'نظریہ پاکستان‘ کی اصطلاح نے کب جنم لیا؟
ایک طبقے کا اصرار ہے کہ جنرل یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات میجر جنرل شیرعلی خان اس تصور کے خالق ہیں۔اس سے پہلے ہماری تاریخ میں اس کا سراغ نہیں ملتا۔اُن کے خیال میں جب مقتدر طبقے نے مذہب کواپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر نا چاہا تو یہ اصطلاح ایجاد کی گئی۔پاکستان کسی نظریے کے نام پر بنا تھا نہ تحریک ِپاکستان کسی 'نظریہ پاکستان‘ کے لیے برپا ہو ئی تھی۔
یہ ایک پامال بحث ہے۔اگرآج میں اس کا احیا کررہا ہوں تو اس کا سبب ایک نئی کتاب ہے جو اس باب میں بعض ناقابلِ تردید شواہد سامنے لاتی ہے۔اس سے یہ بات متحقق ہو جاتی ہے کہ یہ ا صطلاح جنرل یحییٰ خان کی آمد سے برسوں پہلے قومی مباحث(National Discourse) کا حصہ بن چکی تھی۔یہ کتاب اس دلچسپ پہلو کو بھی بیان کرتی ہے کہ پاکستان میں 'لادینی‘سیاست کی علامت‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ اس کے سب سے بڑے وکیل تھے۔پھر یہ کہ جسٹس محمد منیر بھی اس کے حامی تھے۔
یہ کتاب ڈاکٹر اکرام الحق یٰسین کی تالیف ہے۔اس کا عنوان ہے : ''اسلامی نظریاتی کونسل کے فکری رجحانات کا ارتقا: حکومتی خطابات کی روشنی میں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب اِن دنوں کونسل کے سیکرٹری ہیں۔بطورایک عالم اور محقق‘وہ پہلے ہی سے معروف تھے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں انہوں نے کئی تالیفی و تصنیفی کارنامے سر انجام دیے۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں آنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اُن کوششوں کو اپنی تحقیق کا بطور خاص موضوع بنایا جو پاکستان کو ایک اسلامی تشخص دینے کے لیے ریاستی اور پارلیمانی سطح پر کی گئیں۔اسلامی نظریاتی کونسل کی موجودہ آئینی حیثیت کا تعین 1973ء کے آئین میں ہوا لیکن اس کا تصور کسی دوسرے نام کے ساتھ روزِ اوّل سے موجود تھا۔ڈاکٹر صاحب نے اس سے پہلے اپنی دوکتابوں میں‘ اس تاریخ کو کھنگالا ہے اور یہ بتایا ہے کہ کس طرح یہ تصور ڈاکٹر محمد اسد کی سربراہی میں قائم ہونے والے 'محکمہ اسلامی تعمیرِ نو‘ سے اُٹھا اوربالآخر اسلامی نظریاتی کونسل کی صورت میں متشکل ہوا۔دو جلدوں پر مشتمل زیرِ نظر کتاب‘ 1962ء سے 1972ء تک کی پارلیمانی و سیاسی تاریخ کا جائزہ ہے۔اس میں اہم دستاویزات کو جمع کر دیا گیا جن میں بطورِ خاص پارلیمان کے مباحث ہیں۔
1958ء میں جب مارشل نافذ ہوا تو سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی۔ 1962ء کے انتخابات کے بعد‘حکومت نے سیاسی جماعتوں کی بحالی کا فیصلہ کیا۔اس کے لیے وزیر قانون جسٹس محمد منیرنے30 جون 1962ء کواسمبلی میں ایک بل پیش کیا۔4جولائی کو یہ بل ایک سلیکٹ کمیٹی کے حوالے کردیا گیا۔7جولائی کو کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کردی جس پر بحث کا آغاز ہوا۔وزیر قانون نے بتایا کہ یہ بل دو اصولوں پر مشتمل ہے۔''پہلا اصول یہ ہے کہ ملک میں آزادانہ سیاسی سرگرمی ہو نی چاہیے مگر کچھ تنظیموں پر قانوناً پابندی ہو نی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ خاص قسم کے لوگوں کو کسی سیاسی پارٹی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ اس مقصد کے لیے بل میں ایک دفعہ3 شامل تھی جس میں کہا گیا: ''لوگوں کی کوئی ایسی مجلس یا تنظیم قائم نہیں ہونی چاہیے جس کے مقاصد میں پاکستان یا اس کی وحدت کو نقصان پہنچانا شامل ہو۔ نیز‘پاکستان میں کوئی ایسی جماعت نہیں ہو نی چاہیے جو اپنی بقا کے لیے بیرونی امداد پر انحصار کرتی ہو۔‘‘سلیکٹ کمیٹی نے اس دفعہ میں لفظ 'نظریہ‘(Ideology)شامل کرنے کی سفارش کی۔کمیٹی کے ایک رکن قمرالاحسن نے اسمبلی کو اس کی وجہ بتاتے ہوکہا: ''جو سیاسی جماعتیں انقلاب(مارشل لا) سے قبل کام کر رہی تھیں‘ان میں سے کچھ جماعتوں کا منشوراورحکمتِ عملی براہ ِراست پاکستان کے نظریے‘سلامتی اوروحدت کے خلاف تھے۔کچھ جماعتوں کے بارے میں خیال کیا جا تا تھا کہ وہ محب ِوطن نہیں۔دائیں بازوا ور بائیں بازو میں بھی تنازع رہتاتھا۔کچھ جماعتیں ایسی بھی تھیں جوسرے سے نظریہ پاکستان پر یقین نہیں رکھتی تھیں۔اس بنا پر سلیکٹ کمیٹی نے مناسب سمجھا کہ بل میں 'نظریہ‘ کا لفظ شامل کر دیا جائے‘‘۔
