موت کی سزا ‘کیاآنے والے دنوں میں ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی؟
10اکتوبر کو‘ سزائے موت کے خلاف عالمی دن کے طور پر منایا جا تا ہے۔اس کا آغاز 2003ء میں ہوا۔آج اقوامِ متحدہ‘یورپی یونین ‘ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دنیا کا ایک بڑا حصہ اس مہم کی پشت پر ہے۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی اس پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔باہمی معاہدے اب اس کے ساتھ مشروط کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ سزا موجود ہے لیکن کم وبیش دو سال سے کسی پر یہ سزا نافذنہیں کی گئی۔
اس باب میں تو اتفاقِ رائے ہے کہ سزا دینے کا حق ریاست اور حکومت کے پاس ہے۔اختلاف اس میں ہے کہ سزا کے معاملے میں‘ کیاریاست کی تحدید کی جا سکتی ہے؟ جہاں جمہوریت ہے‘وہاں مطلق اقتدار کا تصورختم ہو چکا۔ریاست اُس قانون کی پابند ہے جو عوامی نمائندے بناتے ہیں۔عوامی نمائندے اجتماعی شعور اور نظامِ اقتدار سے بغاوت نہیں کر سکتے۔اگر معاشرے کا نظامِ اقتدار کسی قدر کو قبول کر لے تو قانون سازی کا عمل اس کے تابع ہو جاتا ہے۔لبرل ڈیموکریسی جن اقدار کو مانتی ہے‘اس میں انسانی جان کا تحفظ بنیادی حقوق میں شامل ہے اور اس کے برخلاف کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کے برخلاف مطلق العنانیت ہے۔ اس کامطلب ہے کہ قانون سازی کے باب میں ریاست پرکوئی حد مقرر نہیں کی جا سکتی۔ریاست جو سزا چاہے‘دے سکتی ہے۔ یہ بادشاہتوں میں ہوتا ہے یا آمریتوں میں۔آمریت کسی ایک جماعت کی بھی ہو سکتی ہے اور کسی ایک ادارے کی بھی جو کسی کو جواب دہ نہ ہو۔آج دنیا میں بہت سے ممالک میں یہ طرزِ حکمرانی پایا جاتاہے۔
ایک فرق اور بھی ہے۔مطلق العنانیت عام طور پر سخت قوانین پر یقین رکھتی ہے۔اس کا خیال ہو تاہے کہ اقتدار جبر سے قائم رہتا ہے۔اگر عوام پر خوف کی فضا طاری رہے تووہ حکمران طبقے کے خلاف اٹھنے سے ڈرتے ہیں۔ خوف کے لیے سخت سزائیں ضروری ہیں۔موت سے سخت سزا کیا ہو سکتی ہے؟اسی کے زیرِ اثر یہ تصور پروان چڑھا کہ جرم کا خاتمہ سخت سزاؤں کا متقاضی ہے۔اس کی ایک عام فہم تعبیر یہ کی جا تی ہے کہ اگر کرپشن کے بیس مجرموں کو سرِ عام پھانسی دے دی جائے تو ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔اس باب میں چین کی مثال پیش کی جا تی ہے جہاں ‘اس خیال کے مطابق‘کرپشن اس لیے کم ہے کہ سزائیں سخت ہیں۔یا جب یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو کسی خمینی کی ضرورت ہے تو اس کے پس منظر میں بھی یہی تصور کار فرما ہو تا ہے۔ جمہوریت میں اقتدار کی قوت جبر میں نہیں‘عوامی تائید میں ہوتی ہے۔
اسلام کا تصورِ جرم وسزا‘ان دونوں تصورات سے مختلف ہے۔یہ سزا کو معاشرتی حالات کے تابع رکھتا ہے۔یہ جرم کی نوعیت اور حالات کودیکھتاہے۔عام اخلاقیاتِ قانون بھی اسی اصول کو تسلیم کرتی ہیں۔آج بھی عدالتیں کم ازکم جمہوری ممالک میں اسی اصو ل کا اطلاق کرتی ہیں۔اسلام کی جن سزاؤں کو سخت کہا جاتا ہے‘ان کو صحیح تناظر میں نہیں سمجھا گیا۔ایک تو یہ انتہائی سزائیں ہیں۔یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ وہ ان سے کم سزا دے۔زیادہ البتہ وہ نہیں دے سکتی۔دوسرا یہ کہ اس میں مجرم اور سماج کی عوامی صورتِ حال کو سامنے رکھا جا ئے گا۔
