قیامِ پاکستان کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ مسلم اشرافیہ کے مفادات کا تقاضا تھا یا مسلمان اپنے تہذبیی شناخت کے لیے ایک الگ وطن چاہتے تھے؟ پاکستان کا نظریاتی بحران کیا ہے؟
قیامِ پاکستان کے چوہتر برس بعد بھی، یہ وہ زندہ سوالات ہیں جو اہلِ دانش کواپنی جانب متوجہ رکھتے ہیں۔ اس کا ایک تازہ ثبوت احمد اعجاز کی نئی کتاب ہے۔ اس کا عنوان ''پاکستانی ریاست کا نظریاتی سراب‘‘ کتاب کے موضوع پر ناطق ہے۔ کتاب پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوالات آج تک کیوں زندہ ہیں؟ مزید یہ کہ ریاست نے اپنی حکمتِ عملی سے ہر نسل کے نظری انتشار میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔
قیامِ پاکستان، ہماری درسگاہوں میں زیادہ تر ایک تاریخی واقعے کے طور پر زیرِ مطالعہ رہا ہے۔ تاریخ ہمارے لیے واقعات کا بیان ہے۔ فلاں تاریخ کو انگریز آئے۔ فلاں سال جنگِ آزادی لڑی گئی۔ فلاں برس تحریکِ خلافت برپا ہوئی۔ فلاں سال مسلم لیگ قائم ہوئی۔ اگر کسی نے اس سے بڑھ کر اس موضوع پر کچھ دادِ تحقیق دی توانگریزوں کی چالوں اور ہندوئوں کی ریشہ دوانیوں کو بھی بیان کر دیا۔ قیامِ پاکستان کے بارے میں ہمارا عمومی علم یہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں یہی پڑھایا جاتا ہے اوراعلیٰ تحقیق بھی کم و بیش اسی کی شرحِ مزید ہے۔
کوئی تاریخی واقعہ اچانک رونمانہیں ہوتا۔ یہ کسی معاشرے کے ساخت اور حرکیات میں مسلسل آنے والی تبدیلیوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ تبدیلیاں بعض اوقات داخلی کشمکش کا حاصل ہوتی ہیں اورکبھی خارجی عوامل کے زیرِ اثر برپا ہوتی ہیں۔ کسی تاریخی واقعے کا ہمہ جہتی مطالعہ سماجی علوم کا موضوع ہوتا ہے۔ پاکستان کا قیام، ہمارے ہاں سماجیات کا موضو ع کم ہی بن سکا ہے۔ چوہتر برس بعد بھی اگر یہ سوالات زندہ ہیں تو اس کا سبب یہی ہے۔
احمد اعجاز ان چند لکھنے والوں میں سے ہیں جوقیامِ پاکستان کو ایک وسیع تر سماجی تناظرمیں دیکھتے ہیں۔ جن کو اصرار ہے کہ یہ اتنا سادہ تاریخی عمل نہیں ہے جس طرح بیان کیا جاتا ہے۔ یہ دراصل شناخت کا ایک بحران تھا جس نے پاکستان کو جنم دیا تاہم ان کے ہاں یہ شناخت مذہبی نہیں تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگریہ مذہبی شناخت نہیں تھی تو پھر کیا تھی؟
ا حمد اعجاز نے اس سوال کو اپنے مسلسل غوروفکر کا موضوع بنارکھا ہے۔ ان کی پہلی کتاب ''شناخت کا بحران‘‘ ان کے اس فکری سفر کا پہلا پڑاؤ تھا۔ زیرِ نظر کتاب دوسرا۔ اس کتاب کے دوابواب ہیں۔ پہلے باب میں قبل از تقسیم دور کو موضوع بناتے ہوئے یہ مقدمہ قائم کیا گیا ہے کہ پاکستان شہروں میں آباد مسلم اشرافیہ کے مفادات کی ضرورت تھی جسے مسلم تہذیبی شناخت کاعنوان دیا گیا۔ دوسرا باب بعد ازتقسیم عہد سے متعلق ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ 'قراردادِ مقاصد‘ ہمارے نظری بحران کی جڑ ہے۔ اس سے ایک نئی مملکت کو مصنوعی شناخت دینے کی کوشش کی گئی جس سے گاڑی پٹری سے اتر گئی۔ ریاست نے مذہب کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیااور عوام کے مفادات سے صرفِ نظر کیا گیا۔ عوام کے حصے میں بھوک اور افلاس کے سوا کچھ نہیں آیا۔
احمد اعجاز نے اپنے مقدمے کی تائید میں ڈاکٹر مبارک علی، حمزہ علوی اور روبینہ سہگل جیسے اہلِ دانش کی آرا کونقل کیا ہے۔ قیامِ پاکستان کی جو تعبیر سماجی علوم کے ان ماہرین نے پیش کی، احمد اعجاز کی کتاب اس کی تاکیدِ مزید ہے یا تحقیقِ مزید۔ یوں یہ مقدمہ اہلِ علم کے لیے اجنبی نہیں۔ احمد اعجاز نے اسے موجودہ حالات سے جوڑ دیا ہے۔ اس طرح ایک جاری بحث کو‘ جو محدود حلقے میں تھی، علمی متانت کے ساتھ آگے بڑھایا ہے۔
سماجی علوم میں، اکثر ایک جیسے واقعات سے مختلف نتائج اخذکیے جاتے ہیں۔ یہ اہلِ دانش اور محققین کے اندازِ فکر اورتصورِ حیات کا فرق ہے جو نتائجِ فکر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ دانشور کا تصورِ انسان اور تصورِ سماج اس کے تصورِ حیات کے تابع ہوتا ہے۔ اسی کا اظہار اس کے تجزیے میں ہوتا ہے۔ میں اس بات کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔
