان تینوں صورتوں میں اسلام کا جزوی خیر ہی سامنے آ سکا اور ان سے اسلام کی تعلیمات کو بہت نقصان پہنچا لیکن بطور امرِ واقعہ، اس سے انکار محال ہے کہ ان تینوں واقعات نے مذہب ہی سے اپنی قوت کشید کی۔ ان واقعات نے ان تصورات کا ابطال کر دیا جو مذہب کو قصہ پارینہ قرار دے رہے تھے۔
اس میں شبہ نہیں کہ یہ غیر معمولی واقعات ہیں اور ان میں پوری صلاحیت موجود ہے کہ یہ انسانی خیالات پر اثرانداز ہوں۔ مثال کے طورپر طالبان کی کامیابی سے یہ نتیجہ برآمد کیا جارہا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی پر قوتِ ایمانی کی فتح ہے‘ لہٰذا دنیا کے معرکوں میں ہتھیار نہیں، ایمان اہم ہے۔ گویا طالبان کا طرزِ عمل دین کا عملی نمونہ ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بزعمِ خویش صالحین کا ایک گروہ یہ حق رکھتاہے کہ وہ بندوق اٹھائے اور قوت سے زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لے لے۔
ایمان کے اہم تر ہونے میں کسے شبہ ہو سکتا ہے لیکن کیا عالمِ اسباب میں اسباب کی کوئی اہمیت نہیں؟ اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ اسلام اور غیراسلام کا کوئی معرکہ تھا توکیا اس باب میں اسلام نے ہمیں کوئی تعلیم دی ہے کہ دشمن کے مقابلے میں تمہیں کیسی تیاری کی ضرورت ہے؟ کیا نصرتِ الٰہی کا کوئی قانون قرآن مجید نے بیان کیا ہے؟ دنیا کے معرکوں کے لیے ہمارے دین کی تعلیم کیا ہے؟
کچھ سوال عملی اوراطلاقی نوعیت کے بھی ہیں؟ کیا افغانستان میں فی الواقعہ یہ کفر اسلام کا معرکہ تھا؟ نیٹو کے اتحاد میں ترک بھی شامل ہیں جو افغانستان میں سرگرم ہیں۔ اس کا شمار ہم کس گروہ میں کریں گے؟ اس سے پہلے دنیا میں ایسے معرکے ہوئے جو خالصتاً دینی بنیادوں پر لڑے گئے‘ جیسے سید احمدشہید اور شاہ اسماعیل شہید کی تحریک۔ اس میں ان حضرات کو ناکامی ہوئی۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
طالبان کے عزم اور استقامت کے اعتراف کے باوجود، یہ سوالات اپنی جگہ قائم ہیں۔ ان کے درست جواب اسی وقت دیے جا سکتے ہیں جب ہمارے خیالات، متفرق واقعات کے بجائے محکم فکری اساسات پر کھڑے ہوں۔ اس صورت میں ہم واقعات کی توجیہہ کریں گے نہ کہ اپنے خیالات کوبدلیں گے۔ واقعات کا تسلسل بھی ایک فکری اساس کا کام کرتا ہے‘ اگر اس کی تائید دیگر ذرائع سے بھی ہوتی ہو۔ محض ایک دو واقعات کسی نظامِ فکر کی صحت کے لیے کفایت نہیں کرتے۔
اہلِ علم نے واقعات کے تسلسل سے کچھ نتائج اخذ کیے ہیں۔ بعض نے الہامی متون سے عروج و زوال کے قانون کو سمجھا ہے۔ مقدمہ ابن خلدون میں یہ مباحث موجود ہیں۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ''تجدید و احیائے دین‘‘ میں سید احمد شہید کی تحریک کا جائزہ لیا ہے۔ نتائج فکر کا واقعات پر کس طرح انطباق کرنا چاہیے، اس کیلئے ان کتب کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔
طالبان کی غیر معمولی کامیابی کو ہمارے ہاں بعض لوگ بعض ایسے خیالات کے لیے دلیل بنا رہے ہیں جو خام ہیں‘ جیسے جمہوریت کی نفی یا ٹیکنالوجی کا انکار۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ محکم فکری اساسات اور تاریخی واقعات کے تسلسل سے کشید کیے جانے والے خیالات کو محض ایک واقعے نے غلط ثابت کر دیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ الہامی ہدایت، تاریخی تسلسل اور عقلِ عام ہی پختہ خیالات کے لیے اساسات فراہم کرتے ہیں نہ کہ کوئی منفرد واقعہ۔
طالبان کی کامیابی ہماری تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی کچھ اور واقعات بھی ہوں گے۔ جو جیتے ہیں وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھیں گے اور جوہارے ہیں وہ بھی لازماً کوئی چال چلیں گے۔ یہ خطہ ابھی مزید تبدیلیوں سے گزرے گا۔ مورخ ابھی جانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ نتائج اخذکرنے سے پہلے، ہمیں اس کے قلم کی طرف دیکھنا چاہیے۔