''طالبان بدل گئے ہیں۔طالبان کی نئی نسل پہلی سے مختلف ہے‘‘۔
طالبان کے حامی یہ بات کہتے اور لکھتے‘ سنائی اور دکھائی دیتے ہیں۔ ان جملوں میں یہ بات مضمر ہے کہ طالبان کی پہلی نسل نے جو کچھ کیا‘ وہ سب درست نہیں تھا۔ طالبان کی پہلی نسل نے ایسا کیا کیا تھا؟ نئی نسل پہلی سے مختلف کیسے ہے؟ انہیں مختلف دکھائی دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ یہ 'اختلاف‘ نظر کا دھوکہ ہے یا حقیقی ہے؟ آج کا کوئی تجزیہ کار ان سوالات سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔
طالبان ایک ایسا مزاحمتی گروہ ہے جس نے ایک نظریے کے تحت اپنی مزاحمت کو منظم کیا۔اسی نظریے کی روشنی میں اپنی حکمتِ عملی بنائی۔جب انہیں اقتدار ملا تو اسی نظریے کے مطابق حکومت کی۔حکومت ختم ہوئی تو اپنی مزاحمت کو بھی اسی نظریے کے تابع قرار دیا۔جب یہ کہا جاتا ہے کہ طالبان بدل گئے ہیں تو کیا اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی نظریاتی کایا کلپ ہوگئی ہے؟لازم ہے کہ اس تحریک کو کسی تعصب کے بغیر سمجھا جائے۔ تعصب صحیح نتیجے تک پہنچنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔کم علمی جیسے دیگر عوامل بھی ہیں لیکن تعصب سب سے بڑاحجاب ہے۔
طالبان کی اس تحریک کو تین زاویوں سے سمجھنا چاہیے:ایک نظریاتی ساخت۔ دوسرا اپنے عہد کا ادراک۔تیسرا حکمتِ عملی۔ نظریاتی حوالے سے ہم جانتے ہیں کہ طالبان کا تعلق دیوبند کی فکری روایت سے ہے۔ یہ روایت فقہ حنفی اور تصوف کا ایک مرقع ہے۔تاہم اس روایت میں نئے مضامین بھی شامل ہوتے گئے۔جیسے مولانا تقی عثمانی صاحب کے ہاں جدید مالیاتی نظام اور بینکنگ سسٹم کا اثبات۔یہ حنفی اصولِ فقہ کے دائرے میں رہتے ہوئے جدید معیشت کی تفہیم ہے۔ اس سے اگرچہ مسلکِ دیوبند ہی کے ایک گروہ نے اختلاف کیا لیکن تقی عثمانی صاحب کی تفہیم کو قبولیت ِ عامہ حاصل ہوئی۔
پاکستان کے اہلِ دیوبند نے جدید جمہوری نظام سے بھی ایک طرح کا ارتباط پیدا کیا۔ ایک آئین کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا جو پارلیمانی نظام کی تائید اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کو تسلیم کرتا ہے۔ آئین‘ ووٹ‘ پارلیمانی جمہوری نظام‘ سیاسی جماعتوں کا قیام‘ یہ سب جدید جمہوری نظام سے منسوب تصورات ہیں جنہیں قبول کیا گیا ہے۔ اسلامی تشخص کے لیے‘ آئین میں یہ دفعہ بھی شامل کی گئی کہ کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ آئین‘ قانون سازی کا حق پارلیمان کو دیتا ہے اور اسے کسی خاص فقہی تعبیر کا پابند نہیں بناتا۔ دوسری طرف بھارت میں دیوبندی علما سیکولرا زم کو درست سمجھتے اور بھارت کو ایک سیکولر ریاست دیکھنا چاہتے ہیں۔
طالبان کا تصورِ ریاست کیا ہے؟ وہ پاکستانی علمائے دیوبند کی تعبیرسے متفق ہیں یا بھارت کے علما کے خیالات سے؟ ماضی میں انہوں نے امارت اسلامی کی بات کی۔ یہ تصورِریاست موجودہ جمہوری نظام کو قبول نہیں کرتا۔ اس کے جو خدوخال‘ طالبان کے پہلے دور میں سامنے آئے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دراصل ایک مذہبی ریاست کے قائل ہیں۔ ایسی ریاست جو مذہبی طبقے پر مشتمل ہے اور مشاورت کا عمل بھی اسی طبقے تک محدود ہے۔ معاصر دنیا میں ایران اس کی ایک مثال ہے۔
کیا آج طالبان کا یہ تصورِ ریاست بدل گیا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ نئے طالبان نے واضح لفظوں میں بتا دیا ہے کہ وہ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ مشاورت کو مانتے ہیں اور وہ بھی علما سے۔ جدید طالبان سے جب عورتوں اور پردے کے بارے میں سوال ہوا تو ان کا جواب یہی تھا کہ اس کا تعین علما کریں گے۔ اس لیے نظری اعتبار سے نئے طالبان بھی وہی ہیں جو قدیم طالبان تھے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا آج کے علما بھی وہی ہیں یا بدل گئے ہیں؟ اس کے لیے ہمیں اس وقت کا انتظار کرنا پڑے گا جب وہ سماجی ‘سیاسی اور معاشی امور پر کوئی حکمت عملی بنائیں گے۔ آثار یہی ہیں کہ ان کی سوچ میں بھی کوئی تبدیلی نہیں۔
