مذہب کا انتخاب انسان کا بنیادی حق ہے۔یہ حق انسان کو عالم کے پروردگار نے دیا ہے اورانسان ساز افکار نے بھی۔یہ ان چند نکات میں سے ہے جن پر مذہبی اور غیر مذہبی طبقات کا اتفاق ہے۔ پھر یہ حالیہ نزاع کیوں ہے؟
مذہب کا انتخاب اگر انسان کا بنیادی حق ہے تو پھر کسی کو مذہب کی تبدیلی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔لہٰذا مذہب کی جبری تبدیلی مذہب کی نظر میں جرم ہے اور قانون کی نظر میں بھی۔پاکستان میں اقلیتوں کے بعض حلقوں میں یہ شکایت پیدا ہوئی کہ ان کی کم سن بچیوں کو مذہب کی تبدیلی پر مجبور کیا جاتا ہے اور اکثریت کے سماجی جبرکی وجہ سے وہ اس کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے۔اس کے ساتھ ان بچیوں کی مسلمان لڑکوں سے شادی بھی کراد ی جا تی ہے جس سے ان کی واپسی کا راستہ بھی بند ہو جا تا ہے۔حکومت نے اس کو روکنے کے لیے ایک بل متعارف کرایا جس میں بعض دفعات ایسی ہیں جن پر ردِ عمل ہوا اور یوں ایک بحث چل نکلی۔
ہمارا آئین بنیادی حقوق کو مانتا ہے‘اس میں مذہب کا انتخاب فرد کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے لہٰذا جبری مذہبی تبدیلی بدیہی طور پر جرم ہے۔اس کے لیے شاید مزید کسی قانون سازی کی ضرورت نہ ہو۔مذہبی آزادی کو برقرار رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے اوراس کا مطالبہ کیا جا نا چاہیے۔نفاذِقانون کے لیے قائم ادارے متاثرین کی داد رسی کے پابندہیں۔
اس بل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے‘میرا خیال ہے کہ چند سوالات پر سنجیدہ غور ہو نا چاہیے۔حکومت نے اس معاملے میں درست فیصلہ کیا کہ اسے اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے کر دیا۔کونسل اس کا دینی پہلو سے جائزہ لے گی لیکن یہ مسئلہ دینی ہی نہیں‘سماجی بھی ہے۔اس لیے ایک وسیع تر مشاورت کا متقاضی ہے۔یہ سوالات اس بحث کی تفہیم میں معاون ہو سکتے ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ مذہب کی جبری تبدیلی محض الزام ہے یااس میں کوئی سچائی بھی ہے؟ اس کا جواب اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس نہیں ہے۔سادہ جواب یہ ہے کہ وزارتِ انسانی حقوق اس پرالزام عائد کرنے والوں سے شواہد طلب کرے اور پھران کی مشاورت سے ایک کمیٹی بنائے جو ان علاقوں کا دورہ کرے اور اپنے طور پر الزام کا جائزہ لے۔قانون سازی اس کے بعد کا مرحلہ ہے۔میرے علم کی حد تک یہ مرحلہ ابھی طے نہیں ہوا۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کیا سب کوتبلیغ کا حق حاصل ہے؟ اگر ہے تو اس کی حدود کیا ہیں؟یہ تو میں جانتا ہوں کہ مسلمانوں کے اندر بڑی تبلیغی جماعتیں موجود ہیں۔پاکستان میں یہ جماعتیں زیادہ تر مسلمانوں ہی میں تبلیغ کرتی ہیں۔اس کی نوعیت تذکیر کی ہے۔اس کا تعلق تبدیلیٔ مذہب سے نہیں ہے۔معروف تبلیغی جماعت قیامِ پاکستان سے پہلے برصغیر میں موجودتھی اور متحرک تھی ۔میرے علم میں نہیں ہے کہ اس جماعت سے غیر مسلموں کو کبھی کوئی شکایت پیدا ہوئی ہو۔یہ مسئلہ حال ہی میں اٹھا ہے۔سوال یہ ہے کہ اقلیتوں کو کس گروہ سے شکایت ہے اور کیوں ہے؟
پھر یہ کہ کیا تبلیغ کا حق یک طرفہ ہے؟کیا غیر مسلموں کو پاکستان میں اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت ہے؟ یہ سوال اسلامی نظریاتی کونسل اور علما سے متعلق ہے۔پاکستان میں اگر سب شہریوں کے حقوق بر ابر ہیں‘ تو کیا برابری کے اس اصول کا اطلاق تبلیغ کے معاملے میں بھی ہو تا ہے؟مثال کے طور پر یورپ اور امریکہ وغیرہ میں سب کو تبلیغ کی اجازت ہے۔ مسلمانوں کی تبلیغی جماعتیں عشروں سے ان ممالک میں متحرک ہیں اور انہیں کسی نے کبھی روکا نہیں۔
