اردوہماری تہذیبی شناخت ہے۔اس سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو۔اختلاف بعض دوسرے امور میں ہے ۔مثال کے طور پرکیا یہ شناخت ہمیں مطلوب بھی ہے؟ تہذیبی شناخت کے لیے صرف ماضی سے وابستگی کافی ہے یا اس کے کچھ مطالبات مستقبل سے متعلق بھی ہیں۔
مادی ترقی نے زندگی کے طور طریقوں کو بدل ڈالا ہے۔رہن سہن سے لے کر وسائلِ پیداوار تک‘سب بدل چکا۔اس سے وہ ادب دھیرے دھیرے متروک ہوتا جا رہا ہے جو پچاس ساٹھ سال پہلے تک لکھا گیا۔وہ کلچر اب باقی نہیں جس سے تشبیہ واستعارہ اٹھے تھے ۔چرخہ اب کہیں نہیں ہے۔نئی نسل نے چرخہ دیکھا نہ اس کی کوک سنی۔اور تو اور لوح و قلم تک متروک ہوچکے۔غالب و میر کی تشبیہ کوآج کی نسل سمجھتی ہے نہ اقبال اور فیض کے استعاروں کو۔غالب و اقبال کے بغیر کون سی تہذیب اور کیسی روایت؟
تہذیب ہو یا روایت‘یہ تب ہی زندہ رہتی ہیں جب لہو کی طرح کسی جماعت کی رگوں میں دوڑتی رہیں۔جس دن لہو کی گردش رکی‘جان لیجیے کہ موت نے آ لیا۔رگوں میں دوڑنے کا مطلب ہے کہ تہذیبی مظاہر روز مرہ زندگی کا حصہ بنے رہیں۔ اردو پڑھائی جاتی رہے۔شاعرکی تشبیہات اور استعارے کلچر سے جڑے رہیں۔ اگر یہ نہیں ہیں تو پھر مصنوعی تنفس سے انہیں زندہ نہیں کیا جا سکتا۔
تہذیبوں کو زوال کیوں آتا ہے؟ ابن خلدون‘ٹائن بی‘ سپنگلر‘ پال کینیڈی جیسوں نے ہزاروں صفحات سیاہ کر دیے‘اس سوال کے جواب میں۔سادہ بات یہ ہے کہ زبان جب زندگی کے ساتھ ہم قدم نہ ہوسکے تو تہذیب کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔زندگی کو تو ہم سفر اور زادِ راہ چاہیے۔جو ساتھ چلتا ہے‘بالآخر شناخت بن جا تا ہے۔آئیے‘ اس بات کی شرح کرتے ہیں۔
آج زندگی کا سامانِ سفر علم ہے۔ زندگی کو آگے بڑھنے کے لیے علم کی ضرورت ہے۔ علم ابلاغ کا محتاج ہوتا ہے۔ جو زبان علم کا ابلاغ کرتی ہے‘ وہی یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ زندگی سے ہم قدم ہو سکے۔ زندگی پھر اس کے متعین راستے پر چل نکلتی ہے۔ اردو علم کی زبان نہیں بن سکی۔ یہ کام انگریزی نے کیا۔ یوں زندگی کا قافلہ اس کے ساتھ چل نکلا۔ اب زندگی نے اسی تہذیب کو اوڑھنا تھا‘انگریزی زبان جس کا دروازہ ہے۔
کوئی زبان دو صورتوں میں علم کی زبان بن سکتی ہے‘ایک یہ کہ علم اس زبان میں تخلیق ہو۔ دوسرا یہ کہ علم دنیا کی کسی بھی زبان میں تخلیق ہو‘ یہ زبان اسے اپنے دامن میں سمیٹ لینے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ عباسیوں کے دور میں عربی نے یہ حیثیت حاصل کر لی تھی۔ یوں عربی تہذیب کی زبان بن گئی اور عربوں کا رواج دنیا کا فیشن بن گیا۔ دنیا ارسطو سے واقف ہوئی تو عربی کے طفیل۔ پھر ایک دور آیا کہ یہ حیثیت انگریزی کو حاصل ہوگئی۔ یہ غزالی و ابن سینا ہوں یاکانٹ وہیگل‘انیسویں صدی میں اگر ان کا فیض عام ہوا تو انگریزی کی معرفت سے۔
آج تہذیب کی باگ سائنس کے ہاتھ میں ہے اور اردو سائنس کی زبان نہیں بن سکی۔ سائنس سے عام طور پر طبیعی علوم مراد لیے جاتے ہیں۔ اردو تو سماجی علوم کی زبان بھی نہیں بن سکی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اردو میں یہ صلاحیت نہیں تھی۔ اردو انیسویں صدی میں اپنی یہ حیثیت منوا چکی تھی کہ وہ سائنس کی زبان بن سکتی ہے۔ اسی برصغیر میں ایسا میڈیکل کالج قائم ہوا جہاں جدید طب کی کتب اردو میں پڑھائی جا تی تھیں۔ یہ ترجمے کی بدولت ممکن ہوا۔ علی گڑھ سے جامعہ عثمانیہ تک ایک دور ہے جب دنیا کے علم کو اردو میں منتقل کرنے کا کام ہوا۔ انیسویں اور بیسویں صدی اس لحاظ سے بھی اہم تھی کہ اردو میں تخلیقی سطح پر بھی اعلیٰ کام ہوا۔ خاص طور پر ادب اور اسلامی علوم میں۔ یہ غالب اوراقبال کا دور ہے جن کی تخلیقی وفور سے کون انکار کر سکتا؟ یہ شبلی نعمانی‘سید مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کا عہد ہے جنہوں نے تفسیر و تاریخ کے باب میں جو کچھ لکھا‘ پورے عالمِ اسلام میں اس کی کوئی نظیر مو جود نہیں ہے۔
