یہ دنیا بقائے باہمی سے چلتی ہے، تصادم سے نہیں۔
مظاہرِ فطرت کی شہادت یہی ہے اور انسانی تاریخ کی گواہی بھی۔ دوسروں کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دینا، کل نتیجہ خیز تھا نہ آج ہوگا۔ عالم کے پروردگار نے اپنی آخری کتاب میں یہ فرمایا کہ وہ چاہتا تو عالمِ انسانیت کو ایک امت بنا دیتا۔ اس نے یہ نہیں کیا کہ الٰہی سکیم ہی تنوع کے اصول پر بنائی گئی ہے۔ اس نے انسانوں کوعقیدہ وفکر کے انتخاب کا حق دیا ہے، یہاں تک کہ چاہیں تو اپنے خالق کا انکار کردیں۔ دوسری طرف مظاہرِ فطرت کی رنگارنگی زمین کے حسن کوبڑھا دیتی ہے اورانسانی طبائع و خیالات کا تنوع انسانی تہذیب کو مالامال کر دیتا ہے۔
سماج کی تشکیل جب عالمِ فطرت سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے تو زندگی میں توازن اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ ہر انسان سوچتا ہے۔ یہ لازم نہیں کہ سب کے نتائجِ فکر ایک جیسے ہوں۔ یہ اختلاف افکار کی دنیا میں رنگ بکھیر دیتا ہے۔ اردو شاعری کو دیکھیے۔ کئی دبستان وجود میں آ گئے اور کئی اصناف۔ غالب اور میرکی غزل سے ن م راشد اور مجید امجد کی نظم تک۔ میر انیس کے مرثیے سے اقبال کی مثنوی تک، ایک پھول کے مضمون کو سو رنگ میں باندھا گیا۔ یوں لگا جیسے شہر سخن میں بہار آگئی۔ یہ سخنوری کے مختلف اسالیب ہیں مگر ان میں کچھ اضافی ہے نہ غیرضروری۔ ہمارے ہاں مگرکچھ ایسے بھی تھے جو لاہور اور سرگودھا کے نام پر باہم دست و گریباں رہے۔
جمہوریت فطرت کے اسی اصول کی سیاسی تجسیم ہے۔ یہ اس حقیقت کااعتراف ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا تنوع کے اصول پر بنائی، اس لیے ہمیں اپنے سیاسی نظام میں بھی اس کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ اس سے سیاسی تنازعات کا پرامن حل ممکن ہوگا اور اس کے ساتھ سماج بھی ارتقا کے مراحل طے کر ے گا۔ یہ ارتقا ہے کہ عوام ایک جماعت سے دوسری جماعت اور پھر تیسری جماعت کی طرف رخ کرتے ہیں۔ یوں تجربات معاشرے کو فکری اور عملی اعتبار سے توانا سے تواناتر بناتے چلے جاتے ہیں۔ اگراس بات کو سیاست میں قبول نہ کیا جاتا تو اس ملک میں صرف مسلم لیگ ہوتی یا پھر جماعت اسلامی اور مجلسِ احرار جیسی چند جماعتیں۔ کوئی پیپلزپارٹی ہوتی اور نہ تحریکِ انصاف۔
ان جماعتوں کی جگہ صرف اس لیے بنی کہ سماج میں اختلافِ رائے کو گوارا کیا گیا اور مختلف خیالات کا ابلاغ ممکن ہوا۔ اس اختلاف کو ابلاغ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ عوام کو نئے خیالات کے بارے میں معلوم ہو اور یہ بھی کہ ان کے سابقہ فیصلے درست تھے یا غلط۔ اسی لیے آزادیٔ رائے کو جمہورت کا ناگزیر حصہ سمجھا جاتا ہے۔ کسی سماج میں اگر رائے کے اظہار پر قدغن ہے تو وہ جمہوریت ناقص ہے۔ اسی طرح اگر ایک ہی سیاسی جماعت ہے تووہ جمہوریت نہیں، یک جماعتی آمریت ہے۔
مغرب پر تنقید کے ہزاروں پہلو ہو سکتے ہیں اور سب کودرست بھی کہا جا سکتا ہے مگر اس کا ہم پر یہ احسان ہے کہ اس نے عالمِ انسانیت کو ایک ایسا سیاسی نظام دیا جو نظامِ فطرت سے ہم آہنگ تھا۔ اس نے فطری تنوع کو ایک سیاسی بندوبست میں ڈھال دیا۔ اس سے صدیوں کا وہ مسئلہ حل ہوا جس نے انسانی سماج کو بے امنی کا گھر بنا رکھا تھا۔ یہ سوال انتقالِ اقتدار سے متعلق تھا۔ جمہوریت نے اسے یوں حل کیاکہ اب تصادم کا اندیشہ ختم ہوگیا۔ انسانی فیصلوں میں غلطی اور صحت، دونوں کا امکان ہوتاہے۔ جمہوریت نے اس کی گنجائش پیدا کر دی کہ انسانی غلطی کی تلافی، کسی بڑے نقصان کے بغیر ممکن ہو جائے۔ سیاسی نظام ایسا توانا ہوکہ ٹرمپ جیسی غلطیوں کا بوجھ اٹھا لے۔