رہاعصری تناظر توآج کے طالبان کے ہاں عملیت پسندی غالب ہے۔ طالبان امریکہ سمیت کسی کے ساتھ مخاصمت نہیں چاہتے۔نئے طالبان کو اس کا ادراک ہے کہ ساری دنیا سے بیک وقت لڑائی مول نہیں لی جا سکتی۔پہلے دور میں بھی اگرچہ انہوں نے خود کو افغانستان ہی تک محدود رکھا مگروہ دنیا کو دارالاسلام اور دار الکفرمیں منقسم دیکھتے تھے۔ اس بار ایسا نہیں ہے۔وہ دوسروں کے حقِ اقتدار کو بھی قبول کر رہے ہیں اور اسے مذہبی نظر سے نہیں دیکھ رہے ۔اس باب میں اصل امتحان اس وقت شروع ہو گاجب انہیں دنیا کے ساتھ معاملات کرنا پڑیں گے۔ہرملک اقوام ِ متحدہ کارکن ہونے کے ناتے کئی معاہدوں میں جکڑا ہوا ہے۔ان کی پاسداری رکن ممالک پر لازم ہے۔ان معاہدوں میں سے بہت سی دفعات ایسی ہیں جو طالبان کے تصورِ حیات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔کیا طالبان یہاں بھی کسی تبدیلی کا مظاہرہ کریں گے؟اس سوال کے جواب کے لیے ابھی انتظار کرناہوگا۔
اب آئیے حکمتِ عملی کی طرف۔اس کے آثار موجود ہیں کہ طالبان کی حکمتِ عملی بھی اب تبدیل ہو رہی ہے۔پہلے دور میں رومان کا غلبہ تھا۔یہ افغان روایات کے ساتھ رومان ہی تھا جو اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے میں مانع ہوا۔ طالبان کے صرف اس ایک فیصلے نے دنیا بد ل دی۔ ان کی حکومت کا خاتمہ توہوا ہی‘دنیا ایک نئے خلفشار میں مبتلا ہوئی جس سے آج تک نہیں نکل سکی۔اب خود طالبان حکومت کو القاعدہ اور داعش جیسے چیلنجوں کا سامنا ہوگا۔کابل کا دھماکہ آنے والے خطرات کو بیان کر رہا ہے ۔آج کے طالبان کو اپنے ملک کو دہشت گردی سے محفوظ بنانا ہے۔ آج القاعدہ ان کی حلیف نہیں‘حریف ہو گی۔
طالبان نے اس بار دیگر سیاسی گروہوں کے وجود کو تسلیم کیا ہے۔آج اگر چہ عبدا للہ عبداللہ اور حامد کرزئی کو نظر بند کر دینے کی خبر بھی ہے لیکن یہ خبر تصدیق کی محتاج ہے۔ اگر طالبان نے ایک وسیع البنیاد حکومت کی طرف پیش قدمی کی تو خانہ جنگی کے امکانات کم ہو جائیں گے۔سوال یہ ہے کہ وہ وسیع البنیادحکومت کے ساتھ امارتِ اسلامی کے اس تصور کو کیسے امرِ واقع بنا سکیں گے‘طالبان جس کے داعی ہیں؟ یہ بات تو طے ہے کہ دنیاسے کٹ کر‘ اس زمین پرکوئی اپنے خوابوں کا جزیرہ آباد نہیں کر سکتا۔امریکہ ایسا کر سکا ہے نہ کوئی اور۔یہاں ہر کسی کو تبدیل ہو نا پڑتا ہے۔ زندگی ایک شاخِ نازک کی لچک کامطالبہ کرتی ہے۔وہ ہوا کے دوش پر جھولتی ہے مگر تنے سے جڑی رہتی ہے۔وہ جانتی ہے کہ وہ ایک حد تک ہی ہوا کی مزاحمت کر سکتی ہے۔زیادہ مزاحمت ان کو تنے سے جدا کردے گی۔
طالبان کو اب بلا تاخیر ایک نظام کی طرف پیش قدمی کرنی ہے۔پہلے امن اور پھر نظام۔امن کے لیے اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔نظام کے لیے افرادِ کا راوروسائل کی ۔دنیا نے ابھی تک ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اس لیے سرِ دست کسی بین الاقوامی معاہدے کا تو سوال ہی نہیں۔دنیا مان تو لے گی لیکن کچھ ضمانتیں چاہے گی۔کیا طالبان اس پر آمادہ ہوں گے؟
تصورِ حیات اور معاصر دنیا کے فہم کا امتزاج درست حکمتِ عملی کی اساس بن سکتے ہیں۔ تصورِ حیات کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو‘ عملی افادیت نہیں رکھتا اگر اپنے زمانے سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ انسانی بصیرت کے لیے امتحان یہی ہے کہ وہ اس بات کے ادراک کے ساتھ کوئی حکمتِ عملی بناتا ہے یا اس سے بے نیاز ہو کر۔ طالبان کو کتنا تبدیل ہونا ہے‘ اس کا انحصار بھی اسی بات پر ہے۔ تبدیل ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ تبدیلی کے بعد بھی کیا وہ طالبان ہی رہیں گے؟