ہر حادثہ ہمارے تصورِ اخلاق کی آزمائش ہے۔
مینارِ پاکستان پر ایک بیٹی کے ساتھ جوہوا، اس پر دو طرح کے ردِ عمل سامنے آئے ہیں۔ ایک میں تمام تر توجہ ہجوم پر ہے۔ مطالبہ ہے کہ ایسے لوگوں کو لگام دی جائے جوگھر سے نکلنے والی ہر لڑکی کو جنسِ بازار سمجھتے اور اس پر ٹوٹ پڑنے کو بے تاب ہوتے ہیں۔ جن کی نظریں لڑکیوں کا پیچھا کرتی ہیں۔ یہ ان کے لباس میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں اور موقع ملے تو دست درازی سے بھی باز نہیں آتے۔ اس کا بدترین مظہر لاہور کا واقعہ ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق، لڑکا ہو یا لڑکی، سب کو لباس کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔ کسی کا لباس، فرد یا ہجوم کی بدتمیزی کے لیے جواز نہیں بن سکتا۔ یہ ردِ عمل لبرل طبقے سے منسوب ہے، اگرچہ لازم نہیں کہ اس کو درست سمجھنے والا ہر آدمی معروف معنوں میں 'لبرل‘ ہو۔
دوسرا ردِ عمل وہ ہے جس کے مطابق اس حادثے کی ذمہ دار لڑکی خود ہے جو پبلک مقامات پرقابلِ اعتراض لباس پہنتی، نوجوانوں کے جذبات کو مشتعل اور ان کواپنی طرف مائل کرتی ہے۔ لباس کے معاملے میں لاپروا ہے اور 'شرعی پردہ‘ نہیں کرتی۔ یہ دراصل زبانِ حال سے لوگوں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ اس کی طرف پیش قدمی کریں۔ جب وہ ایسا کرتے ہیں تو پھر شکایت کیسی؟ آخر 'لڑکے‘ بھی گوشت پوست کے انسان ہیں، برف کی سل تو نہیں! یہ ردِ عمل مذہبی طبقے سے منسوب ہے، اگرچہ لازم نہیں کہ ہر مذہبی آدمی یہی موقف رکھتا ہو۔
میں ایک مذہبی آدمی ہوں مگر جزوی اختلاف کے ساتھ پہلے ردِ عمل کو درست سمجھتا ہو۔ میری تفہیم میں مذہبی اخلاقیات اسی کی تائید کرتی ہیں۔ مذہب یہ کہتا ہے کہ ہرانسان انفرادی حیثیت میں آزمائش میں ڈالا گیا ہے۔ ایک کی غلطی دوسرے کے جرم کے لیے جواز نہیں بن سکتی۔ ہر کسی کو اپنے اخلاقی وجود کی حفاظت کرنی اور خدا کے سامنے جوابدہی کے احساس کے ساتھ جینا ہے۔
قرآن مجید نے سیدنا یوسفؑ کا واقعہ سنایا اور اسے احسن القصص قراردیا۔ اس کہانی میں ایک کردار زلیخا کا بھی ہے۔ یہ معلوم قصہ ہے۔ قرآن مجید نے حضرت یوسف کی طرف زلیخا کی پیش قدمی کا نقشہ کھینچا ہے ''اور یوسف جس عورت کے گھر میں تھا، وہ اس پر ڈورے ڈالنے لگی۔ اس نے (ایک دن) دروازے بند کر لیے اور بولی: آجاؤ۔ یوسف نے کہا: خدا کی پناہ۔ وہ (تمہارا شوہر) میرا آقا ہے۔ اس نے مجھے خاطر سے رکھا ہے۔ میں یہ خیانت نہیں کر سکتا‘‘ (12:23)۔ یہ مذہبی اخلاقیات کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔
سورہ فاتحہ کے الفاظ میں ہمیں جودعا سکھائی گئی ہے، اس میں ہم اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں ان لوگوں کا راستہ دکھائیں جن پر آپ نے انعام کیا۔ ان میں سرفہرست اللہ کے پیغمبر ہیں۔ سیدنا یوسفؑ اوردوسرے پیغمبر ہمارے آئیڈیل ہیں۔ ایک صحیح روایت میں اللہ تعالیٰ کے آخری رسو ل سیدنا محمدﷺ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے میں ہوں گے جب کہیں اورسایہ میسر نہیں ہوگا۔ ان میں ایسا آدمی بھی شامل ہے جسے ایک خوبصورت اور مرتبے والی خاتون نے اپنی طرف بلایا اور اس نے کہا: میں اپنے رب سے ڈرتا ہوں۔
جب میں مذہب کی ان تعلیمات کو دیکھتا ہوں تو میرے لیے ممکن نہیں رہتا کہ میں اس واقعے میں ملوث لوگوں کے ایک قبیح فعل کے لیے جواز تراشوں، واقعے کا بوجھ لڑکی کے کندھوں پر ڈالوں اور ساتھ ہی یہ خیال کروں کہ میں دراصل مذہب کا مقدمہ پیش کررہا ہوں۔ ہم لوگوں کو اسلامی معاشرت اور حکومت کے فضائل سناتے ہیں کہ زیورات سے لدی ایک خاتون ریاست کے ایک حصے سے چلتی اور دوسرے حصے تک جا پہنچتی تھی لیکن کوئی میلی آنکھ اس کی طرف نہیں اٹھتی تھی۔ اگر یہ اسلامی معاشرہ تھا تو وہ معاشرہ اسلامی کیسے ہو سکتا ہے جہاں ایک عوامی مقام پر سینکڑوں لوگ ایک لڑکی پر پل پڑیں؟