ہم آزاد ہوئے تو اپنی تہذیب اور روایت بھی آزاد ہوتے گئے۔ اقبال نے ایک وقت نوحہ لکھا کہ سرسید و حالی کی مسند خالی ہوگئی۔ اردو کی جب سرپرستی نہ ہوئی تو کوئی ان حضرات کا سجادہ نشین نہ بن سکا۔ اردو میں ترجمے کی روایت کمزور پڑ گئی اور اس میں نیا علم بھی تخلیق نہ ہو سکا۔ علم کے مراکز کیمبرج اورہارورڈ بن گئے۔ زندگی تو رک نہیں سکتی تھی۔ اس نے آگے بڑھنا تھا۔ نئی نسل کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ اگر اسے زندہ رہنا ہے تو انگریزی سے اپنا مستقبل وابستہ کر لے۔ مزید ظلم یہ ہوا کہ پاکستان کے داخلی نظام کی زبان بھی انگریزی تھی۔ کوئی علم حاصل کرنا چاہے یا اچھی نوکری‘اس کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ انگریزی سیکھے۔ اس طرح معاشرے کی ذہانتیں اردو سے دور ہوتی گئیں۔
جب انگریزی اشرافیہ کی زبان بن گئی تو لازم تھا کہ دوسری زبانیں احساسِ کمتری کا شکار ہو جائیں۔ آج ایک پاکستانی نادرست اردو بولنے کو عیب نہیں سمجھتا‘ کوئی انگریزی بولنے میں غلطی کرے تواس کا مذاق اڑاتا ہے۔ یہی نہیں‘وہ اپنے اس عیب کو برتری کے احساس کے ساتھ بیان کر تا ہے۔ آدمی شرم سے ڈوب مرتا ہے جب یہ دیکھتا ہے کہ اس کے بچے اردو کی عبارت کو رومن میں لکھتے ہیں۔
آج انگریزی کو اپنا لیا گیا۔یوں تہذیبی حساسیت بھی ختم ہو گئی ہے۔ اب انگریزی اس طرح رچ بس چکی ہے کہ کسی زیاں کا احساس ہی باقی نہیں رہا۔ وطن کے ساتھ ایک فطری عصبیت وابستہ ہو تی ہے ‘وہ تو موجود ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ کسی تہذیبی عصبیت کا اظہار ہے۔ اب کوئی بہ طیبِ خاطر اردو نہیں سیکھنا چاہتا۔ اردو دو وجوہ سے اس کی ضرورت تھی‘ایک اس لیے کہ یہ تہذیب کی زبان تھی۔جب تہذیبی حساسیت باقی نہیں رہی تو اردو سے تعلق بھی باقی نہیں رہا۔ اسی لیے میں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا تہذیبی شناخت ہمیں مطلوب بھی ہے؟ دوسری وجہ یہ ہو سکتی تھی کہ اردو اس کی مادی ضرورت بنتی۔یہ تب ہوتا اگر اردو معاصر علم کی زبان ہو تی۔
اردو کو اگر ہم رائج کر نا چاہتے ہیں تو یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب یہ علم کی زبان بنے گی۔ اس کے لیے لازم ہے کہ اس زبان میں علم تخلیق ہو یا اس میں جدید ترین علم منتقل کر دیا جائے۔ پہلے کام کے لیے ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے جس کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔ دوسری صورت باقی ہے اگر ریاست اس کا ہنگامی بنیادوں پر اہتمام کر سکے۔ ایک اور راستہ یہ ہے کہ اردو انتظامی زبان بن جائے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود ‘آج بھی عدالتی فیصلے انگریزی میں لکھے جا رہے ہیں اورقانون سازی انگریزی میں ہوتی ہے۔ یہی نہیں انتظامیہ کی زبان بھی یہی ہے۔
اگر یہ بنیادی کام کیے بغیر اردو کو تعلیم کی زبان بنانے کی کوشش کی گئی تو یہ ایک نئے بحران کو جنم دے گی۔اشرافیہ تو بچوں کو انگریزی تعلیم دلوا لے گی مگرعام آدمی کو اردو کے راستے پر ڈال کر‘اس کے لیے ترقی کے دروازے بند کر دیے جائیں گے۔اربابِ اقتدار کو اس پر ضرورغورکرناچاہیے۔اشرافیہ کے بچے آج بھی باہر پڑھنے جاتے ہیں یا وہیں پہ رہتے ہیں۔
عالمگیریت نے غیر مغربی تہذیبوں کے لیے بقا کا ایک بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔اس کو سمجھے بغیر اردویا انگریزی کی بحث کو نہیں سمجھا جا سکتا۔جب تک علم مقامی سطح پر تخلیق نہیں ہوگا‘دریوزہ گری کا چلن ختم نہیں ہو سکتا۔اردو کو زندہ رکھنا ہے تو اسے تعلیم سے پہلے علم اور اقتدارکی زبان بنائیے۔