مسلمان اہلِ علم نے اس نکتے کو بیان کیا ہے۔مثال کے طور پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں: ''بلاشبہ اسلامی قانون چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا دیتا ہے مگریہ حکم ہر سوسائٹی میں جاری ہونے کے لیے نہیں دیا گیا‘بلکہ اسے اسلام ہی کی اس سوسائٹی میں جاری کرنا مقصود تھا جس کے مال داروں سے زکوٰۃ لی جا رہی ہو‘جس کا بیت المال ہر حاجت مند کی امداد کے لیے کھلاہو‘جس کی ہر بستی پر مسافروں کی تین دن کی ضیافت لازم کی گئی ہو۔یہ حکم آپ کی موجودہ سوسائٹی کو نہیں دیا گیا جس میں کوئی شخص کسی کو قرض بھی سود کے بغیر نہیں دیتا۔جس میں بیت المال کی جگہ بینک اور انشورنس کمپنی ہے۔...‘‘(اسلامی قانون‘‘صفحہ 23,24 )۔
مولاناکی یہ تحریر قیامِ پاکستان سے پہلے کی ہے۔ اُس وقت مسلمانوں کی کوئی ریاست موجود نہیں تھی۔اگر پاکستان بننے کے بعد ‘معاشرتی حالات میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی تو اس کا اطلاق اسی طرح ہوگا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جواصول بیان کیا گیا ہے وہ مطلق ہے۔ جاویداحمد غامدی صاحب اسلام کے اس تصورِجرم و سزا کا ایک اور پہلو بھی بیان کرتے ہیں جوقانونی نہیں ‘'مذہبی‘ ہے۔ان کے مطابق ''ان سزاؤں سے مقصود محض جرم کااستیصال نہیں ہے بلکہ ان مجرموں کو خدا کے عذاب کا مزا چھکانا اور دوسروں کے لیے عبرت بنا دینا بھی ہے جنہوں نے پورے شعور کے ساتھ اپنے آپ کو خدا اور رسول کے حوالے کیا‘ان سے عہدِ اطاعت باندھا‘ان کے دین کو دین کی حیثیت سے تسلیم کیا‘ اور اس کے بعد چوری اور زنا جیسے جرائم میں اس حد تک ملوث ہوگئے کہ خدا نے ان کا پردہ فاش کر دیا اور معاملات عدالت تک پہنچ گئے۔‘‘ (مقامات... صفحہ 234)۔
گویا یہ سزائیں صرف شعوری مسلمانوں کے لیے ہیں اور اس کی ایک خاص وجہ ہے جوجاوید صاحب نے بیان کر دی۔اب جو اسلام کو بطور دین نہیں مانتا‘سزا کا یہ پہلو اُس سے متعلق نہیں ہے۔اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔تاہم ریاست ان کے لیے جس طرح کی قانون سازی کرنا چاہے کر سکتی ہے۔اس کا تعلق جزاو سزا کے عمومی قانون سے ہوگا۔ اس کے ساتھ‘قرآن مجیدموت کی سزا کو صرف دوجرائم کے لیے آخری سزا کے طور پر بیان کر تا ہے۔یہ فساد فی الارض اور قتل ہیں۔
ہمارے تصورِ جرم وسزا کے مطابق‘ اس آخری سزا کو اس لیے باقی رہنا ہے کہ فساد فی الارض اور قتل جیسے جرائم متقاضی ہوتے ہیں کہ ان کی سخت سزا دی جائے۔ یہ دراصل معاشرے کے لیے زندگی کا پیغام ہے۔اس لیے قرآن مجید نے بتایا ہے کہ قصاص میں زندگی ہے۔تاہم ہراطلاق سماجی حالات کے تابع ہے۔گویا موت کی سزا‘ہمارے نزدیک بہت کم جرائم کے لیے ہے اور اس کے ساتھ‘سزا کا اطلاق معاشرتی حالات کے تابع ہے۔ جرم و سزا کے باب میں سب سے متوازن رویہ یہی ہو سکتا ہے۔
لبرل ازم اور مطلق العنانیت دو انتہاؤں پر کھڑے ہیں۔لبرل معاشروں میں تاہم مکالمے کا دروازہ کھلا ہے۔اسی لیے موت کی سزا کہیں موجود ہے اور کہیں اس کو ختم کر دیا گیا ہے۔پاکستان کو دیکھنا ہے کہ وہ اس معاملے میں کون سا موقف اختیارکر سکتا ہے جوعالمی سطح پر قابلِ قبول ہو سکتا ہے۔کہاں داخلی نظام میں اصلاح کی ضرورت ہے اور کہاں ہمیں دنیا کے ساتھ مکالمہ کر نا ہے۔
یہ معاملہ آگے بڑھے گا۔افغانستان کو آج کل اسی چیلنج کا سامنا ہے۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے لیے آنے والے دنوں میں کیا مسائل ہو سکتے ہیں۔دنیا سے مکالمہ کرنے سے پہلے‘ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔ دین کے تعبیر پر مکالمہ مسلمان معاشرے کی روایت ہے۔ اسے آج بھی جاری رہنا چاہیے۔ مکالمے کی یہ روایت مسلمان معاشرے کو لبرل معاشرے سے قریب تر کرتی ہے۔ مطلق العنانیت اور جبر البتہ اسلام کے لیے کسی طور قابلِ قبول نہیں۔ وہی فقہی تعبیر نافذ ہو گی جس پر عوام کی اکثریت کا اعتماد ہو گا۔