یہ کسی معاشرے کی بدقسمتی ہوگی کہ وہ اس پیشرفت کو نظر انداز کرتے ہوئے ماضی کی طرف پلٹنا چاہے۔ جہاں یہ خیال پیدا ہوجائے کہ سماج کی بھلائی ایک جابرانہ نظام سے وابستہ ہے۔ جہاں فسطائی سوچ اشرافیہ میں پھیل جائے اور یک جماعتی آمریت کے خواب دیکھے جانے لگیں۔ جہاں مذہب کی ایسی تعبیر کو فروغ ملے جو جمہوریت کو کفرقرار دیتی ہو۔ درآں حالیکہ سیاسی نظام کفروایمان کا فیصلہ نہیں کرتا، فصلِ نزاع کرتا ہے۔
یہ سراسر انسانی عمل ہے، تاہم عالم کے پروردگار نے بھی اہلِ اسلام کے بارے میں یہی فرمایا ہے کہ ان کا نظام، ان کے باہمی مشورے پر مبنی ہوتا ہے۔ (سورہ شوریٰ)۔ رسالت مآبﷺ دنیا میں موجود تھے، تب بھی مشورہ کیا جاتا تھا۔ ختمِ نبوت کے بعد تو اس کا امکان ہی باقی نہیں رہا کہ روزمرہ امور کے حل کے لیے آسمان سے براہ راست کوئی ہدایت ملے۔ اب تو صرف مشورہ باقی ہے جس میں غلطی اور صحت دونوں کا امکان موجود ہے تاہم اجتماعی دانش میں، سب جانتے ہیں کہ غلطی کا امکان کم ہو جاتا ہے۔
آج حکومت اور ریاستی و سماجی اداروں کے مابین پرامن بقائے باہمی کے بجائے، تصادم کی فضا پیدا ہورہی ہے۔ معاملہ عدالتِ عظمیٰ کے ایک محترم جج سے شروع ہوا اور اب الیکشن کمیشن سے ہوتا ہوا، میڈیا تک پہنچ چکا۔ لازم ہے کہ اس تصادم کا دروازہ بند ہو۔ ایک دو اداروں کا ایک بیج پر ہونا کافی نہیں‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ ریاست اور سماج کے سبھی ادارے حکومت کے ساتھ ایک پیج پر ہوں۔
حکومتوں کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ فریقوں کو ایک پیج پر لائیں۔ میرے نزدیک تو اس کا آغاز حکومت اور اپوزیشن کے مابین موافقت سے ہونا چاہیے تھا۔ میں نے اس پر تکرار کے ساتھ لکھا ہے۔ افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا اور آج معاملات میڈیا تک پہنچ گئے۔ میڈیا کو میں ریاستی نہیں، سماجی ادارہ مانتا ہوں۔ یہ ریاست کا نہیں، سماج کا ستون ہے۔ میڈیا سے تصادم سماج سے تصادم کا آغاز بن سکتا ہے۔
کم ازکم ہماری تاریخ یہی ہے کہ تصادم کا سب سے زیادہ نقصان حکومتِ وقت کو ہوتا ہے۔ حکومت کو افغانستان کی صورتحال سے قوت ملی ہے کہ اس عالم میں ملک کی فضا کسی احتجاج کے لیے سازگار نہیں رہی۔ اس کو موقع جان کر اتفاقِ رائے کی طرف بڑھنا چاہیے۔ سیاسی استحکام، حکومت اور ہیجان، اپوزیشن کے حق میں ہوتا ہے۔ تحریکِ انصاف کی قیادت کو شعوری طور پر سمجھنا ہوگا کہ وہ آج اپوزیشن میں نہیں، حکومت میں ہے۔ اگر وہ اس زاویہ نظر سے سوچیں گے تو ان کی حکمتِ عملی بھی بدل جائے گی۔
انسان نے اپنے سماجی مسائل میں فطرت سے انحراف کیا تو اپنے مسائل میں اضافہ کیا۔ جنس انسانی جبلت ہے۔ اس کے مطالبات کو اگر فطرت کی روشنی میں مخاطب بنایا جائے تو زندگی پُرسکون ہوتی ہے‘ اگر انہیں نظر انداز کیا جائے تو ایڈز جیسے جسمانی امراض سے لے کر بہت سے نفسیاتی عوارض انسان کو گھیر لیتے ہیں۔ مغرب کا ایک المیہ یہ ہے کہ اس نے فطرت کے اصول کا سیاست میں تو اطلاق کیا مگر معاشرت میں بھلا دیا۔ ہم نے معاشرے میں کسی حد تک اسے قبول کیا تو بڑے مسائل سے محفوظ ہیں۔ سیاست میں، مگر ماضی کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں۔
جمہوریت کی طرف ہماری پیش قدمی حوصلہ افزا نہیں۔ کبھی بھی نہیں تھی۔ ترقیٔ معکوس تو اس سے بھی ابتر ہوگی۔ ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔ پاکستان کی سرحدوں پر انتشار ہے۔ اس انتشار میں ہمارے دشمن اپنے لیے مواقع تلاش کررہے ہیں۔ یہ انتشار اگر داخل میں بھی سرایت کر گیا تو ہماری مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا۔ اس کیلئے ہمیں تصادم نہیں، مفاہمت اور پرامن بقائے باہمی کے اصول کو اپنانا ہوگا۔ مظاہرِ فطرت کی پکار یہی ہے اور انسانی تاریخ کا سبق بھی یہی ہے۔ کوئی ہے جو سنے اور سمجھے۔