میری تفہیمِ مذہب کے مطابق جو لوگ اس طرح لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کے لیے خطرہ بن جائیں اور عام آدمی کو خوف میں مبتلا کردیں، وہ فساد فی الارض کے مرتکب ہیں اور قرآن مجید نے ایسے لوگوں کے لیے سنگین سزا کا حکم دیا ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کوایسے مجرموں کے خوف سے نکالے۔ اس کاآئیڈیل یہی ہونا چاہیے کہ عورت زیورات سے لدی تنہا گھر سے نکلے اور کوئی اس کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھے۔
پھر یہ کہ ریاست کسی فرد کوکوئی خاص لباس پہننے کا پابند نہیں کرسکتی۔ یہ اس آزادی کے خلاف ہے جو خود عالم کے پروردگار نے انسانوں کو دے رکھی ہے۔ اس اصول کا اس یونیفارم سے کوئی تعلق نہیں جو کسی انتظامی ضرورت کے تحت فوج اور پولیس کو پہنائی جاتی ہے۔ جس طرح ریاست کسی شہری کو کوئی خاص عقیدہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی، اسی طرح وہ کسی خاص لباس کی پابندی بھی نہیں لگا سکتی۔ ریاست کی ذمہ داری اُس لڑکی کو تحفظ فراہم کرنا تھا‘ اور اگر یہ نہیں ہوا تو پھر لڑکی پر تاخت کرنے والوں کو سزا دینا اس کافریضہ ہے تاکہ آئندہ کوئی ایسی جرأت نہ کرے۔ لڑکی کا لباس ریاست کا مسئلہ نہیں ہے۔
تاہم، ہمارے تصورِ اخلاق میں حیا اور پاکیزگی شامل ہیں۔ ہمارا دین رویوں میں شائستگی چاہتا ہے۔ یہ ہمیں لباس کے آداب سکھاتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ مرد اور عورت اگر کسی عوامی جگہ پر جائیں تو ان کالباس اور رویہ کیسا ہو۔ یہ ان کے پاکیزگی کیلئے ضروری ہے۔ یہ اس معاملے کا وہ پہلو ہے جہاں مذہب کا تصورِ اخلاق، لبرل اخلاقیات سے مختلف ہو جاتا ہے؛ تاہم اس کا فیصلہ فرد ہی نے کرنا ہے کہ اس نے کیسا لباس پہننا ہے۔ دوسروں کو یہ حق نہیں کہ وہ اسے اپنے تصورِ اخلاق کے تحت کسی لباس کا پابند بنائیں۔
ایسے معاملات خدا اور بندے کا معاملہ ہوتے ہیں۔ ان میں دوسروں کو نصیحت کی جا سکتی ہے۔ اس سے زیادہ ہمیں یا ریاست کو کوئی حق حاصل نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے روزہ یا حج کا حکم ہے۔ حج فرض ہے۔ اگر کوئی آدمی استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا تو اس کا ایمان ناقص ہے؛ تاہم ریاست یا کوئی دوسرا، ایک صاحبِ استطاعت کو حج کی تلقین تو کر سکتے ہیں، حج پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ریاست کی مداخلت اُسی وقت ہوتی ہے جب کسی کا حق پامال ہو۔ اس کا تعلق جرم و سزا سے ہے اور یہ ریاست کا دائرہ کار ہے۔
لاہور کے واقعے کو خلطِ مبحث کا شکار نہیں ہو نا چاہیے۔ اس واقعے میں اہم بات ایک ہی ہے کہ کچھ لوگوں نے ایک خاتون کے وقار ہی کومجروح نہیں کیا، سماج کو بھی خوف میں مبتلا کیا ہے۔ ایسے لوگوں کو سزا ملنی چاہیے۔ رہی یہ بات کہ لڑکوں اورلڑکیوں کوعوامی مقامات پر کیسا لباس پہننا چاہیے، تویہ ایک الگ موضوع ہے۔ اس کا تعلق وعظ ونصیحت سے ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو ضرور سکھانا چاہیے کہ اس بارے میں ہمارادین اور تہذیبی روایت کیا کہتے ہیں۔ فتنے کی صورت میں توزیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
دورِفتن اور عام حالات کا فرق سامنے رکھتے ہوئے قرآن مجید نے سورہ احزاب اور سورہ نور میں مختلف لباس اور طرزِ عمل کی تلقین کی ہے۔ اس کا اہتمام کرنا چاہیے کہ اسی میں خیر ہے۔ بچوں کو لباس کے آداب کے بارے میں بتانا اور اس میں چھپی حکمت کو واضح کرنا چاہیے۔ قرآن مجید نے ان لوگوں کا الگ سے ذکر کیا ہے جو عام شہریوں کو اپنی شرارتوں سے ایذا پہنچاتے ہیں اور ان کو دنیا ہی میں عبرتناک سزا کی وعید سنائی ہے۔ ہمیں بھی اس فرق کو سامنے رکھنا ہے کہ کسے سزا دینی ہے اور کسے نصیحت کرنی ہے۔