طالبان کی کامیابی ہو یا مینارِ پاکستان کاحادثہ‘ہمارا ذہنی خلفشار ظاہر و باہر ہے۔
ہمیں امریکہ سے نفرت ہے لیکن ہماری منزلِ مراد بھی امریکہ ہے۔نئی نسل کی سب سے بڑی خواہش امریکی شہریت ہے۔ہمیں طالبان سے محبت ہے۔ہم ان کی کامیابی پر خوشی سے سرشار ہیں مگر ان کے زیرِحکومت علاقے میں رہنا نہیں چاہتے۔ہمیں مغربی تہذیب سخت ناپسند ہے مگر ہم اسی فیشن کا اپناتے ہیں جو مغرب سے آیا ہو۔ گھروں کے نقشے سے لے کر لباس تک‘ہماری ہرادا میں مغرب کا رنگ غالب ہے۔ہم جمہوریت پسندی کا دعویٰ کرتے ہیں مگر ہمارے مثالی کردار تاریخ کے مطلق العنان حکمران اور آمر ہیں۔ہم آئین شکنی اوربرتن شکنی میں کوئی فرق نہیں سمجھتے۔ہم مذہب پسند ہیں مگرنمازکی پابندی کوضروری نہیں سمجھتے۔ایک طرف ہم مجرموں کو سرِعام پھانسی دینا چاہتے ہیں اور دوسری طرف ان کے وکیل بن جاتے ہیں۔ کیا ہم نے اپنے ان تضادات پرکبھی سنجیدگی سے غورکیا ہے؟
کیا یہ تاریخ کا جبر ہے؟تاریخی جبرایک حقیقت ہے مگراسے بادلِ نخواستہ قبول کیاجاتا ہے۔ہم شعوری طور پر جانتے ہیں کہ یہ ہمارا انتخاب نہیں۔ہم نے خارجی دباؤ میں اسے اپنا لیا ہے۔مثال کے طور پر میں ایک جگہ ملازم ہوں جہاں نماز کا وقفہ نہیں ہوتا اور میں بروقت یہ فرض ادا نہیں کر سکتا۔میں نے مجبوری میں اس صورت ِحال کو قبول کیا ہے مگر میں جانتا ہوں کہ یہ غلط ہے۔جیسے ہی مجھے موقع ملا‘ میں اس ملازمت کو چھوڑ دوں گا۔یہ تاریخ کا جبرہے۔اگر میں نے اس صورتِ حال کو قبول کر لیا ہے اور ساتھ ہی نماز کوبھی ضروری سمجھتا ہوں تو یہ جبر نہیں فکری ابہام ہے۔
کیا یہ تاریخ کا جبر ہے کہ ہم امریکہ سے نفرت کرتے ہیں مگر وہاں رہنا چاہتے ہیں؟کبھی ہم نے غور کیا کہ نفرت کا سبب کیا ہے اور ہم وہاں رہنے کی خواہش کیوں رکھتے ہیں؟ میں جب اپنے اندر جھانکتا ہوں تو لگتا ہے کہ میری نفسیات بھی اس اجتماعی نفسیات سے مختلف نہیں ۔میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ میرے بچے امریکہ میں پڑھیں۔مجھے وہاں رہنے کا موقع ملے۔ لیکن دل کے کسی کونے میں امریکہ کے لیے ناپسندیدگی بھی ہے۔ میں نے مگراس تضاد پر غور کیا ہے اور اپنی دانست میں اسے حل کیا ہے۔یہ حل کیا ہے‘میں اسے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
میں رہنے کے لیے ایک ایسا معاشرہ چاہتا ہوں جہاں مجھے جان ومال کا تحفظ ملے۔میرے بنیادی حقوق محفوظ ہوں۔مجھے اپنے مذہبی اورسیاسی خیالات کے اظہار اور ان پر عمل کی آزادی میسر ہو۔مجھے میری محنت کا معقول معاوضہ ملے اور کوئی میرا استحصال نہ کر سکے۔ قانون کی نگاہ میں سب بر ابر ہوں۔میرے بچوں کو اچھی تعلیم ملے‘اچھی خوراک اور اچھا ماحول ملے۔کوئی مجھ پر اپنی کسی برتری کا رعب نہ ڈالے۔مجھے ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں۔میری علمی پیاس بجھے اورمیرے جمالیاتی ذوق کی تسکین کا سامان ہو۔ امریکہ مجھے ان سب باتوں کی ضمامت دیتا ہے۔اس لیے میں امریکہ جانا چاہتا ہوں۔
میں اس کے ساتھ یہ بھی چاہتا ہوں کہ جوزندگی امریکہ کے شہری گزار رہے ہیں‘وہی زندگی دوسرے معاشروں اور ممالک کے شہری بھی گزاریں۔کوئی ان پر ظلم نہ کرے۔انہیں اپنے نمائندوں کے انتخاب کا حق حاصل ہو۔دوسرے معاشروں کے بچے اچھی تعلیم سے محروم نہ ہوں۔ان کے وسائل ان ہی پر خرچ ہوں۔ میں جب دیکھتا ہوں کہ امریکہ ایک عالمی قوت کے طور پرنہ صرف اس کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کرتابلکہ اس کے برعکس‘ظلم کرتا ہے۔دنیا پر اپنا تسلط قائم کر نا چاہتا ہے۔ظالم حکمرانوں کی مدد کرتا ہے۔ دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے ‘دوسروں کو کم تر سمجھتا ہے تو پھر وہ میرے لیے ایک ناپسندیدہ قوت بن جا تا ہے۔