علامہ اقبال ہندو مسلم اختلاف کومذہبی سے زیادہ ایک سماجی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اس کو انہوں نے خطبہ الہ آباد میں شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کے خیال میں یہ مذہب نہیں، تصوراتِ سماج کا فرق ہے جو دونوں کے ایک ساتھ رہنے میں مانع ہے کیونکہ جب سماج کے بارے میں آپ کے تصورات مختلف ہوجاتے ہیں تو آپ مل کر ایک سماج تشکیل نہیں دے سکتے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر یہ مسئلہ مذہبی ہوتا تو مسلم مسیحی تعلقات بھی اسی نہج پر استوار ہوتے، درآں حالیکہ ایسا نہیں ہے۔ علامہ اقبال کے خیال میں ابراہیمی ادیان انسانوں کی وحدت کے قائل ہیں۔ اس لیے مل کر ایک سماج بنا سکتے ہیں۔ ہندو‘ سماج کوبرہمن اور شودر جیسے طبقات میں تقسیم کرتے ہیں جس کے بعد وحدتِ آدم کا تصور باقی نہیں رہتا جو انسانوں کے ایک ساتھ رہنے کی اساس بن سکتا ہے۔ اسی مقدمے کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ برِصغیر کے مسلم سماج میں بھی یہی اونچ نیچ موجود ہے۔ ہمارے ہاں بھی چوہدری اور کمی کے تصورات راسخ ہیں جو دراصل جاگیردارانہ کلچر اور سوچ کا ناگزیر نتیجہ ہیں۔ اسی وجہ سے ہم مذہبی طور پر ایک ہوتے ہوئے بھی احترامِ انسانیت پر مبنی معاشرہ تشکیل نہیں دے سکے۔ گویا مذہبی ہم آہنگی لازم نہیں کہ سماجی آہنگی پیدا کرے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان، مذہبی ہم آہنگی کے باوجود اگر ساتھ نہیں چل سکے تو اس کا سبب مغربی پاکستان کے لوگوں کا احساسِ برتری تھا۔
علامہ اقبال اگرچہ مذہبی پیراڈائم میں سوچنے والے آدمی تھے لیکن برصغیر کے سیاسی مسئلے کو انہوں نے اپنے فکری ڈھانچے سے ہٹ کر دیکھا۔ بعد میں اگرچہ ہندو مسلم اختلاف ایک مذہبی مسئلہ سمجھا گیا اور علامہ اقبال کواس تعبیر کا خالق۔ ایک دوسرا نتیجہ فکر وہ ہے جسے احمد اعجاز جیسے اہلِ دانش انہی واقعات سے اخذ کرتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر مذہب کو سماجی و سیاسی شناخت کے عمل میں فیصلہ کن عامل کے طور پر قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ یہ طبقہ مذہب کے کردار کو تسلیم کرتا ہے مگر اس کی تعبیر یہ ہے کہ مذہب کو مسلم اشرافیہ اور تنخواہ دار طبقے نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔
ان دونوں مقدمات میں مذہب کے سماجی مقام کا تعین محلِ نظر ہے۔ یہ بات کہ تقسیم کی واحد وجہ مذہب تھی، شاید پوری طرح درست نہیں۔ بایں ہمہ، یہ سمجھنا بھی درست نہ یںکہ مذہب قومیت کی اساس نہیں بن سکتا۔ قوم اس وقت بنتی ہے جب انسانوں کا کوئی گروہ متنوع شناختوں کی موجودگی میں، کسی ایک اجتماعی شناخت پر متفق ہو جائے۔ یہ شناخت کسی تاریخی عمل کے نتیجے میں مذہب بھی بن سکتا ہے۔ تاریخِ پاکستان میں یہی ہوا۔
کیا پاکستان بننے کے بعد بھی اس پر اصرار درست تھا؟ ''قراردادِ مقاصد‘‘ کیا غیر ضروری تھی؟ مجھے اس معاملے میں ڈاکٹر مبارک علی کی اس بات سے اتفاق ہے جو احمد اعجاز نے اپنے موقف کی تائید میں نقل کی۔ ان کا کہنا ہے کہ مذہب کو سیاست سے الگ کرنے کے نتیجے میں مذہب کمزور نہیں ہوتا کیونکہ اس کی قوت کا ماخذ حکومت نہیں، لوگوں کا عقیدہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ریاست کی حمایت سے، مذہب ریاست کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ جب ریاست کمزور ہوگی تو مذہب بھی کمزور پڑ جاتاہے۔ اس کتاب نے قیامِ پاکستان کے باب میں پیدا ہونیوالے سوالات کودرست تناظر میں اٹھایا ہے۔ کوئی جواب سے اختلاف کر سکتا ہے لیکن سوالات کو صحیح تناظر میں اٹھانا فی نفسہٖ ایک بڑا کام ہے۔ میں اس پر مصنف کو مبارکباد دیتا ہوں۔ یہ کتاب اس موضوع پر مزید تحقیق کا راستہ کھولتی ہے کہ ع
ہزار بادہ ناخوردہ در رگِ تاک است