بل پربحث ہوئی تو 'نظریہ‘اس کا مرکزی نکتہ بن گیا۔اس باب میں تین آرا سامنے آئیں۔ایک یہ کہ 'نظریہ‘ کا لفظ شامل نہ کیا جا ئے۔دوسرا یہ کہ 'نظریہ‘ ایک مبہم لفظ ہے۔ بل کی دفعہ 2 جو تعریفات سے متعلق ہے‘اس میں نظریے کی تعریف در ج کی جائے۔تیسرا یہ کہ دفعہ 3 میں 'نظریہ‘ کے بجائے 'اسلامی نظریہ‘(Islamic Ideology)کے الفاظ شامل کیے جائیں۔
ترمیم کے بعدبل کی دفعہ تین کے الفاظ کچھ اس طرح تھے: ''کوئی ایسی سیاسی جماعت تشکیل نہیں دی جا ئے گی جس کا مقصد کسی ایسی رائے کی تبلیغ کرنا یا کسی ایسے طریقے سے کوئی کام کرنا ہوجواسلامی نظریہ برائے وحدت و سلامتی پاکستان کے لیے نقصان دہ ہو۔‘‘ اصل انگریزی الفاظ ہیں: ''..prejudical to the Islamic Ideology for the integrity and security of Pakistan‘‘ اس ترمیم کے ساتھ بل کو کثرتِ رائے کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔
جسٹس منیر نے بل پر جن خیالات کا اظہار کیا‘وہ اُن کے معروف نقطۂ نظر سے بالکل مختلف ہیں۔انہوں نے کہا: ''میں نے اس مسئلے پر خوب غور کیا ہے...لفظ 'آئیڈیالوجی‘ سے پہلے 'اسلامک‘کا اضافہ کرنے سے کسی طرح بھی اقلیتوں کی مذہبی آزادی پر فرق نہیں پڑے گا۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ ان الفاظ کی موجودگی میں بھی وہ اپنی سیاسی جماعتیں تشکیل دے سکیں گی‘مگر شرط یہ ہوگی کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ''اسلامی تصورات‘‘کے خلاف پروپیگنڈے کی شکل نہیں دے سکیں گی‘‘۔ اس بل پر بھٹو صاحب کی تقریر پڑھیے تو خیال ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کا کوئی پُرجوش کارکن 'نظریہ پاکستان‘ کا دفاع کرر ہا ہے۔بھٹو صاحب نے کہا: ''ریاست پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہوگی‘ایک علاقائی ریاست نہیں۔ اگر ہمارے نظریے کوکوئی چیلنج درپیش ہوا تو ہم اپنے نظریے کی برتری کو ثابت کریں گے۔ہم مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ہم اپنے دین کے لیے جانیں قربان کریں گے اور ہم اپنے نظریے کے لیے موت کو گلے لگا لیں گے‘‘۔مزید کہا: ''اقلیتوں کے برابر کے حقوق کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اقلیتیں ریاست کی بنیادی قوت کو ختم کر سکیں گی اور انہیں ریاست کی بنیادوں کو ملیامیٹ کرنے کی اجازت ہو گی۔اس کی اجازت کبھی نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی کبھی دی جا ئے گی۔اگر آپ پاکستان کے نظریے کو مٹا دیتے ہیں توآپ پاکستان کے وجود کو ملیامیٹ کریں گے اور اس بات کی اجازت کبھی اور کسی حال میں نہیں دی جا ئے گی۔‘‘اس بل پر عمدہ بحث ہوئی۔بالخصوص بھٹو صاحب‘ چوہدری فضل الٰہی‘ اخترالدین احمد‘ سید عبدالسلطان‘ حسن اختر راجہ اور عبدالمنتقم چوہدری کی تقاریر پڑھنے کے لائق ہیں۔اس کے لیے آپ کوکتاب کی طرف رجوع کرنا پڑے گا‘جس میں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جو کبھی سامنے نہیں آیا۔ڈاکٹر اکرام الحق یٰسین کی یہ کتاب اسلامی نظریاتی کونسل نے شائع کی ہے۔میرا خیال ہے کہ پاکستان کی نظریاتی سیاست کا کوئی طالب علم اس کتاب سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
میں نے اس بل پر اپنی کسی رائے کا اظہار نہیں کیا۔صرف 'نظریہ پاکستان‘ کے جنم دن کے حوالے سے ایک تحقیق کو سامنے لایا ہوں۔ مخدومی پروفیسر فتح محمد ملک نے اپنی بعض تحریروں میں یہ بتایا ہے کہ قائداعظم نے کب اور کہاں 'آئیڈیالوجی‘کا لفظ استعمال کیااور کتنے واضح مفہوم میں۔ان شہادتوں سے یہ بات‘ بنا کسی شک کے‘ متحقق ہو جاتی ہے کہ نواب زادہ شیر علی خان اس اصطلاح کے 'موجد‘ نہیں تھے۔