اس تعبیر سے میرا ایک تضاد دور ہو گا لیکن اس کے کچھ مضمرات ہیں۔ دیگر تضادات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ میں پاکستان کے بارے میں بھی ایک ایسے ہی معاشرے کا خواب دیکھوں۔جہاں لوگوں کومذہبی آزادی حاصل ہو۔وہ اپنے مذہبی اور سیاسی خیالات کے اظہار میں آزاد ہوں اور انہیں کسی طرح کا خوف نہ ہو۔جہاں اکثریت اقلیت پر جبر نہ کرے۔جہاں مذہب کے نام پر لوگوں کی جان نہ لی جائے۔جہاں کوئی ہجوم کسی لڑکی کی آبرو کے درپے نہ ہو۔
پھر لازم ہے کہ میں ایسے پاکستان کا خواب دیکھوں جہاں کے تعلیمی اداروں میں تحقیق کی آزادی ہو۔جہاں کسی خوف کے بغیر لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں۔ جہاں میرے نظریات کی بنا پر مجھے کسی تعصب کا شکار نہ بنایا جائے۔مجھ پر علمی تنقید ہو مگر کوئی میری جان کے درپے نہ ہو۔ اگر میں کسی ذہنی خلفشار کا شکار نہیں تو پھر مجھے چاہیے کہ میں پاکستان کو بھی امریکی معاشرے کی طرح بنانے کی کوشش کروں۔
پھر میں یہ چاہوں کہ افغانستان میں بھی ایسا معاشرہ وجود میں آئے جہاں کسی پر جبر نہ ہو۔کسی خاص گروہ کی حکمرانی نہ ہو۔جہاں بندوق فیصلہ کن نہ ہو۔جہاں سب کے حقوق بر ابر ہوں۔ اگر میں ذہنی یکسوئی رکھتا ہوں تو پھر میں ساری دنیا کو ایک جیسا دیکھوں گا۔یہ نہیں ہو سکتا کہ میں اپنے رہنے کے لیے ایک سیکولر معاشرے کا انتخاب کروں اور دوسروں کے لیے نظریاتی معاشرہ پسند کروں۔خود تو فکری آزادی کی آرزو کروں اور دوسروں کو ایک بند معاشرے کی فصیل میں قید دیکھناچاہوں۔
جب میں اپنے تضادات پر سوچنا شروع کرتا ہوں تو پھروہ سب سوالات ایک دوسرے سے مربوط دکھائی دیتے ہیں جو میں نے ابتدا میں اٹھائے ہیں۔پھراس سے یہ بنیادی سوال جنم لیتا ہے کہ میرا تصورِ حیات(world view) کیاہے؟امریکہ اگر ایک مرحلے پر میرے لیے ناپسندیدہ ہو جاتا ہے تو اس کی وجہ اس کا تضاد ہے۔جو امریکہ ریاست اپنے شہریوں کے لیے چاہتی ہے‘وہ دوسرے ممالک میں رہنے والوں کے لیے کیوں نہیں چاہتی؟اگر امریکہ کا تضاد مجھے گوارا نہیں تو اپنا تضاد کیسے گورا ہو سکتا ہے؟
فکری مغالطے اور تضادات اسی لیے جنم لیتے ہیں کہ ہماری سوچ خام ہو تی ہے۔اگر ہم جمہوریت پسند ہیں تو پھر آمریت کے گیت نہیں گا سکتے۔پھر کوئی مطلق العنان حکمران ماضی کا ہو یا حال کا‘ہمارا ہیرو نہیں ہو سکتا۔جمہوریت اگر امریکہ میں اچھی ہے تو لازم ہے کہ پاکستان کے لیے بھی اچھی ہو۔مذہبی آزادی اگر وہاں خوبی ہے تو اسے یہاں بھی خوبی ہونا چاہیے۔جبر اگر وہاں نا قابلِ قبول ہے تو یہاں بھی قابلِ قبول نہیں ہو ناچاہیے۔ذہن اور عمل کا یہ تفاوت اس بات کا اظہار ہے کہ ہم فکری طور پر انسانی قافلے سے بچھڑ گئے ہیں۔عالمگیریت کے دور میں‘ ہم مجبور ہیں کہ دوسروں سے قدم ملا کر چلیں ۔ عملاً ایک ساتھ قدم اٹھانے کے باوجود‘ہم ذہنی طور پر ساتھ نہیں چل رہے ہوتے۔یہ ایک درجے میں تاریخ کا جبر ہے ‘لیکن ہمارے اندر یہ احساس بھی موجود نہیں کہ ہم ایک غیر پسندیدہ دنیا میں رہ رہے ہیں۔ہم اسے اپنانا بھی چاہتے ہیں اور قبول کرنے سے گریزاں بھی ہیں۔
طالبان کی فتح ہویا لاہور کا حادثہ‘ دونوں کے بارے میں ہم اسی کیفیت سے دو چار ہیں۔ہم ایک موقف اپناتے ہیں مگر اس کے مضمرات پر غور نہیں کرتے۔ ردِ عمل میں سوچتے اور تصورات قائم کرتے ہیں۔عام آدمی کا کیا قصور کہ جن کے ہاتھ میں ریاست اور معاشرے کی زمامِ ِکار ہے‘ ان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ابہام درابہام جو پہلے دن سے ہمارامسئلہ ہے۔ہم قومی ریاست اورمذہبی ریاست کے فرق کو ابھی تک دور نہیں کر سکے۔ فکری یک سوئی ہر سفر کا پہلا قدم ہے۔ہر نیا واقعہ ہمیں اس جانب متوجہ کرتا ہے۔