امریکہ کے ایک سفر میں میرا سالٹ لیک سٹی جانا ہوا۔میں جمعہ کے دن وہاں کی ایک بڑی مسجد میں نمازِ جمعہ کے لیے گیا۔میں نے دیکھا کہ ایک جگہ ایک الماری میں قرآن مجیدکے بہت سے نسخوں کے ساتھ 'فضائلِ اعمال‘ بھی رکھی تھی۔یہ تبلیغی جماعت کا نصاب ہے۔ساتھ ہی ایک رجسٹر پڑا تھا جس پر ان لوگوں کے نام درج تھے جنہوں نے ہفتے کے مختلف دنوں میں گشت کے لیے اپنا نام لکھوا یا تھا۔کیا پاکستان میں بھی سب مذاہب کو یہ آزادی حاصل ہے؟کیا دین میں اس کی کوئی ممانعت ہے؟اس سوال کا جواب علما کے ذمہ ہے۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرنا چاہے تو کیا اس پر عمر کی قید لگائی جا سکتی ہے جو مجوزہ قانون میں لگائی گئی ہے؟کیا اس پر قرآن مجید یا رسالت مآبﷺ کی کوئی واضح ہدایت موجود ہے؟اگر نہیں تو کیا ریاست یہ حق رکھتی ہے کہ سدِ ذریعہ کے اصول پر اس پر پابند ی لگا دے؟ یہاں پھر وہ مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے کہ تبدیلی مذہب کوئی یک طرفہ عمل نہیں ہو سکتا۔اگر قانون بنے گا تو کیا اس کا اطلاق یکساں طور پر ہوگا؟ اس مسئلے کو بھی اہلِ علم ہی حل کر سکتے ہیں۔
چوتھا سوال یہ ہے کہ اقلیت کے باب میں اکثریت کی ذمہ داری کیا ہے؟کسی اقلیت کا مسلسل خوف میں مبتلا رہنا‘کیا کسی اکثریت کے لیے باعثِ فخر بات ہے؟ یہ سوال عوام سے ہے۔ یہ سوال ہمیں اپنے آپ سے کرنا ہے۔ایسے سوالات کے بارے میں اقبال کی نصیحت یہ ہے کہ' اپنے دل سے پوچھ‘ملا سے نہ پوچھ‘۔اس کے لیے ہمیں اپنا جائزہ لینا ہے۔ایک غیر مسلم‘ مسلمان کے سامنے اپنے خیالات کے اظہار میں خود کو کتنا آزاد سمجھتا ہے؟وہ مسلمانوں سے خوف کھاتا ہے یا انہیں اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کا محافظ سمجھتا ہے؟مذہب کی جبری تبدیلی کا گہرا تعلق اس سوال کے ساتھ ہے۔
ہمیں ان سوالات پرغور کرنا ہے۔ہر مسئلہ اس لیے نہیں ہوتا کہ اس کا فیصلہ کسی میدانِ کارزار ہی میں کیا جائے۔اگر اختلاف کسی داخلی معاملے میں ہے تو اس کا حل مکالمہ ہے۔ہمیں بات کر نی چاہیے۔ہمیں اکثریت اقلیت کی تقسیم سے بلند ہو کر‘ ہر مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھنا چاہیے۔پاکستان ایک ملک ہے جسے پُرامن رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔اگر ہم تین فیصد آبادی کو خوف کی فضا سے نہ نکال سکیں تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہ بات ہمارے لیے باعثِ عزت ہے یا باعثِ ندامت؟
ریاست کا جدید تصور اکثریت اقلیت کی بحث سے ماورا ہے۔ہم ابھی تک اس کا شکار ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے جدید ریاست کونہیں سمجھا۔ہم ابھی تک اسے قدیم فقہ کی نظر سے دیکھتے ہیں جو فاتح اور مفتوح کی نفسیات کے زیرِ اثر مرتب ہوئی اورجس میں شہریت کا جدید تصور موجود نہیں تھا۔مجھے پورا یقین ہے کہ وہی فقہا اگر جدید ریاست کو سامنے رکھ کر فقہ مرتب کرتے تو ان کے نتائجِ فکر بالکل مختلف ہوتے۔ یہ کام آج کے علما کا ہے کہ وہ پہلے جدید ریاست کے تصور کو جانیں اور پھر اس کو سامنے رکھ کر دین کے باب میں راہنمائی کریں۔
اسلامی نظریاتی کونسل ایک اجتہادی ادارہ ہے۔اس سے بجا طور پر یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ جدید معاملات میں قوم کی راہنمائی کرے گا۔فقہ کی قدیم کتب سے اقوال نقل کر دینا اجتہاد نہیں ہو تا۔یہ کام علمِ فقہ کا کوئی مبتدی بھی کر سکتا ہے۔جدید قومی ریاست میں تبدیلی مذہب ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس پر ریاست کو راہنمائی کی ضرورت ہے اور عوام کو بھی۔